3اپریل 2021ء ہفتے کو عوام سے براہ راست ٹیلی فون کال سننے کے پروگرام میں ایک کالر کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ریپ کے بارے میں حکومت نے سخت قوانین بنائے ہیں لیکن ایسے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک وجہ فحاشی کا پھیلنا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے صرف قانون بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ آج معاشرے میں آپ فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمارے دین میں کیوں منع کیا گیا ہے؟ پردے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔ بلاشبہ پاکستانی قوم میں اسلامی حمیت ختم کرنے ، اسے عضومعطل بنانے کیلئے اس سرزمین پر ایسے افراد اوراین جی اوز کی کمی نہیں۔ جومختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان میں بے حیائی اورفحاشی کا پھیلائو چاہتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بے پردگی اور فحاشی کو ریپ کی وجوہات قرار دینے والے بیان پریہ طبقہ فوری طورپر تلملااٹھا۔ان دیسی لبرز کابخا ر104تک پہنچا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے آسمان سر پراٹھالیاکہ ریپ کا پردے اور لباس سے کیاتعلق ہے۔اس طبقے کی تلملاہٹ کوئی نئی بات نہیں اوریہ یقینی امرتھا کیونکہ کتابیں بھری پڑی ہیں کہ ہرزمانے میں جب بھی دنیا میں معاشرے کے بگاڑ کی نشاندہی کی گئی اور اصلاح احوال کانسخہ بتادیاگیاتو بے پردگی اورفحاشی پھیلانے والا طبقہ بودے دلائل کے ساتھ آڑے آگیااورحق بات پر تنقید کرتارہا۔ آج بھی حق بات کہنے والوں کے سامنے یہی چلینج درپیش ہے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پیپلزپارٹی اسی طبقے پر مشتمل ہے اس لئے اگراس کی کوئی عورت ترجمان وزیراعظم کے بیان پر اپنا متوقع ردعمل دے توکوئی انہونی نہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس یہ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے اصلاح احوال کے بیان کی جس طرح شدیدالفاظ میں مذمت کی ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا اسے دیکھ کر پتاچلاکہ نظریات کے اعتبار سے بھی نون لیگ پیپلزپارٹی جیسی ہے بلکہ اسے بھی دوقدم آگے ہے ۔چہروں مہروں سے تونون لیگ والے بڑے ہی شریف ،دھیمے اورسلجھے لوگ لگ رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ کسی فردیاجماعت کوجب پرکھنے کے لئے کسوٹی لگ جاتی ہے تواس کی حقیقت اوراس کی اصلیت آشکارہوجاتی ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دیگرمعاشروں کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی ذہنی طور پر مفلوج اور الجھن کا شکار ہے اورملک کے وزیراعظم عمران خان اسی معاشرے کی عکاسی کر رہے تھے۔ مگریہاں آوے کاآواہی بگڑاہواہے اورہر سچی بات کوبھی اپنے مخالف شخص یا دھڑے کی بات قراردے کراس پرتبرابھیجاجاتاہے ۔لیکن پاکستان کاسواداعظم جناب عمران خان کے بیان کو سچائی کاآئینہ قراردیتاہے۔سوشل میڈیا پردیکھاجاسکتاہے کہ کس طرح پاکستان کے عوام لکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے بالکل ٹھیک کہا، لباس کا بہت عمل دخل ہے اور پاکستان میں فحاشی عروج پر ہے۔ لباس پورا ہو گا تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ یورپ میں مسلمان خواتین مکمل حجاب میں ہوتی ہیں مگر پاکستان اورآس پاس کے دوسرے مسلمان علاقوںمیں تو خواتین کے لباس کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کہ ریپ کے واقعات کی وجوہات میں ایک وجہ بے پردگی اور فحاشی بھی ہے پرجہاں پاکستان کے مغرب زدہ طبقہ اپناچہرہ پیٹ رہاہے وہیں پاکستان کے سواداعظم کی ترجمانی کرتے ہوئے لوگوں نے لکھاہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بحیثیت مجموعی معاشرے میں فحش مواد تک بڑھتی ہوئی رسائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اخلاقی گراوٹ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور جہاں تک وزیراعظم نے پردے کی بات ہے تویہ کونسی تلخ بات ہے کہ جوایک طبقے کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی ۔ وزیراعظم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیںکہ ہمیں اپنی فلموں، ڈراموں اور موبائل ایپس کو گندگی سے پاک کرنا چاہئے اور دیکھنے والوں کو ایسی تفریح دیں جو تعمیری ہواورانہوںنے عملی اقدام اٹھاکرترک ڈرامہ پاکستان کے نیشنل ٹیلی ویژن پرقسط وار ٹیلی کاسٹ کروایا۔ وزیراعظم نے پردے کی بھی بات کی یہ انکی اپنی بات نہیں یہ رب العالمین کاحکم ہے جوقرآن مجیدمیں صریحاََموجود ہے لیکن جب عبدالمجیداورعبدالاحد نے دین سے دامن ہی جھاڑ لیاتوپھروہ فحاشی و عریانی پھیلانے کے دھندے ہی کو تحفظ دیں گے ۔لیکن اہل پاکستان کواسلام اور اسلامی شعائر کے تحفظ پراپنے وزیراعظم کے ساتھ کھڑاہوجاناچاہئے ۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی سے متعلق وزیراعظم عمران خان جس فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں اور جو اقدامات وہ اِس لعنت کے خاتمہ کے لئے اٹھانا چاہ رہے ہیں،ان کے تازہ ارشادات بھی اسی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی فلمیں اور ڈرامے فحاشی و عریانی سے پاک ہوں اور ترکی کی طرح پاکستان میں بھی بامقصد، اسلامی ہیروز اور اسلامی تاریخ پر مبنی فلمیں اور ڈرامہ بنائے جائیں۔ اس لئے یک نکاتی اس ایجنڈے پرقوم کے ہرفردکو ان کی مدد کرنی چاہئے۔ وہ پاکستانی معاشرے کے دشمن ہیں کہ جووزیراعظم کوان کا ماضی یاد دلاکرانکی نیک تمنائوں پرتیزاب پھیرنے کی ابلیسی چال چل رہے ہیں۔ مجھے ایسے لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی پسند و ناپسند کی وجہ سے عمران خان کا فحاشی و عریانی کی خلاف فکر اور اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہنے کے بجائے خان صاحب کو ان کا ماضی یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔