جمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت مخالف آزادی مارچ کے سلسلہ میں اسلام آباد میں کئی روزسے جاری دھرنا ختم کر کے اسے پورے ملک میں پھیلانے اور ملک گیر نئے محاذ پر جانے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ پلان بی کے تحت جے یو آئی (ف) کے کارکنوں نے کئی اہم شاہراہوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے انھیں بلاک کر دیا ہے۔دوسری جانب وزیراطلاعات سندھ سعید غنی نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی کال پر واضح کیا ہے کہ سندھ حکومت کسی کو بھی سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں 27اکتوبر کو کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کیا۔ جو صوبائی دارالحکومتوں سے گزرتا ہوا،31اکتوبر کو اسلام آباد پہنچا۔ جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں جے یو آئی کے کارکنان نے 14یوم دھرنا دیا۔ دھرنے کے شرکاء نے جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا وہ واقعی مثالی تھا لیکن اس سے عمدہ مثال مولانا نے ہزاروں کے مجمعے کو پرامن طور پر گھروں کو بھیج کر قائم کی۔ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق اور جمہوریت کا حسن ہے۔ ماضی میں سبھی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اپنے اس حق کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس سے کسی قسم کا عدم استحکام پیدا نہیں ہوا ۔ آج تک حکومتیں دھرنوں سے قائم ہوئیں نہ ہی گرائی گئیں۔ مولانا نے بھی بروقت دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر کے ایک منجھے اور سلجھے ہوئے سیاستدان کا ثبوت فراہم کیا ہے جس کی جمہوریت سے وابستہ تمام اداروں‘ جماعتوں اور افراد نے تحسین کی ہے۔ لیکن اب مولانا فضل الرحمن کو ملکی اور عالمی سطح پر قائم ہونے والے اپنے اس امیج کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ مولانا نے پلان بی کا اعلان کیا ہے جس میں بڑی شاہراہوں کو بند کرنا اور بین الصوبائی رابطے کو منقطع کرنا شامل ہے ۔یقینی طور پر مولانا کے پلان بی سے خلقِ خدا کو نقصان ہو گا۔مسافروں، مریضوں ،سکولز اور کالجز جانے والے بچوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔جس کے عوام پر غلط اثرات مرتب ہونگے ۔ گزشتہ روز جے یو آئی کے کارکنوں نے پلان بی کے تحت کوئٹہ چمن شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دیا تھا۔ سوات‘ چترال‘ دیر اور باجوڑ کی مین شاہراہوں کو بھی بند کیا گیا۔ شاہراہ قراقرم پر بھی ٹریفک روکی گئی جبکہ کراچی سے بلوچستان کا گیٹ وے حب ریور روڈ بند ہونے سے دونوں صوبوں کے مابین رابطہ منقطع رہا۔ اگر یہ سلسلہ مزید کچھ دن جاری رہا تو مولانا نے اسلام آباد دھرنے کو پر امن طور پر ختم کر کے جو نیک نامی کمائی ہے، وہ داغدار ہو گی۔ کراچی شہر سے روزانہ 10ہزار سے زائد ٹرانسپورٹرز کی مال گاڑیاں پورٹ قاسم اورکراچی پورٹ سے سامان لے کر ملک بھر میں ڈلیوری کرتی ہیں ان کی آمدو رفت رک جائے گی۔ اس کے علاوہ انہی پورٹس سے ادویات ‘ کوئلہ ‘ پلاسٹک دانہ سمیت دیگر ضروری اشیاء کی ترسیل بھی رکنے سے ملک بھر میں ان چیزوں کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ کراچی سے ہی روزانہ کی بنیاد پر 29سو کے قریب آئل ٹینکر ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے لئے روانہ ہوتے ہیں، بڑی شاہراہیں بند ہونے سے آئل ٹینکر ایسوسی ایشن بھی اپنی گاڑیاں سڑکوں پر نہیں لائے گی لامحالہ اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا بھی عوام کو ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ اربوں روپے کے زرمبادلہ کی صورت میں قومی خزانے کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن نے جس انداز میں اپنے کارکنوں کو سڑکیں بند کرنے کا حکم دیا ہے اس سے ہماری معیشت پر برے اثرات مرتب ہونگے جبکہ پہلے ہی ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے،ایک طرف مولانا مہنگائی کا رونا روتے ہیں دوسری طرف مہنگائی پیدا کرنے والے اسباب کے بھی خود ہی موجب بن رہے ہیں۔ اس سے معاشرے میں ان کے بارے بُرے تاثرات قائم ہونگے۔ گو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پلان بی میں ان کے ساتھ شامل نہیں ہیں ،اس لئے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی جو آزادی مارچ میں مولانا کی اتحادی تھی۔ اسے بھی اپنے زیر انتظام صوبے میں آئین و قانون کی رٹ قائم رکھنی پڑے گی۔سندھ حکومت کے وزیر اطلاعات برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے صوبے میں ہرکسی قسم کی بندش کے خلاف ہیں ۔اگر جے یو آئی نے ہنگامہ برپا کیا تو سختی سے اسے روکا جائے گا ۔ اس لئے مولانا فضل الرحمن کو کم از کم اپنے اتحادیوں کو کسی آزمائش سے دوچار نہیں کرنا چاہیے۔ جے یو آئی کے اسلام آباد دھرنے میں مرکزی قیادت موجود تھی جبکہ مولانا فضل الرحمن خود بھی تمام تر صورت حال سے آگاہ رہتے تھے لیکن جب ملک بھر میں ان کے کارکنان سڑکوں پر بیٹھیں گے تو مسافروں ‘ گاڑیوں کے ڈرائیورں اور ہلپروں سے ان کا سامنا ہو گا جہاں پر لڑائی جھگڑے کے خدشے کو ٹالا نہیں جا سکتا ۔ خدانخواستہ اگر کوئی جانی یا مالی نقصان ہوا تو پھراس کا ازالہ مشکل ہو جائے گااور اس سے موجودہ سیاسی سسٹم کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا مولانا مفاہمتی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ ختم کریں کیونکہ ان کے حالیہ پرامن دھرنے سے ان قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جو دھرنے کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو پروان چڑھانے کے لئے بیتاب بیٹھی تھیں۔ ملک جن اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے ،مولانا ان سے بخوبی آگاہ ہیں لہٰذا وہ جارحانہ سیاست سے گریز کرتے ہوئے ملکی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنی دھرنا اور احتجاجی پالیسی پر نظر ثانی کریں تاکہ ملکی ترقی میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔