’’ خلائی مخلوق ‘‘ کا ان دنوں بہت چرچا ہے ۔ پہلے تو یہ ذکر صرف سائنس دانوں اور کائنات کے اسرار و رموز سے دلچسپی رکھنے والوں کے درمیان تھا۔ اب نواز شریف صاحب نے بھی بالآخر اپنا ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لیکن ان کی خلائی مخلوق صرف مخالفت اور دکھڑے رونے کے لیے شامل ہوتی ہے ورنہ تیس پینتیس سال کے خلائی اقتدار میں انہیں یہ مخلوق نظر نہیں آتی تھی ۔ خیر اسے چھوڑیں ہم اصل خلائی مخلوق کی بات کیوں نہ کریں ۔سچ یہ ہے کہ انسان نے جب سے اس زمین سے باہر سر نکالا اور اسے اس بیکراں کائنات کا کچھ کچھ اندازہ ہوا ، یہ سوال اس کے ذہن کے مدار میں سیارے کی طرح گردش کرتا رہا ہے کہ آیا اس کائنات میں کسی اور جگہ بھی زندگی موجود ہے ؟کسی بھی قسم کی زندگی ؟کسی بھی شکل کی مخلوق؟ (ذہین مخلوق کی بات تو اس سے آگے ہے)۔یا انسان اس بے کراں دشت میں تنہا ہے؟ ۔وہ جو غالب نے کہا تھا ؎ کوئی تنہائی سی تنہائی ہے یا وہ جو اقبال کا احساس ہے یہ گنبد ِ مینائی ، یہ عالمِ تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی تواس سوال کا جواب ہمیشہ تلاش کیا جاتا رہا ہے ۔ میری طرح بہت سے لوگوں کو اس تلاش اور اس سے متعلقہ خبروں سے دلچسپی ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ حال ہی میں ایک چونکا دینے والے انکشاف کے مطابق چاند کی سطح سے پانی کے بخارات فضا میں بلند ہورہے ہیں تو آپ اس بات کو یقینا غلط سمجھیں گے لیکن یہ بات غلط نہیں ہے ۔ چاند کی سطح کے نیچے ایک بہت عظیم سمندر موجود ہے اور سطح پر ایک جگہ ایک شگاف سے اس سمندر کا پانی بخارات کی شکل میں سینکڑوں میل تک فضا میں بلند ہورہا ہے ۔ سائنس دان توقع کر رہے ہیں کہ ان بخارات تک پہنچ سکیں تو اس زیر ِ ِسطح سمندر میں ممکنہ طور پر پائے جانے والی زندگی کے شواہد مل سکیں گے۔ آپ بھی میری طرح چونک گئے نا ؟بات چونکنے کی ہی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ چاند زمین کا چاند نہیں ،نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کا چاند ’’ یوروپا ‘‘ ہے ۔ یہ بات 1997 ء کے اواخر کی ہے جب ناسا کا خلائی جہاز ’’ گلیلیو ‘‘ مشتری سیارے کے چاند یوروپا کے قریب دو سو کلو میٹرکے فاصلے سے گزرا تھا اور اس کی تصاویر کھینچی تھیں۔اس وقت بخارات کے اس بادل کی تصویریں بھی زمین پر بھیجی گئی تھیںجس سے یہ خلائی جہاز گزرا تھا، لیکن ایک سرسری نظردیکھ کر اس کو نظر انداز کردیا گیا۔اب 15مئی 2018ء کو اس پرانے ذخیرے کا جائزہ لیتے ہوئے کسی سائنس دان کی نظر اس پر مرکوز ہوگئی ۔ہوا یہ کہ حال ہی میں ’’ ہبل ‘‘ دوربین نے 2012 ء میں، پھر دوبارہ 2014ء میں،اور پھر 2016ء میں ایسے سگنلز بھیجے جن سے بخارات کا فوارہ ظاہر ہوتا تھا۔ہبل ہی نے یوروپا کے مقناطیسی میدان میں ایک معمولی سا خم محسوس کیا چنانچہ پرانے ذخیرے نکالے گئے اور تمام تجزیوں کے بعد یہ اندازہ قائم کیا گیا کہ یوروپا کی سطح پر ایک شگاف سے زیر زمین پانی کا ایک فوارہ بخارات کی شکل میں سینکڑوں میل فضا میں بلند ہو رہا ہے ۔یہ تحقیق گزشتہ پیر کو ’’نیچرل اسٹرانومی‘‘ (Natural Astronomy) نامی فلکیات کے رسالے میں شائع ہوئی ہے۔ نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کو اردو محاورے کے مطابق چار چاند لگے ہوئے ہیں۔ یعنی مشتری کے گرد چار چاند گھومتے ہیں ۔ ان چار چاندوں میں سے یوروپا سب سے چھوٹا چاند ہے۔ نظام شمسی کے جتنے چاند ہیں ان میں یہ چھٹا بڑا چاند ہے ۔ 3100 کلومیٹر نصف قطر والے اس چاند کی عمر کم و بیش اتنی ہی ہے جتنی مشتری کی عمر یعنی ساڑھے چار ارب سال ۔ مشتری سے اس کا فاصلہ سات لاکھ کلو میٹر ہے ۔ یہ مشتری کا ایک چکر زمینی وقت کے مطابق ساڑھے تین دن میں لگا لیتا ہے اور اپنا ایک ہی رخ مشتری کی طرف رکھتا ہے ۔زمین سے اس کا فاصلہ 628.3ملین کلو میٹر ہے ۔ ’’ گلیلیو گلیلی ‘‘ نے 1610ء میں یہ چاند دریافت کیا اور کریٹ کے شاہ ’’ مینوس ‘‘ کی مشہور زمانہ ماں یوروپاکے نام پر اس چاند کا نام رکھا۔زمین کے چاند سے یہ چاند قدرے چھوٹا ہے۔بظاہر لوہے اور دھات سے بنی ہوئی سطح پر 15سے 25کلومیٹر موٹی برفانی تہہ ہے ۔اس کی فضا میں آکسیجن نمایاں اور غالب عنصر ہے ۔نظام شمسی میں موجود اجرام میں یوروپا کی سطح سب سے ہموار ہے اور اس میںگڑھے کم پائے جاتے ہیں۔ کاربن بھی یوروپا میں اہم عنصر ہے ۔ یوروپا کی فضا اور زمین میں وہ اجزا موجود ہیں جن کی موجودگی میں زندگی ممکن ہوسکتی ہے ۔چنانچہ ان ممکنہ سیاروں میں جن پر زندگی ایک امکان رکھتی ہے ،یوروپا بہت پہلے سے اہم مقام رکھتا تھا۔بہت سے شواہد مل کر سائنس دانوں کواس نظریے کی طرف لے گئے کہ اس موٹی برفانی تہہ کے نیچے ایک عظیم سمندر موجود ہے اور چونکہ یہ سمندر یوروپا کا وہ حصہ ہوگا جہاں درجہ حرارت بہتر ہے اس لیے وہاں زندگی بھی موجود ہوسکتی ہے۔ انداز ہ ہے کہ زمین پرعظیم ٹیکٹونک پلیٹوں کی طرح یوروپا پر بھی برفانی تہہ میں جنبش ہوتی رہتی ہے اور ایسے ہی ایک شگاف سے سمندر کا پانی گیزر یا فوارے کی شکل میں بخارات بن کر سو کلو میٹر تک فضا میں بلند ہورہا ہے ۔ یوروپا کے اس سمندر کی گہرائی چالیس سے سو میل کے درمیان ہوسکتی ہے ۔ یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ اس سمندر میں زندگی موجود ہے ۔ لیکن یہ بہت امکان ہے کہ جیسے ایک نظریے کے مطابق زمین پر موجود گہرے سمندروں میں زندگی کا آغاز ہوا تھا ، ویسے ہی یوروپا کے سمندر میں جس میں پانی کی مقدار زمین پر موجود تمام سمندروں کے پانی سے زیادہ ہے،زندگی پل رہی ہو ۔ یابرف کی نچلی تہہ سے چمٹی ہوئی شکل ہو جیسے زمین کے قطبین میں بکٹیریا اور کائی( algae) کی طرح کی شکل میں ہو۔یوروپاکے سمندر کے علاوہ اس کی سطح پر جھیلوں کے بھی شواہد ملتے ہیںاور یہ بھی زندگی کی کسی شکل کی نرسریاں ہوسکتی ہیں۔ 2010 ء میں یونیورسٹی آف اری زونا کے ڈاکٹر رچرڈ گرین برگ نے یوروپا کا ایک ماڈل بنایا تھا۔ جس کے مطابق ’’ ہائیڈروجن پر اوکسائیڈ ‘‘ ،جو بالآخر آکسیجن میںتبدیل ہوجاتی ہے، (Hydrogen peroxide)اور ٹیکٹونک پلیٹس کے تعامل سے صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہوگی جیسے بارہ ملین سال پہلے زمین کی تھی اور جس میں خوردبینی اور مالیکیولر زندگی کا آغاز ممکن ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ستمبر میں مشن مکمل کرنے والے ناسا کے خلائی جہاز ’’ کیسینی ‘‘ ( Cassini)نے 2010ء میں زحل کے چاند ’’ انکلاڈس ‘‘ (Enceladus) کی بھی تصاویر بھیجی تھیں جن میں اس کی سطح پر کرسٹل کی شکل میں گیزرز کا مشاہدہ کیا گیا تھا اور یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ انکلاڈس کی سطح کے نیچے سمندر موجود ہے ۔ چنانچہ جون 2022 ء میں ’’یوروپا کلپر ‘‘ (Europa clipper)کے نام سے ایک خلائی جہاز بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے ۔جو بہت قریب سے ان بخارات کا مشاہدہ اور تجزیہ کرے گا۔اور کیا نتائج نکلیں گے ۔ کہا نہیں جاسکتا۔اقبال ہی کا شعر یاد ا ٓتا ہے: دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد ِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا