ایک اخبار میں خبر چھپی ہے کہ گورنمنٹ اسلامیہ پرائمری سکول اوکاڑہ کا ایک طالب علم نور محمد لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ وہ اب تک لوگوں کی توجہ کا مرکز اس لیے نہیں بنا تھا کہ اس کی کن پٹی پر قدرتی طور پر لکھے ہوئے کلمہ شریف کے الفاظ پڑھے نہیں جا سکے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کسی نے بچے کو بغور دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی، ورنہ اس بچے کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے کئی سال ہو چکے ہوتے۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ الفاظ بچے کے کان کے قریب کیسے کندہ ہو گئے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بچے کے کان میں کسی نہایت ہی پہنچے ہوئے بزرگ نے اذان دی اور کلمہ کے الفاظ کچھ اس خشوع و خضوع سے ادا کئے کہ وہیں ثبت ہو گئے۔ میں نے اس بات کا تذکرہ میر فقہت اللہ صاحب سے کیا تو فرمانے لگے ’’اماں چھوڑویار! یہ سب ضعیف العتقادی کی باتیں ہیں۔ جہاں تک کلمہ شریف کا تعلق ہے وہ تو ہر مسجد کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مساجد تو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن نہیں سکیں جبکہ اس بچے کے گرد خلق خدا جمع ہوگئی ہے۔ حالانکہ وہ بچہ یقینا کسی جلدی بیماری میں مبتلا ہے۔‘‘یہ سن کر میں نے کہا قبلہ میر صاحب‘ آپ سمجھنے کی کوشش نہیں فرما رہے ہیں۔ بچے کی کن پٹی پر کلمہ شریف کا لکھا ہونا ایک معجزہ ہے معجزہ۔ آپ غور فرمائیں۔ بہت فرما چکا ہوں غور میں اس قسم کی خبروں پر۔ میر صاحب بولے‘ کسی کو آنکھ میں بھولا ہو تو لوگوں کو اللہ کا نام لکھا نظر آ جاتا ہے۔ کیا معجزہ اسے کہتے ہیں؟ کلمہ طیبہ کے الفاظ بذات خود کیا معجزہ نہیں ہیں کہ اس عظیم معجزے کی موجودگی میں ہم جلد پر پڑے ہوئے آڑے ترچھے نشانات میں کلمے کے الفاظ دیکھنے لگ جائیں؟ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لو اور اسلام کو توہم پرستی اور مضحکہ خیزی کی نذر نہ کرو۔لیکن میر صاحب‘ اخبار میں بچے کی تصویر بھی چھپی ہے۔ میں کہتا ہوں غور سے دیکھو‘ میر صاحب نے قدرے سختی سے کہا۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل میں پتھروں کو غور سے دیکھنا شروع کیا تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ایک پتھر پر صاف ’’لا‘‘ لکھا ہوا تھا۔ ایک اور پتھر کی لکیریں دوسرے پتھر کی لکیروں سے مل کر لفظ ’’مظفر‘‘ بنا رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہیں کہیں بخاری بھی ضرور لکھا ہوگا۔ ایک پتھر پر ایک فاختہ آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی۔ ایک جگہ بیڈ منٹن کا ریکٹ بنا ہوا تھا جو کثرت استعمال کی وجہ سے ایک طرف سے ٹوٹ گیا تھا۔ ایک جگہ کرکٹ کے بال کیطرح کا دائرہ تھا۔ اس کے اوپر عمران کا لفظ صاف پڑھا جارہا تھا۔ البتہ ’’خان‘‘ کا لفظ ڈھونڈنے میں مجھے خاصی دقت ہوئی۔ ایک اور پتھر پر نوابزادہ نصراللہ خان کا حقہ رکھا تھا جس کی چلم غائب تھی۔ ایک جگہ پیر پگاڑا کی مشہور زمانہ پتنگ کٹی پڑی تھی۔ ایک پتھر پر ضرب، تقسیم اور جمع کے واضح نشانات تھے۔ یعنی ×÷+ جبکہ ایک اور پتھر پر لفظ ’’شیر‘‘ لکھا ہوا تھا۔ قریب ہی ایک انسانی چہرہ بن رہا تھا جس کی شکل نوازشریف سے ملتی تھی۔ ایک جگہ سری لنکا کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ انہی پتھروں میں ایک پتھر پر خنجر بنا ہوا تھا۔ جسے دیکھ کر میں خوف سے پیچھے ہٹ گیا۔ غرض پتھر کیا تھے۔ کتاب معانی کے مختلف ابواب تھے۔ ایک پتھر پر چینی زبان میں کچھ لکھا تھا لیکن افسوس میں چینی زبان سے نابلد ہوں۔ ایک پتھر پر بانساں والی سڑک بنی تھی۔ ایک جگہ بھنا ہوا مرغ رکھا تھا جسے دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ کہو‘ کیا نظر آیا؟ میر صاحب نے پوچھا۔ بہت کچھ۔ بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔ میں نے جواب دیا۔ …… لاہور کے رہنے والے مسٹر پرویز ناصر بٹ کو ایک نجی کمپنی کا تیارہ کرد ہ مکھن کا ڈبہ کھولتے وقت کیا خبر تھی کہ ڈبے میںمکھن کے علاوہ ایک ایسی نادر و نایاب شے بند ہے جو بالعموم ڈبوں سے برآمد نہیں ہوتی۔ یہ تو کمپنی والوں کا کمال ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کرنے کے لیے اتنا اہتمام کرتے ہیں ورنہ دیکھا یہی گیا ہے کہ مکھن کے ڈبوں سے سوائے مکھن کے اور کچھ برآمد نہیں ہوتا اور ڈبہ کھولنے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ بٹ صاحب ڈبہ لے کرگھر پہنچے۔ اس روز جمعے کا دن تھا۔ چنانچہ نماز جمعہ کے بعد تمام افراد خانہ کی موجودگی میں اس ڈبہ کی رسم افتتاح ادا کرتے ہوئے اللہ کا نام لے کر یہ ڈبہ کھول دیا گیا۔ یہ مبارک کام بٹ صاحب نے اپنے ہاتھوں سے چھینی اور ہتھوڑی کی مدد سے سرانجام دیا۔ مبارک‘ سلامت کی آوازوں کے شور میں بٹ صاحب نے مکھن کی سطح پر نظر ڈالی تو انہیں رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ سطح پر ایک عجیب و غریب شے تیر رہی ہے۔ ان کا رنگ زرد پڑتے دیکھ کر بٹ صاحب کی والدہ اور بہن آگے بڑھیں۔ ڈبے کے اندر والے منظر کو دیکھ کر ان معزز خواتین کی چیخ نکل گئی۔ ’’چھپکلی‘ چھپکلی‘‘ ان کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ خواتین کو دہشت زدہ دیکھ کر بٹ صاحب نے ایک چمک کی مدد سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ چیز نکال کر ایک پلیٹ میں رکھ دی۔ اس پر نظر پڑتے ہی بچے خوف زدہ ہو کر کمرے سے باہر بھاگ گئے۔ بٹ صاحب بھی بچوں کے پیچھے جانا چاہتے تھے لیکن اپنی مردانگی کا بھرم رکھنے کی خاطر وہیں کھڑے رہے۔ یہ چیز چھپکلی نہیں ہوسکتی‘ بٹ صاحب نے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ تو پھر کیا ہے؟ بٹ صاحب کی ہمشرہ نے پوچھا۔ یہ تو فی الحال نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کیا ہے لیکن اس کی شکل چھپکلی سے ہرگز نہیں ملتی۔ بٹ صاحب نے کہا۔ تو پھر اس کی شکل کس سے ملتی ہے۔ ان کی والدہ نے پوچھا۔ یہ باتیں جاری تھیں کہ بٹ صاحب کا چھوٹا بھائی جو پنجاب یونیورسٹی میں حیوانیات میں ایم ایس سی کررہا تھا‘ نماز جمعہ پڑھ کر واپس آ گیا۔ اسے صورت حال کا پتہ چلا تو وہ الماری سے خوردبین نکال لایا۔ اس شے کو چاروں طرف سے بغور دیکھنے کے بعد وہ بولا۔ یہ سچ ہے کہ اس جانور کی بے شمار ٹانگیں اور کئی منہ ہیں لیکن اس قسم کا جانور آج تک ایم ایس سی زوالوجی کے کورس میں داخل نہیں ہوا۔ ممکن ہے اس کا تعلق پی ایچ ڈی کے نصاب سے ہو۔ بہانے مت بنائو ۔ بٹ صاحب نے بھائی کو ڈانٹا۔ اگر تم نے اپنی کتابیں غور سے پڑھی ہوتیں تو آج ہم اس الجھن میں نہ پڑتے۔ یہ سن کر وہ برخوردار آلات جراحی کا بکس اٹھا لایا۔ اس نے نہایت احتیاط سے اس جانور کو آپریشن ٹیبل پر لٹایا اور ربڑ کے دستانے پہن کر اس عجیب الخلقت جانور کی چیر پھاڑ میں لگ گیا۔ تمام گھر والے سانس روکے اسے دیکھ رہے تھے۔ جلد ہی اس ہونہار طالب علم نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دکھایا۔ یہ جانور اپنی ذات میں مکمل اکائی نہیں تھا بلکہ ایک رنگ اورنسل کے دس کیڑوں سے مل کربنا تھا۔ بٹ صاحب کے بھائی نے دس پندرہ منٹ کی محنت کے بعد دس کے دس کیڑے الگ کر کے رکھ دیئے۔ اس کارنامے پر بٹ صاحب نے اپنے بھائی کو شاباش دی۔ اب پرویز بٹ صاحب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کمپنی کے ماہرین خوراک کے ہاتھ یہ کیڑے کیسے لگے۔ انہوں نے کیسے انہیں یکجا کیا اور کیسے وہ انہیںمکھن کے ڈبے میں داخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نیز وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کیڑوں میں کون کون سے وٹا من پائے جاتے ہیں۔