امریکی اور برطانوی میڈیا ہی نہیں سپر پاور کے انٹیلی جنس ادارے بھی اب یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ افغان حکومت اور افغان نیشنل آرمی جنگجو طالبان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت و صلاحیت سے محروم ہے۔چند دنوں میں طالبان نے دس صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر کے اپنے مخالفین کو حیران کر دیا ۔امریکی تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی کے بارے میں یہ حسن ظن پایا جاتا تھا کہ وہ کم از کم تین سال تک طالبان کا مقابلہ کرے گی اور انہیں قندوز‘غزنی‘ شبر غان‘فراہ ‘فیض آباد جیسے شہروں میں داخل نہیں ہونے دے گی‘طالبان اگلے چند دنوں میں ہرات اور مزار شریف پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے تو کابل حکومت کی کمر ٹوٹ جائیگی۔ پھر طالبان کی مرضی کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت پر قبضے کا کب ارادہ کرتے ہیں؟امریکی انٹیلی جنس عہدیدار تین ماہ میں کابل پر قبضے کی پیش گوئی کر رہے ہیں مگر طالبان کی عسکری سرگرمیوں جوش و جذبے اور افغان نیشنل آرمی کے پست مورال سے واقف تجزیہ کار 31اگست کے بعد کسی وقت بھی سقوط کابل کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔شمالی افغانستان میں افغان نیشنل آرمی کی کارکردگی سامنے آ چکی ہے‘امریکہ اور نیٹو کی جدید بنیادوں پر فعال ٹریننگ کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے اور یہ بات ثابت ہو چکی کہ جذبے اور عزم سے عاری فوج کی ٹریننگ کام آتی ہے نہ جدید ترین ہتھیار اور نہ کرپٹ و نااہل حکمرانوں کی ہلّہ شیری۔ افغان طالبان ایک ایک کر کے صوبوں پر صوبے فتح کرتے چلے جا رہے ہیں‘ عبدالرشید دوستم جیسا جنگجو اس بات پر خوش ہے کہ اس کا بیٹا شبرغان سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب رہا اور طالبان کے ہاتھ نہیں لگا مگر امریکی حکومت افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے فرمائش کر رہی ہے کہ وہ بزور طاقت قبضے کی صورت میں طالبان حکومت کو تسلیم نہ کریں‘سبحان اللہ۔دو سال قبل سپر پاور امریکہ نے طالبان قیادت سے طویل مذاکرات کے بعد بحفاظت اور باعزت انخلا کی درخواست کی جو اس شرط پر منظور ہوئی کہ ریاست متحدہ امریکہ امارات اسلامی افغانستان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کرے جس میں امریکہ اور نیٹو کے انخلا کی شرائط درج ہوں۔تحریری معاہدہ ہوا جس پر حکومت امریکہ کی طرف سے نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے دستخط کئے‘یہ امریکہ کی طرف سے صرف طالبان نہیں بلکہ امارات اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنے کا براہ راست اعلان تھا‘ظاہر ہے کہ کوئی بھی ریاست معاہدہ اس فریق سے کرتی ہے جسے وہ جائز اور قانونی مانتی ہو‘جوبائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ دور میں ہونے والے اس معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھا اور کسی سطح پر بھی معاہدے پر کوئی اعتراض کیا نہ امارات اسلامی افغانستان کے وجود سے انکار۔امریکہ کے سوا کسی دوسرے ملک نے ابھی تک امارات اسلامی افغانستان سے تاحال کوئی معاہدہ نہیں کیا البتہ اس کے وفود سے چین‘روس‘ ازبکستان‘تاجکستان‘ ایران اور پاکستان کے اعلیٰ سرکاری عہدیدار ملاقاتیں ضرور کر رہے ہیں۔ترکی کے صدر طیب اردوان نے بھی طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے ۔ترکی نیٹو کا رکن اور مسلم یورپی ریاست ہے۔یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ امارات اسلامی افغانستان سے تحریری معاہدہ کر کے اپنے باعزت و محفوظ فوجی انخلا کا اہتمام کرنے والا ملک افغانستان کے ہمسایوں کو یہ مشورہ دے رہا ہے‘دیگراں رانصیحت خود میاں فضیحت‘لیکن امریکی اس دوہرے معیار اور دو رنگی کے عادی ہیں۔قارئین کو یاد ہو گا کہ 1990ء کے عشرے میں امریکہ نے پاکستان پر دبائو بڑھائے رکھا کہ وہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرے‘جب پاکستان نے امریکہ سے کہا کہ وہ خود بھی تو سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرے تو جواب ندارد‘ امریکہ اور نیٹو دو ہزار ارب ڈالر خرچ کر کے افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے ٹیکس دہندگان بجا طور پر سوال کر رہے ہیں کہ اس مہم جوئی کا مقصد کیا تھا؟ چند ہزار جنگجوئوں کے مقابلے میں ڈیڑھ لاکھ تربیت یافتہ فوج‘عہد حاضر کی ہیبت ناک جنگی مشینری اور سفارتی رعب و دبدبے کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟جواب ظاہر ہے جوبائیڈن کے پاس نہ امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہوں کے بس میں اور نہ ان امریکی و یورپی دانشوروں کو سوجھ رہا ہے جو بیس سال تک فتح و کامرانی کا ڈنکا بجاتے رہے۔1980ء کی دہائی میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے اہم کردار میجر(ر) عامر 1987ء میں کریملن کی ایک میٹنگ کا حال سناتے ہیں۔اس وقت سوویت یونین کے صدر گوربا چوف نے ایک میٹنگ طلب کی۔پاکستان کی آئی ایس آئی کے ایک سورس نے جو کابل کے روسی سفارت خانے میں تعینات تھا‘میجر عامر کو اطلاع دی کہ گوربا چوف نے پولٹ بیورو کے اجلاس میں فوجی انخلا کی تجویز پیش کی ہے‘ جو بیورو کے بوڑھے ارکان کو پسند نہیں آئی اور انہوں نے کھل کر تجویز کی مخالفت کی‘زچ ہو کر گوربا چوف نے کہا ’’1979ء میں افغانستان میں فوجی مداخلت کا فیصلہ برزنیف نے اس وقت کیا جب وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ تھا‘گوربا چوف نے کہا ذہنی طور پر مفلوج برزنیف کے فیصلے پرکاربند رہنا ہمارے فوجی اور معاشی مفاد میں نہیں۔میجر عامر نے جب یہ رپورٹ جنرل ضیاء الحق کو پیش کی تو افغان جہاد کے معمار کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ‘گلوگیر آواز میں ضیاء الحق نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’خدا کا شکر ہے ‘‘میرا یہ اندازہ درست ثابت ہوا کہ معجزہ اس دور میں بھی ہو سکتا ہے‘‘۔کسی کو کیا معلوم کہ کل کلاں کو کوئی امریکی سربراہ بش جونیئر کے فیصلے کو بھی اس کی بددماغی کا نتیجہ قرار دے۔ بیس سال قبل کسی کے سان گمان میں نہ تھا کہ امریکہ اور نیٹو کی فوجی قوت افغانستان میں ناکامی کا مُنہ دیکھے گی‘آج سے کچھ عرصے بعد شائد ہم امریکہ کو طالبان کی حکومت تسلیم کرتے دیکھیں‘آخر ان گناہگار آنکھوں نے چالیس سال کے مختصر عرصے میں دنیا کی دو سپر پاور کو افغانستان میں خاک چاٹتے بھی دیکھا ‘ امریکہ کب چاہے گا کہ طالبان افغانستان پر قابض ہوں‘روس‘ چین ‘ایران اور پاکستان امارات اسلامی افغانستان کو تسلیم کر لیں‘ پانچ چھ ہمسایہ ممالک جن میں تین نیو کلیر پاورز ہیں‘ ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں۔ ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ نشو و نما پائے او اپنے سٹرٹیجک پارٹنر بھارت سمیت خطے کی سیاست سے یوں نکال باہر پھینکا جائے جیسے دودھ سے مکھی۔امریکہ امارات اسلامی افغانستان سے معاہدہ کر سکتا ہے‘جوبائیڈن اشرف غنی کی مزید پشت پناہی سے انکار کر سکتا ہے اور امریکہ و نیٹو کی تربیت یافتہ تین لاکھ افغان فوج پچاس ساٹھ ہزار طالبان جنگجوئوں کے روبرو سوکھے ہوئے پتوں کی طرح بکھر سکتی ہے تو کابل پر قابض طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ناممکن کیوں؟امریکہ نے پہلے کب کسی سے پوچھا ہے کہ اب نیٹو یا بھارت سے مشورہ کریگا ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا