25جولائی2018ء کے انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی انتخابات میں پہلی ترجیح دینی ومذہبی جماعتیں نہیں ہوتیں۔اور یہ روایت 1970ء سے ہے۔جب وطن عزیز میں قیامِ پاکستان کے 23سال بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات ہوئے تھے اور جس میں معروف اصطلاح میں دائیں بازو کی کٹّر مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کو معذرت کے ساتھ عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔ 1970ء کے انتخابات اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت Theocratic Stateیعنی کٹّر مذہبی ریاست نہیں۔بلکہ ایک ترقی پسند ، روشن خیال ، (سیکولر کی اصطلاح میں یہاں استعمال نہیں کرنا چاہتا) پاکستان چاہتی ہے۔1970ء کے انتخابات اس اعتبار سے بھی بڑے اہم اور تاریخی تھے کہ جس نے مذہبی، دینی جماعتوں کایہ ’’بیانیہ‘‘ رد کردیا جس کا راگ وہ برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے پہلے قیام پاکستان کے خلاف کورَس میں گاتے رہے۔آج کی نئی نسل اور ہمارے آزاد پاپولر میڈیا کو یہ یاد نہیں کہ جہاں بلوچستان اور اْس وقت کے صوبہ سرحد کے قوم پرست پاکستان مخالف تھے۔وہیں اْس وقت کی دو بڑی مذہبی جماعتیں یعنی جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی بھی تقسیم ِ ہند کے خلاف تھیں۔ گڑے مردے اکھیڑنے میں ایک مشکل بلکہ بکھیڑا یہ ہے کہ ماضی کی تاریخ ایک نہیں بلکہ کئی کالم کھا جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے قارئین کا عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ ’’بھئی مٹی پائو‘‘ اس مٹی پائو کا نقصان یہ ہے کہ اور دوسروں کو تو جانے دیں خود جمہوریت کے رکھوالے ن لیگیوں کو بھی اس بات کا علم نہ ہوگا کہ اْن کے قائد میاں نواز شریف مرحوم جنرل ضیاء الحق کی ناگہانی موت کے بعد ہر سال اْن کی برسی پر اسلام آباد کی فیصل مسجد میں قائم شہید ضیاء الحق کے مزار پر اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ وہ ’’جنرل ضیاء الحق کا مشن‘‘پورا کریں گے۔ جنرل ضیاء الحق کا کیا مشن تھا؟ اگر اپنے محترم دوست اور اس وقت ن لیگیوں کے سینٹر فارورڈمشاہد حسین سید سے بھی پوچھا جائے تو قہقہہ لگاتے ہوئے کہیں گے کہ چھوڑئیے رات گئی بات گئی آج کی محترم آصف علی زرداری کی پارٹی بھی ’’روٹی، کپڑا ، مکان‘‘کا نعرہ کب کا گڑھی خدا بخش میں دفن کر بیٹھی ہے۔ پھر معذرت کے ساتھ سوشلسٹ بھٹو کے نواسے نے ایک ایسے ملک میں جہاں 2 کروڑ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثے ایک ارب 57 کروڑ کے بتائے ہیں۔ یہ لیجئے۔ پہلے بھی ان کالموں میں اپنے بھٹکنے کا اعتراف کرتا رہاہوں۔ بات شروع ہوئی تھی کہ جولائی 2018ء کے الیکشن کی جس میں وطن عزیز میں ہونے والے گیارہویں الیکشن میں بھی پاکستان کے عوام کی اکثریت نے دینی، مذہبی اور مسلکی جماعتوں کے نامزد کردہ امیدواروں کی اکثریت کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ الیکشن کمیشن کے مستند جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق… پاکستان کے 10 کروڑ 64 لاکھ ووٹروں میں سے جو 51 فیصد یعنی 5 کروڑ اکتیس لاکھ 9 ہزار ووٹ جو پول ہوئے اْن میں متحدہ مجلس عمل سمیت مذہبی جماعتوں کو صرف 52 لاکھ 3 ہزار یعنی 9.58فیصد ووٹ پڑے۔ اگر شرح فیصد کو ہی سامنے رکھا جائے تو قومی اسمبلی میں ڈالے جانے والے کم و بیش 10 فیصد ووٹوں میں 19فیصد وہ روایتی ووٹ تھے جو گزشتہ 48 سال سے مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کو مل رہے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صرف 7.98فیصد مذہبی جماعتوں کو ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹروں کی تعداد 10.57ہے مگر بلوچستان جیسے صوبے میں جسے قوم پرست سیکولر صوبہ کہا جاتا تھا۔یہاں مذہبی ووٹروں کا تناسب 16.78تک پہنچ گیا۔ چلتے چلتے ریکارڈ پر یہ بھی آجائے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے سب سے ممتاز محترم رہنمامولانا فضل الرحمٰن کو دونوں حلقوں سے تحریک انصاف کے گمنام بلّوں نے شکست دی۔ اسی طرح امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق اور نائب امیر لیاقت بلوچ بھی غیر معروف سیاسی کارکنوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔ معروف معنوں میں دائیں بازو یعنی مذہبی جماعتوں کو جو 1970ء کے بعد مسلسل گیارہ انتخابات میں جو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی کیا اْس سے یہ سمجھا جائے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت ترقی پسند ، روشن خیال اور سیکولر ہوگئی ہے۔اس کا جواب نفی میں اس لئے ہوگا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں تو دودہائی پہلے ہی نظریاتی فرق مٹ گیا ہے۔ جبکہ بد قسمتی سے پاکستان کے عوام کی آخری امید یعنی تحریک انصاف کو اس روایتی الیکٹورل سسٹم کے سبب الیکٹیبلز کی کڑوی گولیاں پھانکنی پڑیں۔مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک اور سنگین رجحان جو حالیہ برسوں میں بڑھا ہے وہ لسانی، اور مسلکی جماعتوں کی تیز رفتار مقبولیت ہے۔ ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ جسے ضمنی انتخابات میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ 2018ء کے انتخابات میں اتنی بڑی قوت بن کر ابھری کہ اس کے قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے 178اور چاروں صوبوں میں 500 کے لگ بھگ امیدوار کہیں دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ یہی نہیں بلکہ کراچی جو کبھی جماعت اسلامی کا گڑھ ہوتا تھا۔ یہاں سے تحریک لبیک کے دو رکن صوبائی اسمبلی کامیاب ہوئے۔ یہی نہیں‘بلکہ کراچی میں پیپلز پارٹی کے گڑھ میں اْس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے تحریک لبیک کے ایک گمنام کارکن نے 3 ہزار سے اوپر ووٹ لئے۔ ہفتوں، مہینوں میں تحریک لبیک پاکستان کایہ عروج ایک پورے کالم کا متقاضی ہے۔ میرے لئے اس بارے میں تفصیل سے لکھنا اس لئے بھی ذرا مشکل ہے کہ نام کے ساتھ ’’بریلوی‘‘ کا لاحقہ لگا ہے۔ مگر افغان جنگ کے بعد جو اثرات وطن عزیز کے قومی منظر نامے پر پڑے ہیں اْسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سو اسے آئندہ کیلئے اٹھا رکھتا ہوں۔