دعوئوں، وعدوں اور اپوزیشن جماعتوں کے نفاق اور اتفاق کے بہت سے مراحل گزر گئے بالآخر وہ دن آنے کو ہے جب مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں ملک کی دو بڑی جماعتیں اسلام آباد پر دھاوا بولنے کو تیار ہیں۔دوسری طرف حکومت اپنے دھرنے کے دوران ہر حکومتی قدم کو خلاف قانون قرار دینے کے بعد اب ان تمام اقدامات کو عین اسی طرح سر انجام دے رہی ہے جیسے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2014 ء کے دھرنے میں کیا تھا۔ اسلام آباد میں بہار کا موسم مارچ کے مہینے میں عروج پر ہوتا ہے لیکن کنٹینرز کی بہار اکتوبر میں آ چکی ہے۔ دوسری طرف مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے امید ہے جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہونگے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کم ازکم مذاکرات کا ایک دور ہو چکا ہو گا۔نتیجہ کیا نکلتا ہے اس بارے میں کچھ کچھ امید بندھ رہی ہے کہ دھرنا شاید نہ ہو اور اپوزیشن اسلام آبادمیں ایک جلسئہ عام کر کے رخصت ہو جائے اس دعوے کے ساتھ کہ ہم بہت جلد دوبارہ آئینگے۔ عمران خان کے دھرنے کے وقت جو سیاسی صف بندی تھی، حیرت انگیز طور پر یہ اسی طور موجود ہے۔ وہ ساری جماعتیں جو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف حکومت کی پشت پناہی کر رہی تھیں وہ اب مل کر عمران خان کی حکومت گرانے کے درپے ہیں ۔اس میں کامیابی تو کسی صورت نظر نہیں آتی اس ہنگامے کے نتیجے میں کچھ اور ہو جائے تو کہا نہیں جا سکتا اور یہ اور کیا ہو سکتا ہے اس بارے میں پاکستان کی تاریخ بہت سے باب اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس میں سب سے تازہ میاں نواز شریف اور انکے خاندان کا جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر کے دس سال کے لئے ، ہمراہ اہل وعیال اور ملازمین سعودی عرب جانا تھا۔ ایسی سیاسی تحریک کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں کیا اس بار بھی وہی ہو گا جو سال 2000 ء میں ہوا تھا۔تاریخ کچھ یوں ہے کہ مارچ 2000 ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے پاکستان کے دورے کے موقعہ پر جب یہ طے ہو گیا تھا کہ میاں نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں سزائے موت نہ ہو گی اور انہیں جلد یا بدیر ملک سے باہر اہل و عیال سمیت بحفاظت بھیج دیا جائے گا تو اس کے پہلے سزا والے مرحلے پر من و عن عمل ہو گیا لیکن ملک سے باہر بھیجنے کے بارے میں جنرل مشرف راضی نہیں تھے۔ اس وقت لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری نے جون 2000 ء میںجنرل مشرف کو سعودی عرب کے حکمرانوں کا پیغام پہنچایا کہ نواز شریف کو بحفاظت باہر نہ بھیجنے پر وہ ناراض ہیں۔ جنرل مشرف پھر بھی بہت زیادہ مائل نہیں ہوئے۔ جولائی کے پہلے ہفتے ایک ڈرامہ رچایا گیا جب بیگم کلثوم نواز گھر سے احتجاج کے لئے نکلیں تو انکی گاڑی کو کرین سے اٹھا کر ہوا میں معلق کر دیا گیا اور یہ منظر پوری دنیا میں دیکھا گیا۔ اسی رات کو مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور سینکڑوں کی تعداد میںگرفتار کر لیا گیا حالانکہ ان میں سے اکثریت کسی احتجاج کے بارے میں علم بھی نہیں رکھتی تھی۔ تا ہم جنرل مشرف کو یہ تاثر دیا گیا کہ بہت بڑی سیاسی تحریک جنم لینے والی تھی جس کو فی الحال روک لیا گیا ہے بہتر ہو گا شریف خاندان اگر ملک سے باہر رہنے کو تیار ہے تو اسے جانے دیں تا کہ آپ اپنے انقلابی ایجنڈے پر پر سکون انداز میں کام کر سکیں۔ اسکے بعد مذاکرات شروع ہوئے۔ شرائط طے پائیں اور شریف خاندان کی دس سالہ ملک بدری کا معاہدہ طے پا گیا۔ان ساری تفصیلات سے آپ واقف ہونگے۔اس بارے میں صدر بل کلنٹن کے خصوصی معاون بروس ریڈل کارگل کے بارے میں اپنے خصوصی طویل مضمون میں لکھ چکے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی2016 ء میں ایک نجی ٹی وی چینل کو دئے گئے انٹر ویو اور اپنی کتاب میں اس کا تفصیلی ذکر کر چکے ہیں۔ اسلام آباد میں سرگوشیوں میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں بہت سی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ کچھ لوگ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گڑ بڑ کی دبی دبی سی خواہش کو خبر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس ساری تھیوری کی تان ملک میں جلد پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام پر ٹوٹ رہی ہے۔یہی وہ چورن ہے جو بیچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔اس کی آڑ میں وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن متحد ہو رہی ہے اور کسی بڑی تحریک کے امکانات بڑھ رہے ہیں ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ جیل میں موجود راہنمائوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف دے دیں بھلے وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ کم از کم ملک کے اندر سیاسی افراتفری نہیں ہو گی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس ملک میں کوئی سیاسی عدم استحکام اس وقت پیدا کیا جاتا ہے تو اسکا مقصدیہ تو ہو سکتا ہے کہ ان با اثر سابق حکمرانوں کو ملک سے بحفاظت باہر بھیجا جائے لیکن کسی حقیقی تحریک یا حکومت کی اتھل پتھل کا کوئی امکان نہیں۔ اگر کوئی چھوٹی موٹی سیاسی ہلچل دیکھیں تو بہت پریشان نہیں ہونا بس اتنا سمجھ لیجئے گا کہ قومی مفاہمت ہو چکی ہے اور بہت جلد کچھ چہرے بصورت خورشید ادھر ڈوبیں گے اور لندن ، ابو ظہبی ، امریکہ وغیرہ میں طلوع ہوجائیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اس بار بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا سال 2000 ء میں ہو چکا ہے تو مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کا کیا ہوگا۔ پیپلز پارٹی تو خیر پہلے ہی بہت محتاط انداز میں اس تحریک کا حصہ بنی ہے اور کسی وقت بھی پیچھے ہٹ سکتی ہے کیونکہ 31 اکتوبر میں ابھی بہت وقت پڑا ہے اس دوران بہت انہونی باتیں ہو سکتی ہیں۔ واللہ اعلم باا لصواب