اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا سارے سفر میں ہم نے رہبر ہی کی مانی ورنہ سیدھی راہ پہ آیا جا سکتا تھا کچھ نہیںکھلتاکہ رہبر کے دل میں کیا ہے۔ ہم تو بس اس کی چال میں الجھے ہوئے ہیں۔کوئی بھی عوام کو بھیڑ بکریوں کے منصب سے اوپر نہیں اٹھاتا۔ بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے تم پہ گزرے تو کیا تماشہ ہو۔ خان صاحب بھی کمال کرتے ہیں آپ وعظ‘ بھاشن سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے آپ نے ڈاکو اور چور اپنے ٹارگٹ پر رکھے ہیں ان کے مددگار مولانا فضل الرحمن کو بھی کبھی نہیں بخشا۔ انہیں ڈیزل کے نام سے موسوم کرتے رہے ۔ آپ نے ان کی ذات کو استعارا بنا کر بات کی کہ یہ واحد حکومت ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے اور اب اچانک آپ کو ڈیزل کی ضرورت پڑ گئی۔ لگتا ہے آپ کا انجن بیٹھ گیا ہے۔ آپ کے نمائندے غفور حیدری کے پاس پہنچ گئے۔ آپ کہیں گے کہ آپ نے تو مذاق کیا تھا: ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر ایک ہم ہیں کہ جدائی کا سبب پوچھتے ہیں خالدہ حسین کو پوسٹ لگانے کا موقع مل گیا کہ گدھا گاڑی ڈیزل پر کیسے چلے گی۔ واقعتاً سب متعجب ہیں اور تو اور پی ٹی آئی کے حق میں بات کرنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر خان صاحب کیا چاہتے ہیں۔دعوے کرتے ہوئے اور تنقید کرتے ہوئے ان کا جذبہ اور پریشانی دیدنی ہوتی ہے کہ جیسے سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہ وہ کسی بھی صورت انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ اکیلے رہ گئے تب بھی لڑیں گے پھر اچانک ان کی گاڑی کو ڈیزل کی ضرورت پڑ جاتی ہے سچی بات ہے کہ ایک مرتبہ تو وہی جارج آرویل کے ناول اینی مل فارم کا منظر نامہ سامنے آ جاتا ہے کہ سب کام جانوروں کو بھی یعنی ان کے حکمرانوں کو ہی کرنا پڑتے ہیں جن کے باعث انسانوں کو ظالم کہہ کر ان کا اقتدار چھین لیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے نومنتخب آزاد امیدوار کے طور پر جیتنے والے عبدالقادر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور خان صاحب نے انہیں شرف ملاقات بخشا قارئین!آپ شاید بھول گئے ہوں ۔ خیر انہیں پی ٹی آئی نے ٹکٹ نہیں دیا پھر سپورٹ کیا۔ مختصر یہ کہ آخر منصوبہ بندی سے مرغ کو حلال کر لیا گیا: خردکا نام جنوں رکھ دیا جنوں کاخرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے جناب خان صاحب ہر وہ کام کرتے جا رہے ہیں جو پچھلی حکومتیں کرتی تھیں ۔ وگرنہ انہیں سینٹ کے 16ممبرز کا حساب دینا پڑے گا۔الیکشن کمشن نے ان کے نام پوچھ لیئے ہیں مگر وہ ان کے نام بتائیں گے نہیں ۔ عوام کو ان معاملات میں مت الجھائیں بلکہ ان سے رجوع کر کے کچھ ریلیف وغیرہ کا سوچیں آپ کو کچھ بھی اندازہ نہیں کہ لوگ کس حال میں ہیں: ایسے لگتا ہے کہ آسودگی قسمت میں نہ تھی جل گئے سایہ دیوار تک آتے آتے مہنگائی کے خلاف آپ کی حکومت جہاد یہ ہے کہ پہلے آپ نوٹس لیتے رہے اور آپ کے نوٹسوں کے مارے ہوئے لوگ آہیں بھرتے رہے آپ کے ہر نوٹس پر اشیائے صرف مہنگی ہو جاتی تھیں۔ اتنی سادہ سی بات آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جب آپ بجلی گیس اور پٹرول مہنگا کرتے جائیں گے تو پھر اشیا کی قیمتیں خود کار ہی بڑھ جائیں گی تو آپ دکانداروں کے خلاف یہ جہاد کریں گے کہ اشیا سستی بیچی جائیں۔ کوئی بتائے کہ کیسے؟ دکاندار اپنی جیب سے تو نہیں ڈالے گا آپ سے تو یوٹیلیٹی سٹورز نہیں سنبھالے جاتے۔ وہاں بڑے بڑے گھپلے ہیں۔ اشیاء ناقص اور پرانی ہیں پالش کی ڈبیا لینے گیا تو وہ 200روپے کی تھی۔یہ تو فیئر لولی سے بھی مہنگی ہو گئی۔ شاید اس لئے کہ یہ بوٹ چمکانے کے لئے ہے۔: خلق خدا کیا کہہ رہی ہے!ایک مثال ہمارے کالم پر کمنٹ کی ہے جو عبدالجبار قصور سے لکھتے ہیں۔رہی سہی معیشت بھی تباہ کر دی۔ جن بازاروں میں پیدل چلنا مشکل تھا‘آج وہاں گاڑی میں بیٹھ کر جایا جا سکتا ہے۔ مدینہ کی ریاست کا پہلا اقدام یہ ہونا چاہیے تھا کہ اشیائے خوردو نوش کی روزانہ کی بنیاد پر پرائس لسٹ جاری ہوتی۔ ذخیرہ اندوزوں پر قابو پایا جاتا۔ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکو یہ عبدالجبار پڑھے لکھے اور سفید پوش ہیں۔عام بندے کی زبان تو ایسی پارلیمانی ہوتی ہے کہ درج بھی نہیں ہو سکتی: خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو جناب میں معاشی قتل کی بات کر رہا ہوں ایک مثال میں اور دینا چاہوں گا وہ ہے ایک شاعر ڈیزائنر کی۔ عمران ثناور جس نے سینکڑوں کتب کی تزئین کی مگر آج جب میں نے ایک کام کے لئے اسے فون کیا تو دل تھام کر رہ گیا کہ وہ واپس اپنے قصبہ میں چلا گیا کہ کورونا کے دنوں میں ہی کام رک گیا تھا اور وہ معاشی طور پر سنبھل نہ سکا۔ یہ حالت ایک نہیں سینکڑوں نوجوان کی ہے جو متاثر ہو کر واپس گھروں کو پلٹ گئے۔ہزاروں دکاندار ہیں جو اپنی دکانوں کا کرایہ تک نہیں دے سکے یہ وہ لوگ ہیں جو ہاتھ نہیں پھیلا سکتے وہ بہت برے حالوں میں ہیں۔ان کو اصل میں مہنگائی مار گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہیں کوئی حکومتی سپورٹ ملتی مگر حکومت کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ بجلی 89پیسے مہنگی کر دی گئی ساتھ ہی سرخی ڈرا رہی ہے کہ ہوشیار باش آگے رمضان شریف آ رہا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم مسلمان تاجروں کا یہ سیزن ہے کہ یہ مہینہ بارہ مہینوں میں سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ مسلمانوں کو اس مہینے میں خرچ کرنے کا اجر ملتا ہے اور تاجر اس مہینے میں کئی مہینوں کی کمائی کریں گے۔ حکومت کے سارے دعوے دھرے کے رہ جائیں گے۔ رمضان بازار کے نام پر جو کچھ ہو گا وہ ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے: دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا دکھ تو یہ ہے کہ اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لئے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا