صدر ٹرمپ کو برصغیر میں کشیدگی پر تشویش ہے۔ پاکستان اور بھارت سے وہ محاذ آرائی کے خاتمے کی اپیل کر رہے ہیں اور انہیں مثبت خبریں مل رہی ہیں ان کے منہ میں گھی شکر‘امریکی صدر کو یہ خیال مگر بدھ سے پہلے کیوں نہ آیا؟ مشہور کہاوت ہے کہ کسی ملک اور قوم کی کمزوری جنگ کو دعوت دیتی ہے اور طاقتور فرد یا قوم کی طرف کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا۔1971ء کے بعد صرف دو بار بھارتی قیادت نے پاکستان کو مذاکرات اور اعتبار کے قابل سمجھا۔1987ء ‘1986ء میں براس ٹیکس فوجی مشقوں کے بعد یا پھر 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی تجربات کی تکمیل پر۔ نومبر 1986ء میں راجستھان سیکٹر میں بھارت نے آرمی چیف کرشنا سوامی سندر جی کی زیر قیادت طویل المدت فوجی مشقوں کا آغاز کیا تو کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بن جائینگی اور دونوں ممالک کو خطرناک جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کریں گی۔ پاکستان کو اطلاع ملی کہ مشقوں میں حصہ لینے والی فوج تباہ کن ہتھیاروں اور حقیقی گولہ بارود سے لیس ہے تو خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں پاکستان نے عالمی برادری کو مطلع کیا‘ سید مشاہد حسین فوجی قیادت کے ایما پر بھارتی صحافی کلدیپ نیر کو لے کر ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ گپ شپ کے دوران عبدالقدیر خان نے کلدیپ نیر کو بتایا کہ ہم ایٹم بم بنا چکے ہیں اور بھارت نے کوئی حماقت کی تو اس کی اگلی نسلیں تک پچھتائیں گی ‘جبکہ فروری یا مارچ1987ء میں فوجی صدر جنرل ضیاء الحق جے پور میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے نئی دہلی جا اترے۔ راجیو گاندھی نے بددلی اور سرد مہری سے ضیاء الحق کو خوش آمدید کہا اور جے پور کے لئے رخصت کرتے ہوئے اپنے سٹاف کو ہدایت کی کہ وہ مہمان کا خیال رکھے۔ راجیو گاندھی کے مشیر بہرامنام نے بعدازاں ایک مضمون میں لکھا کہ ’’میں نے دیکھا کہ راجیو گاندھی کے ناروا رویے کے باوجود ضیاء الحق کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ خدا حافظ کہتے ہوئے ضیاء نے راجیو سے کیا’’مسٹر راجیو !آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں؟ شوق سے کریں لیکن ایک بات یاد رکھیں اس کے بعد لوگ ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائیں گے صرف ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھیں گے کیونکہ یہ جنگ ایٹمی ہو گی۔ اگر آپ نے سرحدوں سے حقیقی اسلحے سے لیس فوج نہ ہٹائی تو پاکستان جا کر میرے منہ سے صرف ایک لفظ نکلے گا’’فائر‘‘ ممکنہ طور پر پاکستان تباہ ہو جائے گا مگر مسلمان کرہ زمین پر پھر بھی باقی اور آباد رہیں گے جبکہ ہندوستان کے خاتمے کے ساتھ ہی ہندو مت بھی ختم‘‘ بہرامنام کے بقول یہ سن کر راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے جبکہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ۔ مجھے اس وقت ضیاء الحق دنیا کا خطرناک ترین انسان نظر آیا‘‘ بھارتی فوجیں بے نیل مرام واپس چلی گئیں اور پاکستان و بھارت کے درمیان مذاکرات کا عمل بحال ہو گیا۔ 1998ء میں ایٹمی تجربات کے بعد جب بھارت کو احساس ہوا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے اور کشمیر میں حریت پسند عوام کی مزاحمت کا خاتمہ ناممکن تو نریندر مودی کے گورو اٹل بہاری واجپائی مذاکرات کے لئے لاہور آئے اور مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان کاوجود تسلیم کرنے کا اعلان کیا مگر جونہی اسے احساس ہوا کہ تجارت مذاکرات اور امن کو پاکستان نے اپنی کمزوری بنا لیا ہے تو وہ مذاکرات اور مفاہمت کے ہر عمل کو سبوتاژ کر کے ایک بار پھر جنگ کا راگ الاپنے لگا۔ بدھ(27فروری) کے روز پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کی ناگ رگڑی‘1971ء کے بعد پہلی بار روایتی ہتھیاروں میں بھارت کی بالادستی کے غبارے سے ہوا نکالی اور عسکری ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا‘ بھارت کے دو میراج 21طیارے گرائے‘ ونگ کمانڈر سطح کا پائلٹ گرفتار کیا اور غرور خاک میںملا کر مذاکرات کی دعوت دی تو فوری طور پر پاکستان کے اس خیر سگالی جذبے کا مثبت جواب دینے کے بجائے نریندر مودی‘ بھارتی حکومت اور جنگی جنون کا شکار میڈیا دھمکیوں پر اُتر آئے۔ بدلے اور انتقام کے نعرے بلند ہوئے اور پاکستان کو اطلاع ملی کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ہماری اہم تنصیبات پر میزائل حملے کا امکان ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا وزیر اعظم نیشنل کمانڈ اتھارٹی میں بنیادی نوعیت کے فیصلے کرنے اور بھارت کو مذاکرات کی دعوت دینے کے بعد اپنے بھارتی ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو کے لئے بے تاب تھا تاکہ کشیدگی ختم ہو اور دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے اختلافات مہذب اور شائستہ انداز میں طے کر سکیں۔ اغلباً پاکستان کے دوستوں اور عالمی برادری کی مداخلت سے بھارت نے اپنے وحشیانہ جنگی منصوبے پر نظر ثانی کی اور میزائل حملہ ٹل گیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے مدبرانہ تقریر کی‘ مسئلہ کشمیر اجاگر‘۔ جنگ کے خطرات اور مضمرات سے ہندوستانی عوام کو آگاہ کیا اور پراعتماد انداز میں مذاکرات کی دعوت دی۔ پاکستان کی زور دار جوابی کارروائی اور اعتماد سے امریکہ اور اس کے اتحادی مداخلت پر مجبور ہوئے یہ پاکستان پر کسی کا احسان ہے نہ برصغیر کے عوام سے ہمدردی کا اظہار‘ اپنے اپنے اقتصادی‘ معاشی اور علاقائی مفادات کی مجبوری ہے اور ایٹمی جنگ سے بچنے کی تدبیر ‘ لیکن بہرحال غنیمت ہے۔ عمران خان نے تقریر کے دوران بدھ کے روز نریندر مودی کے یکطرفہ ٹیلی فونک رابطے کے لئے وزیر اعظم ہائوس کی کوششوں کا ذکر کیا تو سچی بات ہے مجھے برا لگا۔ بھارتی خوشنودی حاصل کرنے کی ہر کوشش ماضی میں ناکام ہوئی اور پاکستان کا ہر حکمران بے توقیر ہوا قائد اعظم گاندھی کی چاپلوسی سے متاثر ہوئے نہ کبھی ہندو قیادت کو خوش کرنے کی سعی کی۔ دونوں ممالک کے درپردہ رابطوں اور دوست ممالک کی مداخلت کی روشنی میں وزراء اعظم کی سطح پر ٹیلی فونک گفتگو کی راہ ہموار ہو تو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔ بھارتی حکومت کی درخواست پر پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی بھی مناسب‘ مگر یکطرفہ اقدام کا ماضی میں کبھی فائدہ ہوا نہ مستقبل میں امید کی جا سکتی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ نے نئی دہلی میں مدیران اخبارات و جرائد کو جو بریفنگ دی اس میں واضح طور پر کہا کہ پائلٹ کی رہائی کے لئے ہم پاکستان سے درخواست کریں گے نہ اس کے ایٹمی ہتھیاروں سے مرعوب ہو کر مذاکرات کی میز پر آئیں گے یہ تاوان کی ادائیگی کے مترادف ہو گا عمران خان کی تقریر کے بعد نریندر مودی کے سیکرٹریٹ سے مدیران جرائد کو تحریری مواد بھیجا گیا جس کا عنوان تھا ۔ pakistan Love Peace and Good Ralations An Exorcise in Hypucrisy اس موادمیں عمران خان اور پاکستان کی پیشکش کو دھوکہ دہی سے تعبیر کیا گیا اور نریندر مودی حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی سے خود نمٹے گی۔ ایسی صورت میں عمران خان کی مودی سے بات کرنے کے لئے بے تابی اور نندن کو یکطرفہ طور پر رہا کرنے کا اعلان اگر امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں یا دوستوں کی خواہش اور مشورہ ہے تو بجا یقینا ان دوستوں نے جوابی خیر سگالی یعنی کسی مہم جوئی سے گریز اور کشمیر پر مذاکرات پر آمادگی کی یقین دہانی کرائی ہو گی لیکن اگر یہ یکطرفہ عمل ہے ‘اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پیروی اور نریندر مودی کے علاوہ بھارت کے انتہا پسند‘ تنگ نظر‘ پاکستان دشمن عوام کا دل جیتنے کی خواہش تو معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ نتیجہ صفر نکلے گا صرف دفاعی طور پر مضبوط اور سیاسی و اقتصادی طور پر مستحکم پاکستان ہی امن کی ضمانت فراہم اور بھارتی رعونت کو خاک میں ملا سکتا ہے۔ قائد اعظم طویل تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے۔ عمران خان جتنی جلد یہ بات سمجھ لیں ان کے اور پاکستان کے مفاد میں ہے۔بھارتی پائلٹ رہا کرنے کی جلدی کیا ہے اور فون پر بات کرنے کی خواہش اس قدر غالب کیوں؟(ولن ترضیٰ عنک الیہود و لا النصاری حتیٰ تتبع ملتھم) یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے جب تک ان کی پیروی پر آمادہ نہ ہو جائو انتہا پسند اور تنگ نظر چانکیائی قیادت اس صف میں شامل کیوں نہیں؟