آپ سے کوئی پوچھ لے آپ کی فینٹسی کیا ہے تو آپ اسے فورا جواب دے پائیں گے یا آپ سوچنے بیٹھ جائیں گے ؟اس سوا ل کے جواب میں اگر آپ کو سوچنا پڑ جائے تو ، معاف کیجیے ، یہ بھی کوئی جینا ہے ۔ کاروبار حیات کے مسائل اور تلخیاں تو ایک حقیقت ہیں لیکن اب کیا یہی تلخیاں اور مسائل اوڑھ کر زندگی بتا دی جائے ؟سفر حیات کی کہانی کیا بس اتنی سی ہے کہ بی اے کیا ، نوکر ہوئے ، پنشن ملی اور مر گئے؟سفرِ عشق میں ضعف اور راحت طلبی کا تو خیر کوئی حل نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ زندگی ہجوم ِ گریہ کا سامان نہیں ، یہ آتشِ حُسن سے گویا اک شعلہِ سرکش بینی ہے۔ میری فینٹیسی کیا ہے؟ پلک جھپکنے سے پہلے بتا سکتا ہوں ۔جاڑے کی رت ہو ، پالا وجود میں اتر رہا ہو،دھند ہو، برف پڑ رہی ہو ، شہر سے دور ایک کٹیا ہو ، کوئی چرواہا ساتھ ہو جو اپنے جانوروں کو باڑے میں چھوڑ کر بانسری بجاتا رہے، پورے چاند کی رات ہو ، قہوے کا کپ ہاتھ میں رکھا ہو ااور کیتلی لکڑیوں سے جلائی آگ پر رکھی ہو اور قہوہ پیتے ، بانسری کی تان سنتے اور تاحد نظر پھیلے برفزار پر نظریں جمائے رات کٹ جائے ۔پھر برف سے اٹی وادی کے دل میں صبح کی پہلی کرن دور تک اترتی چلی جائے۔آئرش شاعر ولیم النگھم کی The fairies" " اگر آپ نے پڑھ رکھی ہے تو یہی میری فینٹسی ہے۔ یہ سر مستی تو اپنے بچپن سے ہے۔ ایک نظم تھی نندیا پور۔ وہ نظم پڑھتا تو گویا ہوائیں مجھے خوابوں کی سمت اڑا لے جاتیں۔ یہ نظم آج بھی کچھ کچھ یاد ہے: ’’دور بہت ہی دور ،یہاں سے اور اس سے بھی دور ندی اک نکلی ہے جہاں سے اور اس سے بھی دور دلدل ہے گہری سی جہاں پر دلدل سے بھی دور جنگل میں ہے بڑھیا کا گھر جنگل سے بھی دور یاد ہے اس کو ایک کہانی ہے اس میں اک حور حُور یہ ہے اس ملک کی رانی ملک ہے نندیا پور اس جنگل کو دیکھوں میں جنگل سے بھی دور حُور کے ملک میں جائوں گا میں یعنی نندیا پور‘‘ پہلی دفعہ میں نے بیسل کی بستی دیکھی تو لگا میرا ’’ نندیا پور‘‘ آ گیا ہے۔اک خیال نے دستک دی کیا خبر اللہ کی جنت بھی کچھ کچھ ایسی ہی ہو۔غالب یاد آیا: نغمہ ہے محو سازِ رہ ، نشہ ہے بے نیازِ رہ۔یہ پورے چاند کی رات تھی اور اس دور افتادہ مقام پر رات جلد ہی اتر آئی تھی۔چاندنی رات میں اس طلسم کدہ کو دیکھ دیکھ کر مجھے اقبال کی ’’ آرزو‘‘یاد آتی رہی : ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ ، پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو۔سردیوں کی چھٹیوں کا دھند میں ڈوبا اپنا گائوں میری اولین فینٹسی تھا۔نئے نویلے جاگرز پہن کر اپنے اولین بچپن کی دھند میں ڈوبی ایک صبح گھر سے نکلا تو کھیت میں پانی لگا ہوا تھا۔ قریبا گھٹنوں تک دھنس گیا۔ دھند کا سحر ایسا تھا کہ جاگرز خراب ہونے کا ملال تک نہ ہوا۔ گائوں کی دھند کو تب ہم ’’ کہیڑ‘‘ کہتے تھے۔آج بھی جب ’’ کہیڑ‘‘ پڑتی ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے گائوں ضرور جاتا ہوں۔ان پگڈنڈیوں کو دیکھتا ہوں جہاں نانا کی انگلی تھامے میرا بچپن اٹکھیلیاں کرتا پھرتا ہے۔کینو کے اپنے ہی باغ سے دھند کے موسم میں کینو ’’ چوری‘‘ کر کے کھانے میں جو مزہ تھا وہ ذائقہ منہ سے جاتا ہی تھا۔ٹھیکیدار کی جھونپڑی میں اب کون جائے اور اسے بتائے کہ میں اتنے کینو لے رہا ہو۔ سارا گائوں ہی اپنا تھااور کوئی ہماری واردات سے محفوظ نہ تھا۔کسی کے مالٹے گئے تو کسی کی دیسی مرغی صبح غائب پائی گئی۔بس وہی معاملہ تھا کہ یک عمرِ ناز شوخی عنواں اٹھائیے۔ ملکہ کوہسار کی دہلیز پر رہنے کے بہت مزے ہیں۔ ادھر برف اترنا شروع ہوتی ہے اور چینلز پر خبر چلتی ہے تو آدمی بارہ کہو سے دو کوس آگے جا چکا ہوتا ہے۔برف کے گالوں کے زمین پر اترنے سے خوبصورت منظر شاید ہی کبھی تخلیق ہوا ہو۔ رات اگر برف پڑ رہی ہو اور آتش دان سے لگ کر وادی کی وسعتوں کو تکے جانے کا موقع مل جائے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔آپ کو کچھ عجیب سا لگے گا لیکن رات گئے جب برف پڑ رہی ہو دور وادی میں کہیں سے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دے تو طلسم دو چند سا ہو جاتا ہے۔ زندگی ایک سفر ہے، یہ ایک جستجو کا نام ہے۔مرضی کی زندگی اسی کو ملے گی جسے جنت کا انعام ملے گا۔یہ و الی زندگی توخوابوں کی شکستگی اور انہیں پھر سے استوار کرنے کی محنت کا نام ہے۔اس زندگی سے اپنے اپنے حصے کی خوشیاں چراتے رہنا چاہیے۔اپنی اپنی فینٹسی کو اپنی اپنی بساط کے مطابق پورا کیجیے۔ زندگی کی قوس قزح کے جتنے رنگوں میں آپ بھیگ سکتے ہیں آپ کو بھیگتے رہنا چاہیے۔ ہم دور دیس کے برف زاروں میں گھر بنا کر نہیں رہ سکتے ،لیکن ہم ان برفزاروں کی کسی کٹیا میں کوئی شام تو تو گزار ہی سکتے ہیں۔جو زندگی ہم جینا چاہتے تھے لیکن نہیں جی پائے ہم اپنی زندگی کے چند لمحے تو ویسے گزار ہی سکتے ہیں۔اپنے دل سے پوچھیے ، کچھ خواہشات وہاں مچل رہی ہوں گی۔ ان کا گلا گھونٹ کر انہیں دفن ہی کر دینا ،یہ کوئی زندگی نہیں۔ساری زندگی نہ مقابلے کی دوڑ کا جانور بنا جا سکتا ہے نہ یہ خوف اوڑھ کر جیا جا سکتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ہر آدمی کی قسمت اور نصیب الگ ہے اور لوگوں کے کچھ کہنے سے ، یقین کر لیجیے ، کچھ نہیں ہوتا۔کبھی تنہا بیٹھ کر خود سے پوچھ لینا چاہیے میں کیا چاہتا ہوں اور پھر جو آپ چاہتے ہوں کبھی کبھار وہ کر گزرنا چاہیے۔یہی زندگی ہے۔غالب نے کہا تھا: مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب۔ وہ بھی جاڑے کی رُت تھی ، باہر مینہہ برس رہا تھا ، افتخار عارف سے میں نے پوچھا تھا: آپ کی شاعری میں خوابوں کا اتنا ذکر کیوں ہے؟ وہ مسکرا دیے: خواب نہ ہوں تو زندگی کیسی؟