ہر دورِ حکومت میں متعلقہ ارباب بست و کشاد تعلیم پر بہت زور دیتے ہیں۔ ضرورت بھی بہت ہے کہ کوئی عاقل و دانا حکمران غفلت نہ برتے۔ غافل و دانا حکمران کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مشیر تعلیم اپنے میدان کے ماہر ہوں۔ اور پھر بہت سے ماہرین اپنی خدمات کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں بسا اوقات یہ جدوجہد میں بدلتی کوششیں سرخ فیتے کی نذر ہو کر بے سانس اور بے آس ہو جاتی ہیں۔ وزارت اور مشاورت کی کلاہ بلند تو انہیں نصیب ہوتی ہے جو کسی سیاسی گروہ کا حمایت یافتہ ہو یا پھر بے جمہوری دور میں کسی بھی پسندیدہ وجود متاع دنیا سے مستفید ہوتا ہے۔ جمہوری تماشہ ہو یا کوئی دگر رنگ حکومت ‘ تعلیم کا شعبہ کسی بھی ایسے وزیر یا مشیر کے سپرد ہوتا ہے جس کی بات اور ذات حکومت کو علم دوست ثابت کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ ملک کے تعلیمی مسائل کیا ہیں؟ اور ملک میں نصاب تعلیم کون سا ہو اور ہمارے نصابات کے اہداف کیا ہونے چاہئیں۔ ہماری مشرقیت اور اسلامی شناخت نصابی تعلیم میں کتنی ہو؟ ہمارے عمرانی علوم اور ہمارے مادی علوم میں تعلیمی تناسب کتنے درجے کا ہونا چاہئے ۔ ابھی تک ہمارے نظام تعلیم کے روشن اہداف مرتب نہیں ہو سکے۔اور یہ اہداف بہرحال قومی مقاصد تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کئے جانا چاہئیں۔ ہمارے ہاں نظام تعلیم شدید تفریق اور بے مقصدیت کا شکار ہے ۔ہمارا قومی مزاج ہمارے بنیادی نظریہ وطنیت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ تاہم ہماری تعلیمی ضروریات بین الاقوامی تعلیمی حالات کے ساتھ منسلک ہیں اور ان حقائق کو فراموش کرنا بھی ناممکن ہے جو بین الاقوامی جدید علوم کی ضروریات کا تقاضا رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے دینی اخلاقی اور اجتماعی قومی رویوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔قومی تعلیمی پالیسی میں ہمارے مستقبل کے معاشی حالات اور ان سے متعلقہ امور بھی اپنی ضروریات کا احساس برقرار رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے ہاں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر دی جانے والی تعلیم اور نصابات تعلیم میں ایک بہت بڑا فاصلہ ہے۔ دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کے اہداف‘ مقاصد اور ان کے حصول کے لئے نصابات بھی بالکل مختلف ہیں، ان اہداف و مقاصد اور نصابات سے جو سرکاری حلقوں کے نظام تعلیم اور نصابات کا حصہ ہیں‘ اس لئے ایک جامع اور متوازن پالیسی مرتب کرنے کی اہمیت کو نظر انداز کرنا بھی ایک بڑی خرابی کا باعث بن چکا ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں ہمارے نظام تعلیم کو مربوط اور مرتب انداز سے جدید تقاضوں کے مطابق کرنا اہم ترین مسئلہ ہے۔ فی الحال ہم سرکاری تعلیمی اداروں کے بارے میں ایک مختصر سا جائزہ اور تجاویز رقم کرتے ہیں۔ اولاً یہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم کے سلسلے میں جن بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، ان میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ طلباء کو اردو حساب اور اسلامیات کے علاوہ معاشرتی علوم سے آگاہی دی جائے۔ ہمارے بیشتر نصابات میں طلبہ کی بنیادی ذہنی استعداد اور اساتذہ کی پیشہ ورانہ مہارت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نصابی تدوین کے لئے بنیادی جائزے اور مشاورت کے لئے علاقائی اور قومی سطح کے جن اداروں میں متعلقہ امور انجام دیے جاتے ہیں، وہ معروضی ضروریات سے بالکل بھی ہم آہنگ نہیں ہوتے،ایک بچے کے لئے اپنی علاقائی ۔قومی اور بین الاقوامی زبان سیکھنا لازمی ہوتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے عوام الناس اس حقیقت میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں کہ ان کے بچوں کو علاقائی‘ قومی ثقافت کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا ادراک بھی نہایت ضروری امر ہے۔ اس حقیقی خواہش کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی نصاب میں تمام متعلقہ نصابی ضروریات کو مناسب نمائندگی دی جاتی ہے لیکن نصابات میں ایک حقیقی علمی شخصیت کی بنیادی تعلیم کے لئے استعداد وقت اور اساتذہ کی ماہرانہ صلاحیت کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کی تدوین کے لئے اگرچہ قومی سطح اور صوبائی سطح پر ادارے موجود ہیں لیکن وہ اکثر مغربی ممالک کی تعلیمی نفسیات اور ان کے نصابات کی نقل کو اپنے لئے راہ ہدایت قرار دیتے ہیں اور بسااوقات حکومتوں کے مغربی اثرات کی زد میں تعلیمی پالیسیوں کے مطابق وہ اپنے بنیادی نصابات کو مغربی نصابات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نصابات سے ایسے اسباق خارج کر دیتے ہیں جن میں اسلامی امتیازی تعلیمات سے متعلقہ نظریات شامل ہوتے ہیں۔ ان عظیم شخصیات کے حالات زندگی‘ نظریات و تعلیمات بھی خارج کردیئے جاتے ہیں جو امت اسلامیہ کے مفکرین‘ صالحین اور مصلحین کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔اسلامی شعائر کے بلند امتیازی تعارف کو بھی ختم کر دیا جاتا ہے جس سے طلبہ میں اپنے دین و مذہب اور اپنی قومی تاریخ سے ناواقفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک خطرناک خیال ہے کہ بین الاقوامی معاشرے سے رابطہ رکھنے کے لئے ان معاشروں کی اقدار کو اپنانا بھی ضروری ہے۔ اس کے پرائیویٹ سکولز میں بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ اپنی مرضی کے نصابات پڑھائے جاتے ہیں۔ان نصابات میں اسلامی تہوار ‘ ممتاز ایام اور اسلامی دنیا کے اہم مفکرین و مصلحین کی تاریخ بالکل بھی نہیں پڑھائی جاتی ۔ بہت سے پرائیویٹ سکولز ایسے ہیں جہاں ہندوانہ رسم رواج کو فروغ دینے کے لئے ان کی مذہبی رسومات کا پابند کیا جاتا ہے اور اسلامی شعائر کی واقفیت نہیں کروائی جاتی۔ بڑے مشہور غیر سرکاری اداروں میں جو بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں ان کا عوضانہ یہ ہے کہ ہولی اور دیوالی کی تقریبات کو ان سکولوں کی انتظامیہ کی زیر سرپرستی منعقد کروایا جاتا ہے اور بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بھی ایسی غیر اسلامی ثقافت کو ترویج دیں کبھی Good Fridayکے نام پر بھی نئی طرز کی تہواری تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان اداروں کے خود تیار کردہ نصابات میں غیر مسلم مشاہیر اور شخصیات کا تعارف بھی کروایا جاتا ہے۔ قومی سرکاری نصابات میں اگرچہ اسلامیات کا نصاب لازمی پڑھایا جاتا ہے لیکن اس کی تدریس کے لئے غیر پیشہ ور اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور اسلامیات و معاشرتی علوم کے نصابات کے بارے میں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ یہ مضامین عام بچوں کے رسالوں کی طرح پڑھ کر علمی خزانہ ہاتھ آ سکتا ہے۔ اکثر سرکاری سکولوں میں جو اساتذہ پڑھاتے ہیں، وہ اسلامیات اور معاشرتی علوم کو بطور مضمون پڑھانے سے گریز کرتے ہیں جبکہ جماعت پنجم تک کے لئے لازمی ہے کہ پورا قرآن شریف ناظرہ ضرور پڑھا دیا جائے لیکن اس پر عمل یا کامیاب نتیجے کے لئے ماہر اساتذہ کی بہت زیادہ کمی ہے۔ (جاری ہے)