جمہوری نظام میں عوام کی حمایت اور اعتماد حکمران کو با اختیار بناتا ہے۔ عمران خان نے احتساب‘ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی احتساب‘ ترقی و خوشحالی کے خواب دکھا کر عوام سے ووٹ مانگے۔ صبر جواب دینے لگا تو الیکٹیبلز کو اقتدار کی سیڑھی بنایا پھر بھی بات نہ بنی تو اتحادیوں کی بیساکھیوں کا سہارا لیا۔ اقتدارتو مل گیا مگر عوام کے اعتمادکی طاقت کمزور پڑنے سے اختیار کی ڈور ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ بھان متی کے حکومتی کنبے میں 38وزیر مشیر غیر منتخب ہیں‘ جو منتخب ہو کر آئے ہیں ان کو تحریک انصاف کے منشور اور وزیر اعظم کے وژن سے زیادہ اپنے مفادات کی فکر ہے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور کو خلیل تنویر نے اس طرح بیان کیا ہے: اب کے سفر میں درد کے پہلو عجیب ہیں جو لوگ ہم خیال نہ تھے ہم سفر ہوئے تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ہمسفر اتحادی ہی نہیں جو عمران خان اور تحریک انصاف کے ہم خیال نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اراکین کی بہت بڑی تعداد بھی منشور کے بجائے مفاد پر یقین رکھتی ہے اور ہر برسر اقتدار جماعت میں موجود ہوتی ہے۔ یہ اسی تضاد کا نتیجہ ہے کہ جب ملک بھر میں گندم کی فصل کاشت ہو چکی تو ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہو گیا ۔ وزیر خوراک ذمہ داری لینے پر تیار نہ تھے ۔اکتوبر2018ء سے نومبر 2019ء تک۔ عمران خان نے عالمی مارکیٹ کے حساب سے ملک میں پٹرول کی قیمتیں کم کیں‘ ملک میں پٹرول موجود ہونے کے باوجود بحران پیدا ہو گیا۔ مجبوراً عمران خان کو غیر روایتی انداز میں پٹرول کی قیمت بڑھانا پڑی۔ اس بدانتظامی کی بات عدالت تک جا پہنچی ہے مگر ذمہ داری لینے پر کوئی آمادہ نہیں۔پٹرولیم کی وزارت کی اضافی ذمہ داری وزیر توانائی عمر ایوب کے پاس ہے۔ ان کو تحریک انصاف کا منشور کتنا عزیز ہو سکتا ہے اور وزیر اعظم سے کتنی دلچسپی ہو سکتی ہے اس کی گواہی ان کا ماضی دے گا۔ موصوف 2002ء میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے اور شوکت عزیز کی کابینہ میں پاکستان کو ترقی کی منازل طے کرواتے رہے۔2008ء کے انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر شکست ہوئی تو 2013ء میں مسلم لیگ ن کا ایجنڈا ان کے دل کو بھا گیا اور نواز شریف کے زیر سایہ الیکشن لڑا اور جیت نہ سکے۔ تیسری بار تحریک انصاف کا پلیٹ فارم آزمایا۔ عمران خان نے وزارت پٹرولیم کا قلمدان تو ان کو سونپا مگر یہ بھول گئے کہ غالب نے کہا تھا: دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں جو ہمارا نہ ہوا کب وہ تمہارا ہو گا جو ہمارا نہ ہوا والا معاملہ کسی ایک تک ہی محدود نہیں یہاں تو اغیار سے اڑ کر آنے والوں کا ٹڈی دل ہے۔ ان میں سے ایک ٹڈی دل کے انسداد کے فرائض انجام دینے والے سید فخر امام ہیں۔ان کو بھی خدمت کا وسیع تجربہ ہے۔ آپ 1985ء میں قومی اسمبلی کے سپیکر تھے۔ ان کی بیگم سیدہ عابدہ حسین نواز شریف کی وزیر رہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے لئے سفیر کی خدمات انجام دیتی رہیں۔ سید فخر امام نے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف کو اقتدار کیلئے پسند کیا اور ٹڈی ڈل کے محاذ پر مصروف عمل ہیں۔ پی آئی اے ہر حکومت کے لئے درد سر رہا مگر تحریک انصاف کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گاکہ عمران خان کے وزیر ہوا بازی اس بار بازی لے گئے اور پی آئی کے لئے درد سر بن چکے ہیں ان کی مہربانیوں سے اربوں روپے خسارے میں جانے والی پی آئی اے اب عالمی پابندیوں کے بعد ڈوبنے کو ہے۔ موصوف ماضی میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دو بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔1990ء میں پی ڈی اے کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں تو نہ پہنچے البتہ صوبائی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو گئے ۔1993ء میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ہار گئے مگر پنجاب اسمبلی میں پہنچ گئے اور زکوٰۃ کی وزارت حصہ میں آئی۔ 1994ء سے 1996ء تک وزیر صحت پنجاب رہے۔ 2002ء میں قومی اسمبلی کا ممبر بننے کی خواہش پوری ہوئی۔ آپ بھی 2004ء میں شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر ہوئے۔ 2008ء میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر شکست کھائی اور 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر قسمت آزمائی سے کامیاب ہوئے۔ 2018ء میں پھر کامیابی ملی اور آج کل پی آئی اے کو ’’اڑا‘‘ رہے ہیں۔ عمران خان نے عوام کی آنکھوں میں معاشی طور پر خود مختار اور مضبوط پاکستان کے خواب سجائے تھے۔ قرض لینے کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دیتے تھے مگر اقتدار میں آنے کے بعد ملکی قرضوں میں 13ہزار ارب کا اضافہ کر چکے ہیں۔ گو یہ کارگراں مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے انجام دیے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں بھی پاکستان کی معیشت کو چار چاند لگا چکے ہیں۔اب عمران خان کو معیشت کا سبق پڑھا رہے ہیں وزارت اکنامکس افیئرزکا قلمدان مخدوم خسرو بختار کے پاس ہے۔ جناب بھی قوم کی خدمت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور 2002ء سے 2008اور 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں پاکستان کیلئے اپنی ضرورت تسلیم کروا چکے ہیں۔ یہ بھی 2004ء سے 2007ء تک شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اب عمران خان کے ہم رکاب ہیں اور پاکستان میں انقلاب برپا کرنے پر بضد ہیں۔ یہی نہیں اتحادیوں میں شیخ رشید کا ملکی خدمت کا ایک ریکارڈ ہے۔ نواز شریف پھر جنرل مشرف کے دور سے ریلوے کو جدید بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ عمران خان جن 38غیر منتخب مشیروں اور منتخب وزیروں کے بل بوتے پر تبدیلی کے گھوڑے پر سوار ہیں اور آئے روز معاملات کی درستگی کے لئے جس معاملے کا نوٹس لیتے ہیں وہ بحران بن جاتا ہے کیفیت کچھ یوں ہو چکی ہے کہ: اگر غفلت سے باز آیا جفا کی تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی اب اپنی کابینہ کو چھ ماہ کا وقت باقی بچا ہے کہہ کر ڈرا رہے ہیں۔ حالانکہ بے خبر کو ڈرنا خود چاہیے کہ وزیر مشیر تو اگلی کابینہ میں بھی وزارتوں کی تبدیلی کے ساتھ شامل ہوں گے صرف تحریک انصاف اور عمران خان الزامات اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ پچھلے دنوں ایک دوست نواز شریف کی تیماری داری کے لئے گئے۔ بات سیاست پر آئی تو دوست نے دریافت کیا کہ آپ نے پیپلز پارٹی سے ایک دوسرے پر سیاسی انتقام کا شکنجہ نہ کسنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن عمران خان آج کل دونوں پارٹیوں کی چیخیں نکلوا رہا ہے اقتدار میں آنے کے بعد آپ عمران خان سے کیا سلوک کریں گے۔ دروغ برگردن راوی‘ نواز شریف نے کہا عمران خان تے کرسی تے بیٹھ کے وی رو ریا اے تسی اوہدی تسبیح پھڑ کے روندے دی تصویر نہیں ویکھی مرے نوں کی مارنا۔ دوسری طرف عمران خان کو اب بھی اپنے سوا کوئی آپشن دکھائی نہیں دیتا اور آزمانے ہوئوں سے ملک کی تقدیر بدلنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں عوام کا معاملہ بقول غالب یہ ہے: دیکھنے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض ایک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے