غالبا ًاسی دن کے لئے مسلمانوں کی آخری مرکزی سلطنت خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے وفاداروں اور کاسہ لیسوں میں تقسیم کیا گیا تھا کہ جب فیصلہ کن جنگ کا مرحلہ سر پہ آن پہنچے تو امت مسلمہ ، اگر وہ کہیں ہے ، تو اپنے ہی مسائل میں الجھی ہو،باہم دست و گریبان ہو یا عظیم منصوبہ سازوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح کھیل رہی ہو۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب میں ایک اہم سبب اس کا یہودیوں کو سلونیکا میں آباد کاری کی اجازت دینا تھا۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ یہودیوں کو اگر دنیا میں کہیں پناہ ملی تو وہ اسلام کی آغوش میں ملی اور تاریخ اس پہ بھی گواہ ہے کہ یہودیوں نے اپنی ریاست کے قیام کے لئے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کی پشت میں چھرا گھونپا ۔عثمانیوں نے معلوم وجوہات کی بنا پہ عیسائیوں کی نسبت یہودیوں پہ بھروسہ کیا اور انہیں اپنے دربار تک رسائی دی۔ اس وقت جب سارا یورپ یہودیوں کے لئے مقتل بنا ہوا تھا اور انہیں نہایت حقارت کے ساتھ غیطوز میں محدود رکھا جاتا تھا ، یہ سلطنت عثمانیہ ہی تھی جس نے انہیں مقدونیہ میں شہر سلونیکا میں آبادکاری کی سہولت اور اجازت دی۔ جس وقت اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ سلطنت کا سورج بڑے عبرتناک انداز سے غروب ہورہا تھا، غرناطہ کی گلیاں مسلمانوں کے خون سے بھر گئی تھیں اور گھوڑوں کی ٹاپیں اس لئے سنائی نہ دیتی تھیں کہ وہ ان سڑکوں پہ نہیں پڑتی تھیں جن کا جال مسلمانوں نے سلطنت بھر میں بچھا رکھا تھا بلکہ مسلمانوں کے خون کے تالابوں پہ پڑتے تھے تو ازابیلا اور فرڈینینڈ نے بچے کچھے مسلمانوں اوریہودیوں کو تین آپشن دیئے جو فرمان الحمرا کہلاتا ہے۔ اس کی رو سے یہودیوں اور مسلمانوں کو آگ میں جل مرنے، مذہب تبدیل کرکے عیسائیت اختیار کرنے یا اسپین سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ تقریبا پچاس ہزار یہودیوں نے عیسائیت قبول کرلی جبکہ ڈھائی لاکھ یہودیوں نے اسپین سے ہجرت کی تو انہیں پناہ اسی سلطنت عثمانیہ نے دی۔یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شہر سلونیکا میںیہودی قبل مسیح سے ہی آباد تھے لیکن سینٹ پال کی یہاں آمد نے اس شہر میں عیسائیوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔عیسائی آبادی کے اسی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے عثمانی حکمرانوں نے اسی شہر میں یہودیوں کو بسانے کی غلطی کی اور اس کا خمیازہ آنے والے وقت میں بھگتا۔اس فیصلے کی وجوہات سمجھ میںآنے والی تھیں۔ انہیں عیسائیوں سے خطرہ تھا جبکہ یہودی دنیا بھر میں دھتکاری ہوئی قوم تھی۔یہی حکمت عملی عثمانیوں نے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنائی۔یہودیوں کی طرف عثمانیوں کی دریا دلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں یورپ بھر سے نکالے اور مارے جانے سے بچ رہنے والے یہودیوں نے اسی شہر میں ان کے سائے تلے پناہ لی حتی کہ یہ سلطنت اور یورپ کا سب سے بڑا یہودی آبادی والا شہر بن گیا۔ رفتہ رفتہ یہ یہودی سلطنت عثمانیہ کی معیشت بالخصوص پارچہ بافی کی صنعت پہ قابض ہوتے گئے اور اسی باعث انہوں نے دربار تک بھی رسائی حاصل کرلی کیونکہ سلطنت عثمانیہ کے فوجیوں کی وردیاں تیار کرنے کا ٹھیکہ بھی ان ہی کو ملتا تھا۔مسلم اسپین کے بعد یہودیوں کی تاریخ کا یہ سنہری دور تھا۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک واقعہ نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ 1655 ء میں غازی سلطان محمد رابع کے دور میں ایک یہودی راہب سبت زیوی نے مسیحائے یہود ہونے کا دعوی کردیا۔ چونکہ یہودی صدیوں سے اپنے مسیحا کی آمد کا انتظار کررہے تھے اس لئے انہوں نے جوق در جوق اپنے اثاثے اور کاروبار فروخت کرکے سمرنا پہنچنا شروع کردیا تاکہ اس کے ہمراہ یروشلم جا سکیں جو ان کی ارض موعود تھی۔یہ صورتحال صحیح العقیدہ یہودی عالموں کے لئے ایک فتنہ تھا اس لئے اس کی سرکوبی کے لئے انہوں نے سلطان سے مدد چاہی۔ جب سلطان نے سبت زیوی کو دربار طلب کیا تو اس کے معتقد یہودیوں کا خیال تھا کہ وہ کوئی ایسا معجزہ دکھائے گا کہ یروشلم آزاد ہوکر ان کے قبضے میں آجائے گا لیکن ہوا یہ کہ جب وہ دربار پہنچا تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔ابھی یروشلم کی آزادی کا وقت نہیں آیا تھا اور اسلام قبول کرنے میں ہی عافیت تھی حالانکہ اس پہ کوئی جبر نہ تھا کیونکہ اس کے ساتھ تین سو یہودیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ تاریخ کے مطابق یہ مسلمان ہونے والے یہودی کبھی سواد اعظم کا حصہ نہیں رہے اور اپنی مسجد الگ بسائے رکھی۔ وہ یہودیت اور اسلام کے درمیا ن ایک فرقہ بن گئے اور دونیما کہلائے۔ان کے دونام ہوا کرتے ایک اسلامی دوسرا ترک۔ یہ حج بھی کرتے لیکن درون خانہ یہودیت پہ عمل پیرا ہوتے۔ بعد ازاں جب خلافت عثمانیہ کمزور پڑی اور اس کے خلاف تحریک اٹھیں تو ترک جوانان تحریک جس نے سقوط خلافت عثمانیہ میں اہم کردار ادا کیا، کی اکثریت ان ہی لوگوں پہ مشتمل تھی اور ان کا ہیڈکوارٹرسلونیکا ہی تھا جسے دو صدی قبل ایک یہودی شاعر نے اسرائیل کی ماں قرار دیا تھا۔ 1908 ء سے 1918 ء تک عثمانیہ سلطنت پہ ان ہی ترکوں کی حکومت رہی اور آرمینیا میں عیسائیوں کے قتل عام کا جو داغ سلطنت عثمانیہ پہ لگا ہوا ہے اس کے ذمہ دار بھی یہی تھے ۔انور جمال پاشا، احمد پاشا اور طلعت پاشا نامی ان حکمرانوں نے جرمنی کے ساتھ اتحاد کرکے ترکی کو جنگ عظیم میں دھکیلا جس کے نتیجے میں سلطنت کو بدترین نقصان اور وسائل کے ضیاع سے دوچار ہونا پڑا۔ 1918 ء میں ذلت آمیز معاہدہ مدروس کے تحت برطانیہ کے سامنے سلطنت عثمانیہ نے ہتھیار ڈال دیے اور مسلمانوں کی عظیم سلطنت حجاز، عراق، لیبیا،شام اور یمن سے دستبردار ہوگئی۔تینوں جرات مند پاشا اپنی قوم کو قعر مذلت میں دھکیل کر ایک آبدوز میں راتوں رات فرار ہوگئے۔آبنائے باسفورس سمیت تمام اسٹریٹجک راستے اتحادی افواج نے قبضے میں لے لئے۔ بیرن روتھ شیلڈ اور وائز مین کے درمان خفیہ خط وکتابت کے نتیجے میں ہونے والے معاہدہ بالفور کے تحت فلسطین میں دنیا بھر سے یہودیوں کو بسانے یعنی یہودی ریاست کے قیام کی سازش بھی اسی دوران رچائی گئی۔یہ کہنا کسر بیانی ہوگا کہ اس دوران یہودی اپنی آزاد ریاست کے تصور سے کبھی دست بردار نہیں ہوئے کیونکہ تھیوڈور ہرزل نے صیہونی تنظیم کی بنیاد 1896 میں رکھ دی تھی اور سلطان عبدالحمید کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کرچکا تھا ۔اس میں ناکامی کے بعد ہی خلافت عثمانیہ کے خلاف بے داغ سازش رچائی گئی تھی۔لارنس آف عربیا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ ہٹلر کا بدنام زمانہ ہولوکاسٹ بھی اسرائیل کے قیام میں معاون ہوا۔یہ امر واقعہ ہے کہ اسرائیل کا قیام مسلمانوں کی مرکزی حکومت کے خاتمے کے بغیر ناممکن تھا اور یہ بھی کہ ایک قوم جب اپنے مقصد سے روگردانی نہیں کرتی تو ہر جائز ناجائز راستہ اختیار کرکے بالآخر فاتح وکامران ٹھہرتی ہے۔ یہی اسرائیل جب باقاعدہ ایک ملک کی حیثیت اختیار کرگیا توا س وقت تک وہ اتنا مضبوط ہوچکا تھا کہ نو آزاد شدہ مسلم ریاستیں اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہ رکھتی تھیں۔(جاری ہے)