ممتاز صحافی جمیل اطہر صاحب کی کتاب’’دیار مجددؒ سے داتا نگر تک‘‘ موصول ہوئی تو فرصت کے اوقات میں دلجمعی سے پڑھنے کا ارادہ تھا مگر کتاب نے سرسری ورق گردانی کے دوران ہی جکڑ لیا ع کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا است یہ صرف لاہور‘ فیصل آباد اور سرگودھا کی صحافتی تاریخ اور جمیل اطہر صاحب کی سوانح حیات نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست و صحافت کا بے لاگ تذکرہ اور ایماندارانہ تجزیہ ہے‘ سادہ اسلوب میں دلچسپ واقعات کو اختصار کے ساتھ بلا کم و کاست بیان کیا گیا ہے کہیں بھی مبالغے اور بے جا رورعائت سے کام نہیں لیا گیا۔ یوں تو ساری کتاب ہی قابل مطالعہ ہے لیکن چند ہلکے پھلکے واقعات قارئین کی ضیافت طبع کے لئے آج کے کالم میں پیش ہیں۔ لکھتے ہیں۔ گوجرہ میں میری آمدو رفت کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ وہاں سے دو ہفت روزے امن اور جانبار شائع ہوتے تھے۔ امن کے مدیر اور مالک حاجی محمد اسحاق تھے جو بنیادی طور پر ایک خوش نویس تھے۔ وہ روزانہ گوجرہ سے لائل پورجاتے اور وہاں کسی نہ کسی اخبار میں کتابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ہفت روزہ جانبار کے ایڈیٹر و مالک میاں وزیر محمد جالندھری تھے وہ پیشہ کے اعتبار سے ایک اخبار فروش تھے۔ ان دونوں کو اخبار کا ایڈیٹر اور ناشر بنانے کا سہرا جناب آزاد شیرازی مرحوم کے سر ہے جن کے متعلق مشہور تھا کہ اگر کوئی شخص ان کے قریب سے بھی گزر گیا تو انہوں نے اسے اخبار کا ڈیکلریشن دلا دیا۔ اس سلسلے میںایک لطیفہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ آزاد شیرازی صاحب لائل پور کے ایک اخبار میں نیوز ایڈیٹر تھے۔ ان کے دفتر میں جو خاک روب صفائی کا کام کرتا تھا انہوں نے بلا کرکہا کیا نام ہے تمہارا؟ خاکروب نے کہا جی خورشید مسیح‘ شیرازی صاحب نے کہا کیا تم نے ساری عمر صفائی کا ہی کام کرنا ہے تم اپنا اخبار کیوں نہیںنکال لیتے۔ اس نے کہا سر میں کیسے اخبار نکال سکتا ہوں۔ شیرازی صاحب نے کہا کہ تم اخبار نکال کر دیکھو تمہارا اخبار سب سے زیادہ چلے گا اور اس کا نام ہو گا’’مسیحی پکار‘‘ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ خورشید مسیح واقعی اخبار کا مالک بن گیا اور ہر طرف چرچا ہونے لگا کہ شیرازی صاحب کی مصاحبت کے باعث ایک عیسائی اخبار کا مالک بن گیا ہے۔ مولوی عیسیٰ صاحب ایک دلچسپ آدمی تھے۔ مولوی صاحب ایک خوش باش شخص تھے۔ ان کی ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزری۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ میں ایک مرتبہ لائل پور گیاہوا تھا اور وہاں میری نظر روزنامہ عوام کے ایڈیٹر جناب خلیق قریشی پر پڑی۔ مولوی صاحب نے جو عوام کے نیوز ایجنٹ تھے کئی ماہ سے بل کی رقم ادا نہیں کی تھی۔ اس لئے وہ کنی کترا کے ایک اور بازار کی طرف نکل گئے مگر وہاں پھر ان کا ٹاکرا خلیق صاحب سے ہو گیا۔ خلیق صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب میں نے آپ کو دیکھ لیا تھا۔ آپ مجھے دیکھ کر کیوں بھاگے تھے۔ مولوی صاحب نے کہا جناب کئی ماہ سے آپ کا بل ادا نہیں ہوا۔ اس شرمندگی کی وجہ سے آپ سے آنکھیں چار نہیں کر سکتا تھا۔ خلیق صاحب نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا بس اتنی سی بات تھی۔ میں نے تو سینکڑوں لوگوں کے پیسے دینے ہیں اور میں نے کبھی ان سے آنکھیں نہیں چرائیں۔ ایسی وجوہ سے ملنا جلنا نہیں چھوڑتے۔ سرگودھا سے اشاعت کے بعد کچھ واقعات ایسے پیش آئے جن کی وجہ سے وفاق کو سرگودھا میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملا۔ سب سے پہلے تو چراغ بالی کی گرفتاری کی خبر آئی جس پر ہم نے وفاق کا خصوصی ضمیمہ شائع کیا جس کی شہہ سرخی یہ لکھی’’بدنام ڈاکو چراغ بالی گرفتار‘‘ اس پر شہریوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور انہوں نے کہا کہ چراغ بالی ڈاکو ضرور تھا مگر بدنام ہرگز نہیں تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ چراغ بالی حافظ قرآن تھا۔وہ امیروں کے گھروں سے مال لوٹ کرغریب گھرانوں میں پہنچا دیتا۔ ہمارے ادارے میں ایک بزرگ صحافی جناب آباد شاہ پوری بھی شامل تھے۔ آباد صاحب جماعت اسلامی کے بنیادی رکن تھے۔ آباد شاہ پوری صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ ہڈالی میں چراغ بالی کے پڑوسی ہیں اور چراغ بالی اور ان کے گھر کی دیواریں مشترک ہیں۔ وہ چراغ بالی کی غریب نوازی اور سخاوت کے ایسے ایسے قصے سناتے تھے کہ انسان حیران رہ جاتا تھا۔ آباد شاہ پوری صاحب ایک نہایت سنجیدہ شخص تھے۔ وہ لکھنے لکھانے کا اپنا کام مکمل کر کے میرے کمرے میں صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے تھے اور کبھی کبھی میں ان سے فرمائش کرتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سے ہمیں مستفید فرمائیں۔ چراغ بالی کی گرفتاری کے بعد ایک ایسی ہی فرمائش کے جواب میں آباد صاحب نے کہا جمیل صاحب آج آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنا ہی دیتے ہیں۔ یہ روزنامہ تسنیم کے آخری ایام تھے۔ اخبار سخت مالی بحران سے دوچار تھا۔ میری رہائش اچھرہ میں تھی۔ ایک روز جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو میری بیوی نے کہا کہ اے میرے سرتاج آج گھر میں اللہ کے نام کے سوا کچھ نہیںہے میں گھر سے سخت پریشانی کے عالم میںنکلا اور سیدھا ٹیمپل روڈ جا پہنچا جہاں (ایڈیٹر تسنیم) ملک نصراللہ خان عزیز کی رہائش تھی۔ میں نے گھر کی گھنٹی بجائی۔ ملک صاحب نے خود دروازہ کھولا اور مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا‘ میں نے اپنی کتھا انہیں سنائی‘ ملک صاحب کا حسب معمول جواب تھا کہ آباد صاحب آپ سے زیادہ کون واقف ہے کہ ہم کن مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ آباد صاحب نے کہا کہ میرے ذہن میں میری اہلیہ کا فقرہ بار بار مجھے مشتعل کر رہا تھا۔ اب میرے اندر ملک صاحب کی مجبوریاں سننے کا یارا نہیں تھا۔ میں نے یک دم اپنی شلوار کے نیفے سے چاقو نکال کر ملک صاحب پر لہرایا اور انہیں للکارا کہ آپ کو معلوم نہیں میں چراغ بالی ڈاکو کا پڑوسی ہوں اور آپ نے آج مجھے پیسے نہ دیے دیئے تو میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں۔ ملک صاحب یہ کہہ کر میرے حملے کو روکتے رہے کہ آباد صاحب آپ بیٹھیں میں ابھی آتا ہوں۔ میں نے انہیں یہ مہلت دے دی۔ وہ گھر کے اندر گئے اور واپس آ کر مجھے پانچ سو روپے دیے۔ میں خوشی خوشی گھر لوٹا اور یہ پانچ سو روپے بیوی کے ہاتھ میں دے دیے۔ یہ کہانی سنا کر وہ بار بار قہقہے لگاتے رہے اور اپنا یہ فقرہ دہراتے رہے کہ میں چراغ بالی ڈاکو کا پڑوسی ہوں۔ وفاق سرگودھا سے شائع ہونے لگا۔ ہمارا دفترکچہری بازار میں تھا اور رہائش سیٹلائٹ ٹائون میں۔ ہم ہر رات کاپی پریس بھیجنے کے بعد سرگودھا ریلوے سٹیشن کا پل پار کر کے سیٹلائٹ ٹائون جاتے تھے۔ ایک شب سخت سردی تھی اور ہم پل سے گزر رہے تھے کہ دیکھا پل کے ایک طرف ایک شخص اور دوسری طرف دوسرا شخص کمبل اوڑھے موجود ہے۔ دونوں نے ہمیں دیکھ کر دے جا سخیا‘ اللہ دی راہ وچ کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ جب ہم انہیں نظرانداز کر کے گزرنے لگے تو ان میں سے ایک نے آواز دی او وفاق والو کچھ اللہ دی راہ وچ دے جائو۔ ہم یہ سن کر واپس لوٹے دونوں کو کمبل اتارنے کے لئے کہا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کمبل اتار دیے اور اب یہ راز کھلا کہ یہ اثر چوہان اور عاشق جعفری ہیں۔ انہوں نے کہا وفاق سے جو تنخواہ ملتی ہے اس میں گزر بسر نہیں ہوتی اس لئے ہم اوور ٹائم لگا رہے ہیں۔ ہم جب اپنے کاموں کے لئے سرگودھا سے لاہور آتے تھے واپسی کا سفر ماڑی انڈس ٹرین سے کرتے تھے جو سات بجے شام لاہور سے چلتی تھی اور شیخو پورہ سانگلہ ہل‘ چک جھمرہ اور چنیوٹ کے راستے دو اڑھائی بجے سرگودھا پہنچتی تھی۔ ہم ایک بار گاڑی سے اترکر سرگودھا ریلوے سٹیشن پر کسی تانگہ کے منتظر تھے۔ ایک کوچوان نے آواز دی۔ ’’مولانا صاحب ! آپ ادھر آ جائیں‘‘ کوچوان سے دریافت کیا کہ بھائی تم کون ہو اپنا تعارف تو کرائو۔ اس نے کہا مولانا آپ تانگہ میں تشریف لائیں تو سب باتیں ہو جائیں گی جب ہم تانگہ میں سوار ہوئے تو کوچوان نے اپنی چادر اتاری اور بے تکلفی سے کہا سر! میں ہوں یوسف گوئندی۔ ہم نے یوسف گوئندی سے جو سرگودھا کے ایک جانے پہچانے صحافی تھے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ آپ اس وقت کوچوانی کر رہے ہیں۔ یوسف گوئندی نے جو بعد میں سرگودھا میں سالہا سال روزنامہ نوائے وقت کے بیورو چیف رہے مسکراتے ہوئے کہا سر! یہ تانگہ شعلہ کے ایڈیٹر عبدالرشید اشک صاحب کاہے۔ گزشتہ ہفتے میں نے شعلہ میں بلدیہ سرگودھا کے حکام کے خلاف ایک شذرہ لکھ دیا۔ اشک صاحب کو ان سے کوئی کام تھا جس میں رخنہ پڑ گیا‘ اشک صاحب نے ناراض ہو کر میرا تبادلہ تانگہ پر کر دیا ہے اور تانگہ بان کو میری جگہ تعینات کر دیا ہے۔ اس طرح ہنستے مسکراتے یوسف گوئندی نے ہمارے گھر پہنچا دیا۔