عمران خان نے جس وقت دھرنے کا آغاز کیا بات چار حلقوں سے شروع ہوئی تھی۔ادھر ڈاکٹر طاہر القادری ماڈل ٹاون سانحہ کے متاثرین کے لئے انصاف کے طلب گار تھے۔دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف اپنی حکمران اشرافیہ کے ساتھ اعتماد کی بلندیوں پہ تھے۔ انہیں علم تھا کہ یہ انتخابات ان کے پلڑے میں ڈالے گئے ہیں اور یہی کافی تھا۔ تائید غیبی ان کے حق میں سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی تھی۔ ملک میں ایک ساتھ کئی آپریشن جاری تھے۔ عمران خان طالبا ن خان ہونے کی بھپتی سہہ رہے تھے اور کوئی انہیں چانس دینے کو تیار نہ تھا۔ نظریہ ضرورت کا تقاضہ تھا کہ آزمائے ہوئے کو آزمایا جائے جو بلا چوں چراں حکمت عملی کو آگے بڑھاتا رہے۔ حکمت عملی کیا تھی،مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل تھا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا کہ ملک بغیر کسی وزیر خارجہ کے چلتا رہا کہ یہ منصب اس وقت اضافی تھا۔ خارجہ پالیسی براہ راست کہیں اور سے چلائی جارہی تھی۔ کشمیر میں مکمل خاموشی طاری تھی اور نواز شریف اپنے بھارتی دوست کے ساتھ پینگیں بڑھائے جارہے تھے۔ عمران خان اس ماحول میں وہ آواز تھے جس میں آواز ملانے والا کوئی نہیں تھا۔ اپوزیشن ایک خاموش معاہدے کے تحت حکومت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی تھی۔ طاہر القادری کسی بھی وقت داغ مفارقت دینے کو تیار تھے۔ ماڈل ٹاون کیس ہمارے عدالتی نظام کی بھول بھلیوں میں گم ہوگیا تھا جہاں حکمران اپنے پنجے گاڑے بیٹھے تھے۔ عین دھرنے کے عروج میں جاوید ہاشمی نے اعلان بغاوت کردیا تھا۔ایک صوبے میں عمران خان کی اتحادی جماعت تک ان کے ساتھ نہیں تھی۔وہ حسب معمول یکطرفہ ٹریفک پہ اپنی گاڑی غلط سمت میں دوڑائے جارہے تھے۔اس کی انہیں خوب پریکٹس تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان اپنے پارٹی کارکنان کے ساتھ اکیلے کھڑے تھے۔ جس وقت پانامہ ہوا، عمران خان کی توجہ چار حلقوں کی کشمکش سے نکل کر ایک واضح اور دو ٹوک نکتے پہ مرکوز ہوگئی۔ کرپشن، آف شور کمپنیاں،منی لانڈرنگ اور حکمرانوں کی عیاشیا ں جو ملک کے عوام کو ناانصافی، معاشی ناہمواری اور غربت کے دلدل میں دھکیل دیتی ہیں اور ملکی معیشت کو ہر بار پیچھے کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔اس کا توڑ کرپٹ حکمرانوں نے اپنے طریقے سے نکالا۔معیشت کو انجیکشن لگاتے گئے، روپے کو مصنوعی قدر پہ رکھا اور عوام کو پتا نہیں لگنے دیا کہ میگا پروجیکٹس کی آڑ میں ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جس وقت عمران خان قوم کے بچے بچے کو سبق پڑھا رہے تھے کہ کرپشن کیا ہوتی ہے اور کن منصوبوں میں کس طرح کمائی کی جاتی اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور حکمرانوں کی عیاشیاں کس طرح ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں،اس وقت حکمرانی ٹولے کی گردنوں میں تکبر کے سریے تھے اور انہیں یقین تھا کہ کوئی انہیں مسند اقتدار سے ہلا نہیں سکتا۔ عمران خا ن لیکن اکیلے ہی ڈٹے رہے۔ یہاں سوشل میڈیا پہ تحریک انصاف کے کارکنان چومکھی لڑتے رہے۔ دھرنے میں شریک خواتین کے متعلق جو زبان مذہب کے ٹھیکے داروں نے استعمال کی اس کا نشانہ میں بھی ہوں۔ان میں اس وقت کے پی کے میں تحریک انصاف کے شریک اقتدار جماعت اسلامی کے کارکنان پیش پیش تھے۔یہ دل شکن داستان ، چشم کشا بھی ثابت ہوئی اور بہت سے چہرے بے نقاب ہوئے۔برسبیل تذکرہ ،آج مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے وقت یہی کارکنان سود سمیت حساب چکتا کررہے ہیں۔ انہوں نے نہ کبھی مذہب کی ٹھیکے داری کا دعوی کیا نہ اخلاقیات کے اعلی مقام پہ فائز صالح جوانیوں کا۔اس دوران نواز شریف نے حسب عادت سرخ لائنیں عبور کرنے کی کوشش کی اور دھرلئے گئے۔ پاناما کیس پہلے ہی عدالت میں تھا۔عمرا ن خان قوم کا موڈ بنا چکے تھے ۔ عالمی کینوس تیزی سے رنگ بدل رہا تھا لیکن اپنی لوہے کی ناک سے آگے دیکھنے کی حکمرانوں میں نہ اہلیت تھی نہ فرصت۔البتہ انہیں اقتدار سے چمٹے رہنے اور اپنے اثاثوں میںہوش ربا اضافہ کرنے کے ایک سے ایک طریقے آتے تھے جن پہ وہ بغیر بریک لگائے رواں دواں تھے۔ ملکی معیشت مصنوعی تنفس پہ سانس لے رہی تھی اور وزیر خزانہ ڈالر بیچ رہا تھا۔سکوک بانڈز بھی اپنے ہی خاندان کو فروخت کئے گئے جو موجودہ حکومت قانونی مجبوری کے تحت ادا کرنے پہ مجبور ہوئی۔ ان تمام حالات کے باوجود سب کچھ ہوا، یعنی نواز شریف نااہل ہوئے،جیل گئے،لندن گئے، واپس آکر گرفتار ہوئے، مریم نواز جیل گئیں،ضمانتیں ہوئیں، منسوخ ہوئیں، وزیر خزانہ مفرور ہوا لیکن جمہوری تسلسل چلتا رہا۔ ڈان لیکس اور نواز شریف کی کھلی چھیڑ چھاڑ کے باوجود فوج نے مداخلت سے صاف انکار کردیا۔ آج مولانا فضل الرحمن دھرنا دینے کے لیے نکلے ہیں۔ حالات کیا ہیں؟ عمران خان اور فوج میں مثالی تال میل موجود ہے۔ مکمل طور پہ بٹی ہوئی اپوزیشن جو عمران خان کی شدید مخالف اور زخم خوردہ ہے، ان کے ساتھ نہیں ہے۔عمران خان کی براہ راست حریف جماعت نون لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ شرکت کا فیصلہ پارٹی کریگی۔ دوسری متاثرہ جماعت پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ کھوکھرکا کہنا ہے کہ معاملہ پارٹی کی کور کمیٹی میں ہے۔سراج الحق نے کہا کہ ہمیں دعوت نہیں ملی۔حاصل بزنجو ،آفتاب شیرپائو ،میاں افتخار،ثنا بلوچ،مصطفی کمال نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ دو بڑی جماعتوں کا سیدھا سا مسئلہ ہے۔ نون لیگ اینٹی اسٹبیشمنٹ بیانیے پہ اپنے سارے کارڈ پہلے ہی کھیل کر منہ کی کھا چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کا تقریبا ہر بڑا رہنما بدترین کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے ۔ ایسے میں ان کا حکومت کے خلاف سڑکوں پہ آنا صرف اپنی کرپشن بچانے کا ایجنڈا ہوگا ، عوام کو جس سے کیا غرض ہوسکتی ہے۔ لے دے کر مولانا فضل الرحمن کے پاس ایک مذہبی کارڈ رہ گیا تھا، پیپلز پارٹی جس کی شدید مخالف ہے کہ بلاول کے نانا پہ ایک طبقے کی طرف سے مذہبی دباو ٔمیں شراب پہ پابندی اورقادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا الزام ہے تو دوسری طرف وہ تحریک نظام مصطفی کی متاثرہ ہے۔اقوام متحدہ میں عمران خان کی ناموس رسالت پہ امت کی موثر ترجمانی اور مسلم نوجوانوں میں اشتعال کا سبب مغرب کو ٹھہرانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کی پوزیشن واضح کرنے نے اس مذہبی کارڈ کو اڑا کر رکھ دیا۔وہ مدرسوں میں اصلاحات اور مدرسے کے فارغ التحصیل طلبا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ ایک کارڈ مہنگائی اور معاشی سست روی کا رہ گیا تھا جس پہ تاجر سراپا احتجاج تھے اور یہی موثر بھی ہوسکتا تھا۔ آرمی چیف اور وزیر اعظم دونوں نے ان سے ملاقات کرلی اور نیب کو بھی اشارہ کیا کہ ذرا مشکیں ڈھیلی کرے وہ اس نے کردی ہیں۔ اب مولانا کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ کھل کر حکومت سے عرض تمنا کرڈالیں۔