پاکستانی صحافت کی تاریخ کے ہر دور میں ہر قسم کے صحافی دستیاب رہے ہیں اورآج بھی ہیں، مگرآج کے دور میں مثبت بات یہ ہے کہ اب کم از کم انگوٹھا چھاپ صحافی خال خال ہیں، ماضی میں تو ہر ادارے میں دو چار اخبار نویس ایسے ضرور موجود ہوتے تھے جو بے چارے خود اخبار بھی نہیں پڑھ سکتے تھے، وہ خبریں جن کے انہوں نے پیسے پکڑے ہوتے تھے ان کے دماغ میں ہوا کرتی تھیں جنہیں لکھوانے کے لئے وہ آدمی ڈھونڈا کرتے تھے، ایسے ان پڑھ صحافیوں کی دھاک بھی بہت ہوا کرتی تھی، وہ دوسرے اخبارات میں اپنی خبریں چھپوانے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہوا کرتے تھے۔ حکمران، سیاستدان، تاجر، صنعت کار اور سرمایہ داران سے خوفزدہ رہا کرتے تھے، (یہ رحجان آج بھی زندہ ہے) بیوروکریسی ان کے سامنے کانپا کرتی ، پولیس افسر ان کے سامنے سر نگوں رہا کرتے ، ایسے صحافیوں کا حکم ٹالنا افسروں کے لئے بہت مشکل ہوا کرتا تھا۔ ان اَن پڑھوں کے سادہ اور شریف کولیگز کا بھی ان پر کوئی بس نہیں چلتا تھا کیونکہ انتظامیہ کے لئے یہ لوگ پڑھے لکھے ٹیلنٹڈ صحافیوں سے زیادہ اہم ہوتے تھے۔آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے ہی صحافی سے کراتے ہیں جس کا کئی سال پہلے انتقال ہو چکا ہے، پریس کانفرنسوں میں سخت ترین سوالات اٹھانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا، ضیاء الحق کے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ آمر کے سامنے کلمہ حق یا استاد محترم نثار عثمانی بلند کر سکتے ہیں یا وہی ان پڑھ صحافی۔۔۔ ٭٭٭٭٭ آج ہم جس ایک ان پڑھ مگر ذہین صحافی کا ذکر کر رہے ہیں جھجک نام کی چڑیا تو اس کے پاس سے بھی نہیں گزری تھی ،وہ میلا کچیلا یا ان پڑھ ہونے کے احساس میں کبھی مبتلا نہ ہوا تھا، وہ بڑے بڑے طرم خان سیاستدانوں ، بیوروکریٹس یا سرمایہ داروں سے مرعوب نہیں ہوتا تھا، احمقانہ اور بیہودہ سوال کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس کا کام پنگا لینا تھا، لفافہ ساز پنگا۔مطلب یہ کہ منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے اسے دیہاڑی لگانے میں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی تھی ، وہ پریس کلب اور جرنلسٹس یونین کے انتخابات میں بھی بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتا اور بڑے مارجن سے جیت بھی جاتا ، دوسروں کی چٹکیاں لینے میں اس کا کوئی مقابل نہیں تھا، اگر وہ حادثاتی صحافی نہ بنتا تو بہترین کامیڈین بن سکتا تھا ، آج وہ زندہ ہوتا تو اس کا خاکہ لکھنے کا مزہ زیادہ آتا، وہ اپنے خاکے کو خود پسند بھی کرتا اور دوستوں سے کہتا، میری صلاحیتیں دیکھنی ہیں تو میرا خاکہ پڑھو ،، سنا ہے کہ وہ گلیوں بازاروں میں چل پھر کے گٹا فروخت کیا کرتا تھا۔ صحافی سعادت خیالی اس کے مقروض ہو گئے تو بدلے میں اسے صحافی بنا دیا تھا۔،، یہ کہنہ مشق اور سینئر صحافی،، لاہور میں ہونے والی سو فیصد پریس کانفرنسیں اٹینڈ کیا کرتا تھا ، وہ اپنے اخبار کا واحد رپورٹر تھا، یعنی تمام محکموں کا اکیلا سربراہ۔ وہ ایک اورصحافی کے بعد وہ اپنے قبیلے کا دوسرا رپورٹر تھا جو پریس کلب میں بیٹھ کر کھلے عام اعتراف کیا کرتا تھا کہ آج اس نے کتنے لفافے پکڑے اور اس کی جیب کتنی بھاری ہے؟ وہ پریس کلب اور جرنلسٹس یونین کے انتخابات میں بھی حصہ لیتا اور بڑے مارجن سے جیت بھی جاتا تھا، دوسروں کی چٹکیاں لینے میں وہ فل ایکسپرٹ تھا، 80ء کی دہائی میں بورے والا کا ایک نوجوان سعید پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد شعبہ صحافت میں داخل ہوا تو اسکی کئی حرکتیں دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ شرارتوں ، اوٹ پٹانگ حرکتوں اور چہل بازی کی حد تک وہ اس ان پڑھ پر حاوی ہو جائے گا ، سعید مان بعد ازاںبیرون ملک چلا گیا تھا اور چار سال پہلے اس کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات میں ایک سال ان پڑھ صحافی اور سعید مان دونوں گورننگ باڈی اور بی ڈی ایم کے امیدوار بن گئے، ان پڑھ صحافی کیلئے کسی سے کمزور پڑنے کا شاید یہ پہلا موقع تھا، بہر حال یہ دونوں الیکشن جیت گئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات پشاور میں ہونا تھے، اور ان دونوں نے بھی حق رائے دہی استعمال کرنا تھا، میں PUJ کے صدر کی حیثیت سے اپنے قافلے سمیت پشاور پہنچا ، اس قافلے میں یہ دونوں بھی شامل تھے، ہمیں PC میں ٹھہرایا گیا ، ارباب جہانگیر اس وقت وزیر اعلی سرحد تھے، ایک دن بعد ہمیں بتایا گیا کہ آج چیف منسٹر اسی ہوٹل میں ہمیں ڈنر دے رہے ہیں، رات نو بجے کے قریب چیف منسٹر ہال میں پہنچ گئے، ہوٹل کی ایک خوبصورت میزبان ان کے ساتھ پروٹوکول ڈیوٹی کر رہی تھی ، میں نے دیکھا کہ سعید مان نے اس میزبان لڑکی کو متوجہ کر لیا ہے اور اس سے گفتگو کر رہا ہے۔ سعید نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکالا اور ہوٹل کی اس میزبان کے ہاتھ میں تھما دیا، یہ منظر نزدیک کھڑا اس کا حریف ان پڑھ صحافی بھی دیکھ رہا تھا ، وہ سعید مان اور میزبان لڑکی کے درمیان آ گیا ، لڑکی کے ہاتھ سے سعید مان کا وزیٹنگ کارڈ چھینا ، تھوک سے سعید مان کا نام مٹانے کی کوشش کی اور کارڈ دوبارہ لڑکی کودے دیا، لڑکی حیرت زدہ ہو کر وہاں سے کھسک گئی، شاید اس قسم کا لیچڑ پن اس نے پہلے بھی نہ دیکھا ہو، ایک بار نجی شعبے میں نئی ائیر لائینز شروع ہوئی تو انتظامیہ نے صحافیوں کو لاہور سے دبئی لے جانے کا پروگرام بنایا، جب پرواز نے اڑان لی تو اس ان پڑھ صحافی نے مجھے بتایا کہ وہ دبئی تو جا رہا ہے لیکن اس کے پاس شاپنگ کے لئے پیسے نہیں ہیں، وہ مجھ سے اصرار کرنے لگا کہ ائیر لائن کا مالک بھی اسی جہاز میں سوار ہے اور میں سفارش کروں کہ وہ اسے شاپنگ کے لئے پیسے دے ،،،،، یہ میرے لئے ناممکن تھا ، اس نے اتنا زچ کیا کہ مجھے اپنی جیب سے اسے سو ڈالر دینا پڑے،،،، دبئی پہنچے تو ائیر لائن کے مالک نے ہمیں بس میں سوار ہونے سے پہلے بتایا کہ یہ بس آپ لوگوں کو ایک ایسی مارکیٹ میں لے جائے گی ، جہاں بہت سستی اشیاء مل جاتی ہیں ،،، اس نے لقمہ دیا،، آپ ہمیں دبئی دکھانے لائے ہیں یا لنڈا بازار؟ اس واقعہ کے کئی سال بعدان پڑھ صحافی نے انکشاف کیا کہ اس نے ائیر لائن کے مالک سے پیسے ہتھیا لئے تھے۔۔۔۔ بظاہر لگتا تھا کہ اسے اپنے ان پڑھ ہونے کا کوئی قلق نہیں، لیکن ایسا نہ تھا، اس نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلائی۔ یہ ایک صحافی کی کہانی نہیں ہے، یہ پاکستان میں اردو صحافت کا عظیم المیہ ہے، اس ملک میں ہزاروں افراد کے پاس اخبارات اور جرائد کے ڈیکلریشن ہیں، جو شائع نہیں ہوتے مگر ہر اخبار نے سینکڑوں لوگوں کو پریس کارڈ بنا کر دیے ہوئے ہیں، یہ پریس کارڈز ہزاروں نہیں لاکھوں روپوں میں بیچے جاتے ہیں، انہیں ایک سال کے لئے جاری کیا جاتا ہے اور سال کے بعد نئے کارڈ کے لئے دوبارہ پیسے وصول کئے جاتے ہیں، ان پریس کارڈز کی بڑے شہروں کے مقابلے میں چھوٹے شہروں اور قصبات میں بہت مانگ ہے، کئی نام نہاد میڈیا ہاؤسز نے ایک ایک شہر میں چار چار لوگوں کو قیمتاً نمائندگی دے رکھی ہے، ذرا سوچئیے! جو لوگ پیسے دے کر اخبارات و جرائد کے شناختی کارڈز بنواتے ہیں وہ کیا کیا جرائم نہیں کرتے ہوں گے؟ چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں یہ کارڈ ہولڈرز پولیس کی ملی بھگت سے عام لوگوں کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں اس کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا۔