بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے 27سالہ صحافتی کیریئر کے دوران میں نے نہ صرف وقائع نگار کی حیثیت سے کشمیر یا بھارت اور پاکستان کے حوالے سے رونما ہونے والے متعدد اعلانیہ یا پس پردہ واقعات کا مشاہدہ کیا،بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی بسا ا وقات حالات و حوادثات کا کردار بن گیا۔ پچھلے ہفتے جب خبر آئی کہ جموں و کشمیر پولیس نے اپنے ہی ایک ڈپٹی اسپرنٹنڈنٹ دیوندر سنگھ کو دو عسکریت پسندوں کو جموں لے جاتے ہوئے گرفتار کیا، تو میرے لئے اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ پچھلے 30برسوں میںکشمیر میںمتعدد ایسے واقعات رونما ہوئے، جو عسکریت پسندوں کے کھاتے میں ڈالے گئے، مگر بعد میں معلوم ہواکہ یا تو ان میں بھارتی سکیورٹی اداروں کے اہلکار براہ راست ملوث تھے یا جانکاری ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ان واقعات کو طول دیکرپروپیگنڈا کیلئے بخوبی استعمال کیا۔ اپنی معرکتہ الآرا تفتیشی کتاب The Meadowsمیں برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ نے بتایا ہے کہ 1995ء میں جنوبی کشمیر میں مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی، کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے، بلکہ اس کو طول دیا جائے۔ بعد میں ان سیاحوں کو بھارتی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلایا دیاگیا۔ مقصد تھا کہ مغربی ممالک تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے منسلک کرکے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچیں اور جتنی دیر سیاح مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضہ میں رہیں گے، پاکستانی مندوبین کیلئے مغربی ممالک میں جواب دینا اتنا ہی مشکل ہو جائیگا۔اس واقعہ کے ایک سال قبل ہی مغربی ممالک انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے بھارت پر اقتصادی پابندیا ں عائد کرنے پر غور کر رہے تھے۔یہ واقعہ واقعی کشمیر کی جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔اسی طرح جب معروف قانون دان اور حقوق انسانی کے کارکن جلیل اندرابی کے قتل میں ملوث میجر اوتار سنگھ کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے عدلیہ نے سکیورٹی ایجنسیوں پر دبائو بنایا، تو مذکورہ میجر کو راتوں رات پاسپورٹ اور ٹکٹ دیکر کنیڈا پہنچایا گیا ۔ بعد میں وہ وہاں سے امریکہ منتقل ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ 2012 ء میں وہ خود ہی مکافات عمل کا شکار ہوگیا۔جب امریکہ میں اسکی موجودگی کا پتہ چلا تو اس نے دھمکی دی کہ اگر اسکوبھارت ڈیپورٹ کیا گیا تو وہ کئی راز طشت از بام کریگا، جس کی لپیٹ میں سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ ذمہ داران آئیں گے۔ دیوندر سنگھ کا نام نہ صرف 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ میں آیا تھا، بلکہ جولائی 2005ء میں دہلی سے متصل گڑ گائوں میں دہلی پولیس نے ایک ا نکاونٹر کے بعد چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان کے پاس ایک پستول اور ایک وائر لیس سیٹ برآمد ہوا۔ گرفتار شدہ افراد نے دہلی پولیس کو ایک خط دکھایا ، جو جموں و کشمیر سی آئی ڈی محکمہ میں ڈی ایس پی دیوندر سنگھ نے لکھا تھا، جس میں متعلقہ سیکورٹی ایجنسیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ ان افراد کو ہتھیار اور وائر لیس کے ساتھ گزرنے کیلئے محفوظ راہداری دی جائے۔ دہلی پولیس نے سرینگر جاکر دیوندر سنگھ سے اس خط کی تصدیق مانگی اور ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ بھی مارا، جہاں سے انہوں نے اے کے رائفل اور ایمونیشن برآمد کیا۔ یہ سب دہلی کی ایک عدالت میں دائر چارج شیٹ میں درج ہے۔ مگر دیوندر سنگھ کو گرفتار کرنے اور اس واقعہ کی مزید تفتیش کرنے کی کسی کو بھی ہمت نہیں ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ 2002ء میں جب دہلی کی پٹیالہ ہائوس کی سیشن عدالت میں پارلیمنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی سماعت چل رہی تھی، میں بھی ان دنوں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید تھا۔ افضل گورو اور پارلیمنٹ حملہ کے ملزمان تو ہائی سکیورٹی وارڈ میں بند تھے، مجھے جنرل وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ بیرک میں میرے ساتھ قتل کے الزام میں ایک قیدی اتبیر سنگھ کی سماعت بھی ایس این ڈھنگرہ کی عدالت میں چل رہی تھی، جہاں پارلیمنٹ کیس زیر سماعت تھا۔ اپنی سماعت کے انتظار میں اتبیر بغور پارلیمنٹ کیس کی کارروائی کا مشاہدہ بھی کر تا تھا۔ ایک بات بتائوں کہ عادی مجرموں کو قانون کی حس اور ججوں کے موڈ وغیرہ کی ایسی معلومات ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑا زیرک وکیل بھی ان کے سامنے پانی بھرے۔ وہ بس جج اور وکیل کا نام سن کر ہی بتاتے تھے کہ کیس کونسا رخ اختیار کرے گا۔ ایک روز عدالت سے واپسی کے بعد اتبیر نے میرے پاس آکر بتایا کہ پارلیمنٹ کیس میں افضل کا وکیل ٹھیک طرح سے بحث نہیں کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وکیل صاحبہ ، جو سرکار نے مہیا کروائی تھی، اسکو پھانسی کے تختے کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی طرح افضل کو اطلاع کروائے کہ اس کا کیس غلط رخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ خیر میں تو خود اپنے کیس میں الجھا ہوا تھا اور مجھے خود معلوم نہیں تھا کہ میرے کیس کا کیا انجام ہوگا ، پھر ہائی سکیورٹی وارڈ میں پیغام پہنچانا میرے بس میں نہیں تھا۔ آخر ایک دن جب مجھے عدالت میں پیشی کیلئے لے جایا جا رہا تھا، جیل آفس کے پاس جیل کی گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے افضل اور ایس اے آر گیلانی بھی موجود تھے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد میں نے ان کو کم و بیش وہی کہا، جو اتبیر نے مجھے بتایا تھا۔ افضل نے بس میری طرف دیکھ کر کہاکہ میں اپنے کام سے کام رکھوں اور اپنے کیس کی فکر کروں ۔ جس اعتماد کے ساتھ اس نے گفتگو کی ، مجھے لگا کہ اسکو شاید کسی نے اطمینان دلایا ہے کہ وہ بری ہو جائیگا۔ان کی جب سزا ہوئی، تو میں ان دنوں بھی ابھی جیل ہی میں تھا۔ باہر نکلنے کے بعد معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے چند وکلا ء اور سرینگر میں بھی چند خیر خواہوں نے بھی ان کو کیس لڑنے کی پیش کش کی تھی، جو انہوں نے ٹھکرائی تھی۔ آخر کیوں؟ اسکا جواب مجھے کبھی نہیں مل پا یا۔ ہائی کورٹ میں جب پارلیمنٹ کیس کی سماعت ہو رہی تھی، تو افضل کی اہلیہ تبسم نے ایک خط لکھ کر دہائی دی کہ دیوندر سنگھ نے ان کے شوہر کو حکم دیا تھا کہ چند افراد کو دہلی لے جاکر ان کیلئے رہائش کا بندوبست کرائے ۔ ان ہی افراد نے بعد میں پارلیمنٹ پر دھاوا بول کر بھارت اور پاکستان کو جنگ کے دھانے پر کھڑا کر کے رکھ دیا۔ آخر یہ پانچ افراد اور ان کا سرغنہ محمد کون تھا اور ان کو دیوندر سنگھ کے ساتھ کیا رشتہ تھا؟ یہ افراددہلی آنے سے قبل سکیورٹی فورسز کے کیمپ میں کیا کر رہے تھے؟ تبسم کا کہنا تھا کہ افضل کو سیشن عدالت نے اس کے اقبالیہ بیان کی وجہ سے سزائے موت دی، مگر اسی اقبالیہ بیان کے اس حصے کو حذف کیا ، جس میں دیوندر سنگھ کا ذکر تھا۔ تبسم نے لکھا کہ’’1997ء میں شادی سے قبل افضل نے کشمیر میں دوائوں اور سرجیکل آلات کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ عا م زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی فورسز نے ان کی زندگی اجیرن کردی۔ سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان پر جاسوس بننے کے لئے مسلسل دباو ڈالا جاتا رہا۔جب افضل اس کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تو ان پر اذیتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ (جاری ہے)