جمعیت اہل حدیث کے مرکزی ناظم اعلیٰ اور سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے ہے اور انہوں نے مصیبت کی ہر گھڑی میں اپنی مٹی کا باخوبی حق ادا کیا ہے، وہ ایک نرم مزاج نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے حامل انسان ہیں۔ قدرت جب مہربان ہونے پر آتی ہے تو راستے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے انہیں2011ئ مین سردار فاروق لغاری کی خالی ہونے والی نشست پر مسلم لیگ(ن) کی طرف سے خود بلاکر ٹکٹ جاری کیا تھا۔ این اے 191 کہ جو زیادہ تر لغاری تمن کے علاقہ میں شامل تھا، حافظ عبدالکریم کے لیے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھاکہ انہیں ایسی نشست پر ٹکٹ جاری کیا گیا تھاکہ جو لغاری سرداروں کی آبائی نشست تھی اور جس پر ان کو شکست دینا بڑا مشکل تھا لیکن حافظ عبدالکریم نے اپنی دینی زندگی کے پہلے الیکشن میں ڈٹ کر لغاری سرداروں کا مقابلہ کیا اور اپنے نام کا لوہا منوایا ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کی سیاسی زندگی کا آغاز یہی سے ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی منزل کے حصول کے لیے آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ 2013ئ کے جنرل الیکشن میں وہ ایم این اے بن گئے۔ 2016ئ میں میاں نواز شریف نے انہیں وفاقی وزیر مواصلات بنا دیا۔ جنہوں نے اپنی خصوصی کاوش سے ڈیرہ غازیخان سے ملتان جانے والے راستے کو آسان بنانے کے لیے ڈیرہ تا ملتان ڈبل روڈ منظور کرایا اور پل غازی گھاٹ پر بھی نیا پل منظور کرایا ۔حافظ صاحب جوں جوں مسلم لیگ (ن) میں مقبول ہوتے گئے اتنا ہی انہوں نے اپنے حاسدین کی تعداد میں بھی اضافہ کرلیا چونکہ حالیہ سیلاب کے دوران حافظ عبدالکریم نے اپنے دوسرے اکابرین کے ساتھ مل کر ڈیرہ غازیخان او رراجن پور کے سیلاب متاثرین کے لیے دن رات ایک کردیا جبکہ اسی ماہ میں انہوں نے فاضل پور کے سیلاب متاثرین کے لیے115نئے مکانات کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرادیا ہے۔ بس اسی ’’جرم‘‘ کی سزا ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کو یہ دی گئی کہ گذشتہ شب ان کے صاحبزادے اُسامہ عبدالکریم کو انٹی کرپشن والوں نے اُٹھالیا اور ایک پرانی درخواست جو2019ئ میں حافظ عبدالکریم کے خلاف دی گئی تھی، اس کو جواز بنا کر اُسامہ عبدالکریم کو گرفتار کرلیا جس میں اُسامہ خان کا نام تک بھی نہیں ہے جبکہ2019ئ کی درخواست میں حافظ عبدالکریم پر کسی شخص کی طرف سے ایک بے بنیاد الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے نجی ہوٹل کی زمین کی خریداری میں فیسوں کی مد میں حکومت کا نقصان کیا ہے اسی بے بنیاد درخواست پر حافظ عبدالکریم پر پنجاب حکومت کے ایما پر انٹی کرپشن ڈیرہ غازیخان نے 409 اور 420کا ایک بے بنیاد مقدمہ درج کرلیا یعنی 2019ئ کی درخواست پر مقدمہ درج کرنا انٹی کرپشن کو اب یاد آیا یہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کو کسی طرح سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسری بات جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ جس درخواست میں اُسامہ عبدالکریم کا نام تک نہیں ہے ،اُسی درخواست کو جواز بنا کر انٹی کرپشن والوں نے اُسامہ عبدالکریم کو گرفتار کرلیا ہے یہی وہ قانونی سقم تھا کہ جس کی وجہ سے انٹی کرپشن کے جج نے انٹی کرپشن کی طرف سے ریمانڈ کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے اُسامہ عبدالکریم کو فوری طور پر جیل بھیج دیا، ایک دو روز میں اُسامہ عبدالکریم یقینا اپنے قانونی حق ضمانت پر رہا ہو جائیں گے انٹی کرپشن پنجاب کا ایک بڑا ادارہ ہے، جس کا اصل مقصد کرپشن کو ختم کرنا ہے۔ اور کرپٹ لوگوں کا گھیرا تنگ کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت پنجاب اور اس سے قبل جب کچھ عرصہ کے لیے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب تھے، تو انہوں نے انٹی کرپشن کو اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہا تھا ،ان کے دور میں بھی انٹی کرپشن ڈیرہ غازیخان نے جہاں پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر مقدمات بنائے تھے۔ بعینہ آج جس طرح سے سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب سردار دوست محمد خان مزاری کو گذشتہ دو ہفتے قبل انٹی کرپشن نے گرفتار کرلیا تھا اب سردار دوست محمد خان مزاری کا جو ’’جرم خاص‘‘ تھا وہ بھی سب کو معلوم ہے۔تو ان حالات میں انٹی کرپشن کو کسی بھی سیاسی حکومت کا ہر گز آلہ کار نہیں بننا چاہیے بلکہ قانون اور آئین کی روشنی میں کام کرنا چاہیں جبکہ سیاسی لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ چند دنوں کے اقتدار کے نشہ میں بدمست ہوکر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اداروں کو استعمال کرنا بند کریں۔2019ئ کی ایک بے بنیاد درخواست کہ جس میں درخواست دہندہ کے اپنے خاص مقاصد پوشیدہ تھے اس کو اب چار سال بعد جواز بنا کر حافظ عبدالکریم پر مقدمہ درج کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ یقینا ایک بھونڈی حرکت کی گئی ہے۔ جو کسی صورت بھی درست نہیں۔ انٹی کرپشن کو بھی سوچنا چاہیے کہ اتنی کمزور دفعات کا استعمال کرکے کیا وہ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم جیسے بااصول اور باکردار شخص کو سیاسی وفاداری تبدیل کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ حافظ صاحب اس سے پہلے بھی اس سے بڑی سیاسی انتقامی کاروائیوں کا سامنا کرچکے ہیں۔
ذکر ایک مقدمے کا
اتوار 20 نومبر 2022ء
جمعیت اہل حدیث کے مرکزی ناظم اعلیٰ اور سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے ہے اور انہوں نے مصیبت کی ہر گھڑی میں اپنی مٹی کا باخوبی حق ادا کیا ہے، وہ ایک نرم مزاج نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے حامل انسان ہیں۔ قدرت جب مہربان ہونے پر آتی ہے تو راستے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے انہیں2011ئ مین سردار فاروق لغاری کی خالی ہونے والی نشست پر مسلم لیگ(ن) کی طرف سے خود بلاکر ٹکٹ جاری کیا تھا۔ این اے 191 کہ جو زیادہ تر لغاری تمن کے علاقہ میں شامل تھا، حافظ عبدالکریم کے لیے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھاکہ انہیں ایسی نشست پر ٹکٹ جاری کیا گیا تھاکہ جو لغاری سرداروں کی آبائی نشست تھی اور جس پر ان کو شکست دینا بڑا مشکل تھا لیکن حافظ عبدالکریم نے اپنی دینی زندگی کے پہلے الیکشن میں ڈٹ کر لغاری سرداروں کا مقابلہ کیا اور اپنے نام کا لوہا منوایا ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کی سیاسی زندگی کا آغاز یہی سے ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی منزل کے حصول کے لیے آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ 2013ئ کے جنرل الیکشن میں وہ ایم این اے بن گئے۔ 2016ئ میں میاں نواز شریف نے انہیں وفاقی وزیر مواصلات بنا دیا۔ جنہوں نے اپنی خصوصی کاوش سے ڈیرہ غازیخان سے ملتان جانے والے راستے کو آسان بنانے کے لیے ڈیرہ تا ملتان ڈبل روڈ منظور کرایا اور پل غازی گھاٹ پر بھی نیا پل منظور کرایا ۔حافظ صاحب جوں جوں مسلم لیگ (ن) میں مقبول ہوتے گئے اتنا ہی انہوں نے اپنے حاسدین کی تعداد میں بھی اضافہ کرلیا چونکہ حالیہ سیلاب کے دوران حافظ عبدالکریم نے اپنے دوسرے اکابرین کے ساتھ مل کر ڈیرہ غازیخان او رراجن پور کے سیلاب متاثرین کے لیے دن رات ایک کردیا جبکہ اسی ماہ میں انہوں نے فاضل پور کے سیلاب متاثرین کے لیے115نئے مکانات کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرادیا ہے۔ بس اسی ’’جرم‘‘ کی سزا ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کو یہ دی گئی کہ گذشتہ شب ان کے صاحبزادے اُسامہ عبدالکریم کو انٹی کرپشن والوں نے اُٹھالیا اور ایک پرانی درخواست جو2019ئ میں حافظ عبدالکریم کے خلاف دی گئی تھی، اس کو جواز بنا کر اُسامہ عبدالکریم کو گرفتار کرلیا جس میں اُسامہ خان کا نام تک بھی نہیں ہے جبکہ2019ئ کی درخواست میں حافظ عبدالکریم پر کسی شخص کی طرف سے ایک بے بنیاد الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے نجی ہوٹل کی زمین کی خریداری میں فیسوں کی مد میں حکومت کا نقصان کیا ہے اسی بے بنیاد درخواست پر حافظ عبدالکریم پر پنجاب حکومت کے ایما پر انٹی کرپشن ڈیرہ غازیخان نے 409 اور 420کا ایک بے بنیاد مقدمہ درج کرلیا یعنی 2019ئ کی درخواست پر مقدمہ درج کرنا انٹی کرپشن کو اب یاد آیا یہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کو کسی طرح سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسری بات جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ جس درخواست میں اُسامہ عبدالکریم کا نام تک نہیں ہے ،اُسی درخواست کو جواز بنا کر انٹی کرپشن والوں نے اُسامہ عبدالکریم کو گرفتار کرلیا ہے یہی وہ قانونی سقم تھا کہ جس کی وجہ سے انٹی کرپشن کے جج نے انٹی کرپشن کی طرف سے ریمانڈ کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے اُسامہ عبدالکریم کو فوری طور پر جیل بھیج دیا، ایک دو روز میں اُسامہ عبدالکریم یقینا اپنے قانونی حق ضمانت پر رہا ہو جائیں گے انٹی کرپشن پنجاب کا ایک بڑا ادارہ ہے، جس کا اصل مقصد کرپشن کو ختم کرنا ہے۔ اور کرپٹ لوگوں کا گھیرا تنگ کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت پنجاب اور اس سے قبل جب کچھ عرصہ کے لیے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب تھے، تو انہوں نے انٹی کرپشن کو اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہا تھا ،ان کے دور میں بھی انٹی کرپشن ڈیرہ غازیخان نے جہاں پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر مقدمات بنائے تھے۔ بعینہ آج جس طرح سے سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب سردار دوست محمد خان مزاری کو گذشتہ دو ہفتے قبل انٹی کرپشن نے گرفتار کرلیا تھا اب سردار دوست محمد خان مزاری کا جو ’’جرم خاص‘‘ تھا وہ بھی سب کو معلوم ہے۔تو ان حالات میں انٹی کرپشن کو کسی بھی سیاسی حکومت کا ہر گز آلہ کار نہیں بننا چاہیے بلکہ قانون اور آئین کی روشنی میں کام کرنا چاہیں جبکہ سیاسی لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ چند دنوں کے اقتدار کے نشہ میں بدمست ہوکر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اداروں کو استعمال کرنا بند کریں۔2019ئ کی ایک بے بنیاد درخواست کہ جس میں درخواست دہندہ کے اپنے خاص مقاصد پوشیدہ تھے اس کو اب چار سال بعد جواز بنا کر حافظ عبدالکریم پر مقدمہ درج کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ یقینا ایک بھونڈی حرکت کی گئی ہے۔ جو کسی صورت بھی درست نہیں۔ انٹی کرپشن کو بھی سوچنا چاہیے کہ اتنی کمزور دفعات کا استعمال کرکے کیا وہ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم جیسے بااصول اور باکردار شخص کو سیاسی وفاداری تبدیل کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ حافظ صاحب اس سے پہلے بھی اس سے بڑی سیاسی انتقامی کاروائیوں کا سامنا کرچکے ہیں۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں اتوار 20 نومبر 2022ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں