غالباً ایک دہائی قبل کا واقعہ ہے۔ میں نئی دہلی میں تہلکہ میڈیا گروپ میں بطور رپورٹر کام کر تا تھا کہ ایک دن چیف ایڈیٹر ترون تیج پال نے اپنے کمرے میں بلاکر گلے میں مفلر اور پائوں میں ہوائی چپل پہنے ایک شخص سے متعارف کرواکر بتایا کہ ا ن کے پاس سرکاری ٹیکس ا داروں میں کرپشن کے حوالے سے کوئی اہم خبر ہے۔ ان سے تفصیلات لیکر اور تحقیق کرکے رپورٹ فائل کرلوں۔ معلوم ہوا کہ یہ حضرت سابق جوائنٹ کمشنر انکم ٹیکس اور بدعنوانی کے خلاف مہم کے ایک سرگرم کارکن اروند کیجریوال تھے۔ چونکہ 2006میں انکو بھارت میں حق اطلاعات کے قانون کے ذریعے کئی اسکینڈلز کا پردہ فاش کرنے کیلئے رمن میگھساسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، اسلئے ان کا نام میڈیا حلقوں میں جانا پہچانا تھا۔ خیر تھوڑی دیر ایک کیفے میں بیٹھ کر ہم نے اسٹوری کے بارے میں گفتگو کی اوربعد میں ، میںنے پاس کے ایک بس اسٹاپ تک ان کی رہنمائی کی۔ میںان دنوں ایک کیس کے سلسلے میں خود انکم ٹیکس دفتر کے چکر لگا تا رہتا تھا۔ میں حیرا ن تھا کہ انکم ٹیکس دفتر میں اعلیٰ عہدہ پر رہنے والا شخص ، جس کی اہلیہ بھی ریونیو سروس میںا علیٰ عہدہ پر فائز ہو، ایک معمولی گاڑی رکھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا ہے۔ مجھے لگا کہ بھارت کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یعنی آئی آئی ٹی سے میکانکل انجینئرنگ کی ڈگر ی لیکر اور پھر سول سروسز کا مشکل ترین امتحان پاس کرنے کے باوجود یہ شخص این جی اوز کے چکروںمیں آکر اپنا مستقبل تباہ کر رہا ہے۔ 2006ء میں ملازمت سے استعفیٰ دیکر 2010ء تک کیجریوال مختلف سول سوسائٹی گروپوں سے وابستہ رہے اور پھر انا ہزارے کی قیادت میں انڈیا اگینسٹ کرپشن مہم میں شمولیت اختیار کی۔ 2012ء میں مختلف سول سوسائٹی گروپوں کویکجا کرکے انہوں نے عام آدمی پارٹی یعنی آپ کی بنیاد ڈالی۔ گو کہ دنیا میں اس سے قبل بھی اسٹوڈنٹ اور سول سوسائٹی تحریکوں نے انتخابی میدان میں قدم رکھا تھا، مگرآپ پہلا ایسا تجربہ تھا جو کامیاب ہوا۔ روایتی سیاست، خاندانی راج اور کرپشن سے تنگ آئے غریب اور مڈل کلاس کیلئے آپ کا عروج ایک خوشگوار احساس تھا۔ شہر دہلی میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کیجریوال کی آپ نے ایک بار پھر شاندار جیت حاصل کرلی ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخاب میں جیت سے زیادہ اہم نفرت اور فرقہ پرستی کے ایجنڈا پر الیکشن لڑنے والی مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی کی شکست ہے۔ بی جے پی نے دہلی کا انتخاب ہندو بنام مسلمان لڑنے کی کوشش کی۔ان انتخابات میں چونکہ کانگریس مقابلہ سے باہر تھی، اسلئے بی جے پی کے لیڈروں نے اروند کیجروال اور عام آدمی پارٹی کو ہندوئوں کا دشمن اور مسلمانوں کا دوست پیش کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ انتخابی مہم میں بی جے پی نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت آٹھ وزراء اعلیٰ اور 200 اراکین پارلیمان جھونک دئے تھے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ تو ووٹ مانگنے گھر گھر گھوم رہے تھے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ماحول کو مکدر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دہلی کے شاہین باغ علاقہ میں نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمان خواتین کے احتجا ج کے پیچھے کیجریوال ہیں او روہ مظاہرین کو بریانی پہنچا رہے ہیں۔ایک ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے تو کیجریوال کو دہشت گرد تک کہہ دیاتھا۔ ایک اور وزیر نے غداروں کو یعنی شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو گولی مارنے کا نعرہ دیا۔ بی جے پی کے انتخابی گانوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کیجریوال مسلمانوں کے ہمدرداور بہی خواہ ہیں اور ہندوئوں سے نفرت کرتے ہیں۔ جس کے جواب میں کیجریوال کو ایک ٹی وی چینل پر ہنومان چالیسہ کا ورد کرکے اپنے ہندو ہونے کا ثبوت دینا پڑا۔ بی جے پی کو اسی کی زبان میںجواب دینے کیلئے پولنگ بوتھ کے باہر جب بی جے پی کے کارکنان جے سری رام کے نعرہ لگا کر ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کررہے تھے، تو عآپ کے ورکروں نے جے بجرنگ بلی کے نعرے زور و شور سے لگائے۔ ہندو اساطیری کہانی رامائن کے مطابق بھگوان رام کی جس فوج نے لنکا پر چڑھائی کی، بجرنگ بلی یعنی ہنومان ، جو بندرو ں کے سردارتھے، ا س کے سپہ سالار تھے۔ ہنومان،بھگوان شیو کا روپ مانے جاتے ہیں اوران کے مندر بھارت کے طول و عرض میں پائے جاتے ہیں۔ و ہ طاقت ، قوت ، دانشمندی اور وفاداری کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ رام، بھگوان ویشنو کے روپ ہیں۔ رام مندر بہت کم ہوتے ہیں۔ ایودھیا کے علاوہ پورے بھارت میں ، میںنے تو رام مندر نہیں دیکھا ہے۔ یعنی ان انتخابات میں ہندو بھگوانوں کی بھی پولرائزیشن کی گئی۔رام کو بجرنگ بلی کے مقابلے کھڑا کیا گیا۔ اس کے علاوہ کیجریوال نے بی جے پی کی مہم کا حکمت عملی سے مقابلہ کرکے اپنی شبیہ معتدل بنائے رکھنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں اور شہریت قانون کے خلاف ہو رہے احتجاج کی حمایت میں کوئی بیان نہیں دیا۔ مودی اور امیت شاہ کیلئے کوئی نازیبالفظ استعمال نہیں کیا۔ آپ ایک ایسی سیاسی جماعت ہے ، جو نظریات کی بنا پر فاتح ہوئی نہ ہی کسی ازم کے سہارے ۔ خاندانی راج، بد عنوانی ،اوروی وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کے نام پر بھانت بھانت کے لوگ اس پارٹی میں جمع ہوگئے تھے۔ مگر تیسری بار دہلی اسمبلی کے انتخابات میں فتح اور کل 70میں سے 62نشستیں حاصل کرنے کا سہرا کیجریوال حکومت کی پچھلی پانچ سال کی کارکردگی کو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب دہلی کی کانگریسی حکومت نے پاور ڈسٹریبیوشن پرائیوٹ کمپنیوں کے سپرد کی ، تو میرے تین بیڈ روم کے فلیٹ کی پاور بل سات ہزار سے بارہ ہزار روپے ماہانہ آتی تھی۔ ہمارے علاقہ میں پاور ڈسٹریبیوشن بھارت کے اہم صنعتی گھرانہ ریلائینس انڈسٹریز کے تحت تھی۔ کیجروال نے آتے ہی ریلائینس کے مالک مکیش امبانی کے خلاف باضابطہ کیس دائر کیا، کیونکہ وہ دہلی کے بجلی گھروں کو 9 ڈالر فی برٹش تھرمل یونٹ کی شرح پر گیس فراہم کرتے تھے۔ جبکہ اسی کنویں سے نکلنے والی گیس کو ایک اور کمپنی پڑوسی ملک بنگلہ دیش کو 2 ڈالر میں فراہم کرتی تھی۔ امبانی پاورتقسیم بھی کرتی تھی اور جن بجلی گھروں سے پاور خریدتی تھی ، ان کو گیس فراہم کرنے کا ٹھیکہ بھی انہی کے پاس تھا۔ ان پر لگام لگا کر ہماری بجلی کی بل ماہانہ دو سے تین ہزار پہنچ گئی۔ اسی طرح عآپ حکومت نے اپنے بجٹ کا 75 فیصد حصہ بجلی ، پانی ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کے نام کردیا۔ سرکاری بسوں میں خواتین کو مفت سفر کی سہولت فراہم کی گئی اور غریب طبقہ کے لئے 200 یونٹ تک بجلی کی بل فری کردی گئی۔ یہی کچھ پانی کی ترسیل کے ساتھ بھی ہوا۔ (جاری ہے)