دو روز قبل میجر جنرل آصف غفور اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں جب یہ بات کہہ رہے تھے کہ اگر1971ء میں آج کی طرح میڈیا آزاد اور باخبر ہوتا تو سقوط ڈھاکہ کی ٹریجڈی سے ہم محفوظ رہتے اور پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ میں عموماً جم کر کسی میڈیا بریفنگ کو نہیں دیکھتا مگر اس روز میں ہمہ تن گوش تھا اور میری نظریں ٹیلی ویژن اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔ جب جنرل صاحب نے یہ بات کہی تو ان کے الفاظ اور ان کی باڈی لینگوئج میں مکمل ہم آہنگی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے کان اور ہماری آنکھیں ہیں۔ اللہ کرے یہ حسن ظن قائم و دائم رہے۔ تعلیم جناب عمران خان کا فیورٹ موضوع ہے۔ وہ گزشتہ بائیس برس سے تعلیم کے بارے میں اظہار خیال کرتے چلے آئے ہیں۔ مجھے حیرت یہ ہوئی کہ حکومت کے بجائے ڈی جی آئی ایس پی آر نے دینی تعلیم کو قومی دھارے میں لانے کا دل خوش کن اعلان کیوں کیا۔ یہ اعلان تو وزیر اعظم یا وزیر تعلیم کو کرنا چاہئے تھا۔ اگرچہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ع دلیل کم نظری ہے قصہ قدیم و جدید مگر ہمارے ہاں روایتاً قدیم سے مراد دینی تعلیم اور جدید سے مراد عصری تعلیم ہے۔ سرسید احمد خان سے لے کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تک سب کا یہ خواب تھا کہ جدید و قدیم کو یکجا کیا جائے۔ جو معاشرے جامد نہیں متحرک ہوتے ہیں اور ثابت نہیں سیارہوتے ہیں وہاں قدیم و جدید کے درمیان کوئی آویزش نہیںہوتی وہاں جدید ضروتوں اور عصری تقاضوں کے مطابق طرز کہن خود بخود آئین نو میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ نہ ہی دینی تعلیم اس کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند میں اس کے رول کو گہرائی میں اتر کر سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دور استعمار اور تحریک آزادی کے دوران دینی علوم کے تحفظ اور علمی روایات کو باقی رکھنے کے لئے اس دور کے دینی اداروں نے شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ میں یہ تصور کر کے کانپ جاتا ہوں کہ استعمار کے آنے کے بعد اگر یہ دینی تعلیمی ادارے یہاں موجودنہ ہوتے تو اس قوم کا کیاحال ہوتا۔ آج ’’جدید‘‘ اداروں سے آنے والی ہرشعبے میں جو قیادت ابھر رہی ہے اس میں دینی تعلیمات کے اثرات بڑے ہی معمولی ہیں یہ پاکستانی قوم کی تمنا اور خواہش ہے کہ ان حقیقی علمی روایات کو رواج دیا جائے جو کبھی ہمارے ملی عروج کا سبب بنیں۔ اس پس منظر میں جب بار بار جناب عمران خان قوم کو یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب تعلیم دینے کی بات کرتے تو ساری قوم کی طرح میرا دل بھی باغ باغ ہو جاتا کیونکہ غ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے اگلے روز جب میجر جنرل آصف غفور نے دینی اداروں کو قومی دھارے میں لانے کی بات کی تو میں نے یہ سمجھا کہ عمران خان کے تعلیمی خواب کی عملی تعبیر کی گھڑی آ گئی ہے۔ اب قصہ قدیم و جدید باقی نہیں رہے گا۔ ایک تعلیم ہوگی ‘ایک قوم ہو گی۔ ایک ہدف ہو گا اور ایک منزل ہو گی۔ تاہم جب خبروں کی تفصیل میں جا کر دیکھا تو وہاں ایسی کسی تفصیلی اسکیم کا تذکرہ نہ تھا۔ وہاں تذکرہ تو یہ تھا کہ حکومت نے دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یقینا یہ خوش آئند بات تھی مگر یہ وضاحت نہ تھی کہ کون سا قومی دھارا؟ برہمنوں والا یا شودروں والا۔ یہاں کم از کم 15قسم کے قومی دھارے بہہ رہے ہیں۔ عمران خان نے سارے دھاروں کو ختم کر کے ایک تعلیم دینے کا نعرہ دیا تھا وہ یکساں تعلیم کہاں ہے ؟ یہ پاکستان کی خوش بختی ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین کی کہکشاں میں مفتی منیب الرحمن ‘ مولانا قاری حنیف جالندھری‘ مولانا فضل الرحمن‘ ڈاکٹر راغب نعیمی اور مولانا عبدالمالک جیسے معتدل و متوازن ستارے موجود ہیں۔ جن کے ہاں دینی تعلیم کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ۔ مفتی منیب الرحمن صاحب کے ساتھ ہمارا نیاز مندی کا رشتہ ہے۔ میں نے انہیں فون کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میری مولانا قاری حنیف جالندھری اور ڈاکٹر راغب نعیمی کی بعض دیگر علمائے کرام کے ساتھ جناب عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے نہایت خوشگوار ماحول میں ملاقاتیں ہوئیں ان ملاقاتوں میں بعض اصولوں پر اتفاق ہوا تھا اور ہم نے حکومت کے سامنے اپنی تجاویز بھی پیش کی تھیں تاہم یہ طے پایا کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں ورکنگ گروپ ان ملاقاتوں کی روشنی میں دو طرفہ اتفاق رائے سے حتمی پروگرام مرتب کرے گا۔ مفتی صاحب سے بات کرنے کے بعد میں نے مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے ان ملاقاتوں کے حوالے سے کچھ مزید تفصیلات بھی بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے دینی مدارس کی وفاقی وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن پر اتفاق کیا تھا۔ ہم نے حکومت کوبڑے دو ٹوک انداز میں بتا دیا تھا کہ ہم خود بھی سرکاری سکولوں کے نصاب میں سے انگریزی ‘ ریاضی‘ سائنس اور کمپیوٹر وغیرہ کوبخوشی اپنے نصاب میں شامل کرنے پر تیار ہیں۔ تاہم دینی ادارے اپنی حریت فکر آزادی عمل اور دینی نصاب تعلیم میں کسی قسم کی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔ نیز ہم نے آغا خان بورڈ کے طرز پروفاق المدارس پر مشتمل اپنا بورڈ تشکیل دینے پر زور دیا تھا۔ تاہم ورکنگ کمیٹی کے اجلاسوں کے بغیر اچانک ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا جو یک طرفہ اعلان ہوا ہے یہ حیران کن ہے اور اس سٹینڈنگ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا جو ہمارے اور وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقاتوں میں سامنے آئی تھی۔ قاری حنیف جالندھری صاحب نے میڈیا پر تنظیمات مدارس کی طرف سے اپنا موقف وضاحت و صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ بال اب حکومت کی کورٹ میں ہے۔ جناب عمران خان کا وژن یہ تھا کہ نئے پاکستان میں رنگا رنگ قسم کی تعلیم نہ ہوگی۔ ایک قومی نصاب ہو گا ایک ہی قومی دھارا ہو گا اور یکساں نظام تعلیم ہو گا تاکہ قومی جذبے سے سرشار ایک قوم وجود میں آ سکے۔ اس وقت انگریزی میڈیم سکولوں میں کم از کم پندرہ قسم کے تعلیمی نظام رائج ہیں۔ کہیں کیمبرج‘ کہیں آکسفورڈ‘ کہیں امریکن‘ کہیں فرنچ‘ کہیں ہانگ کانگ اور نہ جانے کہاں کہاں کے نصابات پڑھائے جاتے ہیں ۔مجھے نہیںمعلوم کہ جناب شفقت محمود اور ان کی ٹاسک فورس نے یکساں نظام تعلیم اور دینی مدارس پر وہ قابل قدر کام دیکھا ہے جو پروفیسر خورشید احمد اور ان کے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز‘ پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حکومت اور ڈاکٹر صفدر محمود سابق وفاقی سیکرٹری تعلیم نے نہایت عرق ریزی سے انجام دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف دینی مدارس بلکہ رنگا رنگ انگریزی میڈیم سکولوں کو گہرے غور و فکر کے ساتھ قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں فروعی اور مسلکی اختلافات کا حل ہرگز کسی قوت ‘قانون اور حکومت کے دبائو سے ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں تمام علمائے کرام خود مل کر کوئی مرکزی وفاقی بورڈ قائم کر لیں تو نہایت مستحسن ہو گا۔ حکومت علمائے کرام کے ساتھ قائم شدہ مفاہمت کی فضا میں کارخیر انجام دے ۔