یہ کالم میں دو دن پہلے جمعہ کی رات اس وقت لکھ رہا ہوں جب مولانا فضل الرحمان کا دھرنا عروج پر دکھائی دے رہا ہے، بے شک وہاں مدرسوں کے طلباء کا جم غفیر ہے، میں ذاتی طور پر اپنے رسک پر وہاں موجود لوگوں کی تعداد کو ایک لاکھ سے سوا لاکھ تک تصور کر رہا ہوں،چاہے وہاں ساٹھ ستر ہزار سے بھی کم لوگ ہوں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو چھوڑئیے، کراچی سے اسلام آباد تک کے اس سفر میں کوئی ایک عام شہری بھی مولانا کا شریک سفر نہ ہوا، نجانے کیوں ایک زبردست سیاسی شو کے باوجود مولانا کو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہو پائی اور یہ مارچ اور دھرنا وہ مقام حاصل نہ کر سکا جس کی عمومی طور پر توقع کی جا رہی تھی،شاید لوگ یہ سوچتے رہے کہ عمران خان کا استعفیٰ ان کے مسائل کا حل نہیں ہے، لوگ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا ان کے حقوق کی لڑائی نہیں لڑ رہے،وہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے خلاف میدان میں نہیں اترے بلکہ وہ اپنی بھیانک شکست کا بدلہ لے رہے ہیں، دوسری اہم بات مولانا کا وہ لقب اور خطاب بھی ہے جو انہیں مخالفین نے عطا کر رکھا ہے’’مولانا ڈیزل،، یہ اسی طرح کا خطاب ہے جس سے آصف علی زرداری کو ن لیگ نے سرفراز کیا تھا،،،، مسٹر! ٹن پرسنٹ،، زرداری صاحب کو ملنے والا یہ اعزاز بھی اتنا پکا ہو چکا ہے کہ خود پیپلز پارٹی کے لوگ بھی اب تک انہیں،، مسٹر کلین،، ماننے کو تیار نہیں ،،،،،، اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا کا آزادی مارچ اور دھرنا اور آگے بڑھے گا، میں پوچھتا ہوں کہ اور کہاں تک آگے بڑھے گا؟ یہ دھرنا جہاں تک چاہے آگے بڑھ جائے عمران خان کے دامن تک نہیں پہنچ پائے گا۔ مولانا اب تک جتنے مقاصد حاصل کر چکے ہیں اس کے بعد ان کا کوئی ٹارگٹ بچا ہی نہیں ہے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی اس دھرنے میں تابڑ توڑ تقریریں کر چکے ہیں۔ بلاول بھٹو کی تو دو تقریریں ہو چکی ہیں، مولانا فضل الرحمان کے خطاب کو چی گویرا کے خطاب سے زیادہ ’’انقلابی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے، ان کا خطاب اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت سے بھی ’’بڑی بغاوت‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنے کے لئے آج تک کی مہلت دے رکھی ہے اور انتباہ کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے پرائم منسٹر ہاؤس خالی نہ کیا تو عوام کا سمندر انہیں ان کے گھر سے گرفتار کر لے گا ’’زندہ باد مولانا زندہ باد‘‘ اتنی بڑی جنگ اور وہ بھی صرف اپنے بل بوتے پر، سلام آپ کے امن مارچ کواورسلام آپ کے دھرنا کو’’امن کا نوبل ایوارڈ‘‘ ملنے سے اب کوئی نہیں روک سکتا، بلاول بھٹو نے تو اپنی سیاسی بصیرت کا خوب استعمال کیا، پہلی بار وہ مولانا کے سجے سجائے پنڈال میں اپنے کثیر تعداد میں کارکنوں اور پیپلز پارٹی کے جھنڈوں سمیت اس وقت گھسے جب مولانا کا قافلہ جلسہ گاہ تک نہیں پہنچا تھا۔ بلاول بھٹو نے مولانا کا جلسہ پیپلز پارٹی کے جلسے میں تبدیل کر دیا۔ جمعیت کے کارکنوں کی آوازیں معدوم ہو گئیں اور بھٹو ازم کو زندہ کر دیا گیا۔ ن لیگ والے اس جھگڑے میں پھنس گئے کہ جلسہ اکتیس اکتوبر کی بجائے یکم نومبر کو نماز جمعہ کے بعد کیوں ہوگا۔ شہباز شریف لاہور میں ہی بیٹھے رہے اور بلاول اپنا کام دکھا گئے۔ عمران خان نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی کوریج سے پابندی اٹھا لی، یہ پابندی ان کی مشیر اطلاعات کی طرف سے عائد کی گئی تھی جو ایک انتہائی غیر جمہوری اور آمرانہ اقدام تھا، آزادی صحافت کے حوالے سے پی ٹی آئی جنرل ضیاء الحق کے ریکارڈ بھی توڑ چکی ہے، شاید اسی لئے سالہا سال کی کاوشوں اور ایک منظم منصوبے کے تحت صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں کو بھی غیر فعال کیا گیا۔ ماضی کے کسی بھی آمرانہ یا جمہوری دور میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ صحافت پابند زنجیر ہو اور صحافی خاموش ہوں۔ مولانا فضل الرحمان کی ’’ساتھی‘‘ جماعتوں میں شامل کم از کم دو بڑی سیاسی پارٹیاں مولانا کے ’’ایجنڈے‘‘ سے ہی متفق نہیں ہیں۔ ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتیں، وہ پارلیمنٹ کے ذریعے ’’چہرہ‘‘ بدلنا چاہتی ہیں۔ ان دونوں کی خواہش ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ اصل بات یہ بھی ہے کہ اگر دوبارہ الیکشن کرا بھی دئیے جائیں تو ’’مطلوبہ‘‘ نتیجہ پھر بھی برآمد نہیں ہو سکتا۔ حکومت کے پانچ سال پورے کرنا بہت ضروری ہے۔ مولانا فضل الرحمان الیکشن ہارنے کے بعد سے اب تک ایک ہی الزام دہراتے چلے آئے ہیں کہ پی ٹی آئی کو’’ادارے‘‘ اقتدار میں لائے۔ اب اس الزام کے جواب میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بھی بولے ہیں اور انہوں نے مولانا سے استفسار کیا ہے کہ وہ بتائیں تو سہی کس ادارے کی بات کر رہے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ ہماری سپورٹ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کے ساتھ ہے، اپوزیشن کو اگر اداروں سے کوئی تحفظات ہیں تو وہ متعلقہ اداروں سے بات کریں۔ تیز گام کے سانحہ میں فوج کی کارکردگی کو بھی سراہا جانا چاہئیے۔ اس سانحہ کو اگر صرف شیخ رشید پر ہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ جان بحق ہونے والے مسافروں کے لواحقین کو بھی طعنے دے دے کر مار دیتے۔ مولانا فضل الرحمان کے مارچ اور دھرنے سے بھی فوج غافل نہیں، وہ یہاں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اب ہم آپ کو مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے انجام سے آگاہ کر ہی دیتے ہیں۔ مولانا جب کراچی سے ’’برآمد‘‘ ہوئے تھے تو وہ انہیں اس بات کا سو فیصد ادراک ہو چکا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر قیمت پر وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ نہیں حاصل کر سکیں گے۔ وہ وزیر اعظم ہاؤس اور بنی گالہ کا محاصرہ تک نہیں کر پائیں گے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے ان کا عملی ساتھ نہیں دیں گے، دونوں جماعتیں اپنے کارکن مارچ یا دھرنے میں شامل نہیں کریں گی۔ دونوں جماعتوں کے لیڈر صرف چہرہ کشائی کی حد تک ان کے اسٹیج پر کچھ دیر کے لئے آئیں گے۔ اب دھرنے کے بعد آل پارٹی کانفرنس بھی ہو چکی ہے اور راہبر کمیٹی کا اجلاس بھی، مولانا فضل الرحمان اپنے پتے شو نہیں کر رہے وہ ’’بلائینڈ‘‘ کھیل رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے اعصاب شل ہو جائیں گے اور وہ اپنے پتے پھینک کر اعتراف شکست کر لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ مولانا کے ساتھی ہی انہیں بحفاظت اور عزت کے ساتھ گھر واپسی کا راستہ دکھانے والے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا بارہ ربیع الاول سے پہلے ختم ہوجائے گا۔ دھرنا ختم کرنے کا ایک عذر ماہ ربیع الاوّل کا تقدس اور احترام بھی ہو سکتا ہے۔ مولانا کو آئندہ دنوں میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ حکوت اور وزیر اعظم کو ایک نئی مہلت دیتے ہیں۔ حکومت ختم نہ ہوئی، استعفیٰ نہ آیا اور نئے الیکشن کا اعلان نہ ہوا تو وہ اس سے بھی بڑا اجتماع کرکے اینٹ سے اینٹ اینٹ بجا دیں گے۔ یہ تو ہے اگلی سیاسی صورتحال پر میرا تجزیہ، لیکن یہ سارا تجزیہ عمران خان کے وزراء کی زبان بندی سے مشروط ہے۔ فردوس عاشق اعوان اور فواد چوہدری نے جو تازہ ترین بیانات داغے ہیں وہ میرے اس سارے تجزیہ پر پانی پھیر سکتے ہیں۔ میرے تجزیہ پر پانی پھر بھی جائے تب بھی عمران خان کا استعفیٰ نہیں آئے گا۔ پتہ نہیں عمران خان کو بنیادی چیزوں کی سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔ کیا ان کے وزیروں کو آج کی صورتحال میں یہ بڑھکیں مارنی چاہئیں کہ وہ مخالفین کے لئے زمین تنگ کر دیں گے، یہ تو تکبر اور بے وقوفی کی انتہا ہے، انتہا۔