اتحادیوں کے نخرے اور حکومت کی بے اعتنائی دیکھ کر وثوق سے کہا نہیں جا سکتا کہ اقتدار کی راہداریوں میں سب اچھا ہے۔ موجودہ حکومت کے لئے جہانگیر خان ترین کی حیثیت امرت دھارا کی ہے۔ اس موقع پر مگر جہانگیر خان ترین بھی ملک سے باہر ہیں‘ جہانگیر خان ترین کا بیرون ملک آنا جانا لگا رہتا ہے‘ بسا اوقات وہ علاج معالجے کے لئے برطانیہ جاتے ہیں اور گاہے کاروباری مصروفیات کی بنا پر ملک سے غیر حاضر ہوتے ہیں‘ کسی متمول شخص کا بیرون ملک جانا اچھنبے کی بات نہیں کہ پاکستان ہماری اشرافیہ کے نزدیک حکمرانی کے لئے بہترین جگہ ہے طبی سہولتوں‘ بچوں کی تعلیم وغیرہ کے لئے ہرگز نہیں۔عمران خان مشکل میں ہوں تو جہانگیر خان ترین‘ ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں‘ اتحادیوں سے مذاکرات میں ان کی خفیہ صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں اور تحریک انصاف میں اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لئے بھی ان کی خدمات درکار ہوتی ہیں اب مگر پارٹی اندرونی بے چینی میں مبتلا ہے۔ایم کیو ایم‘ بی این پی‘ بی اے پی اور مسلم لیگ (ق) رنجیدہ ہیں اور عمران خان کا یار غار لندن کی زمستانی ہوائوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پہلے تمام اتحادیوں میں بیک وقت بے چینی لوگوں کو حیران کئے دے رہی تھی اب جہانگیر خان ترین کی غیر حاضری اور مذکراتی کمیٹی میں عدم شمولیت پریشانی میں مبتلا کر رہی ہے یک نہ شد دو شد۔ صرف جہانگیر ترین ہی نہیں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کو بھی نئی مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا‘ عام خیال یہی ہے کہ جہانگیر خان ترین اور پرویز خٹک عمران خان کو اتحادیوں سے کئے گئے وعدے اور تحریری معاہدے یاد کراتے‘ عملدرآمد پر زور دیتے ہیں لہٰذا مذاکراتی کمیٹی سے فارغ‘ لیکن بات اتنی سادہ نہیں ۔مسلم لیگ(ق) ایم کیو ایم اور بی این پی کی طرح غیر حقیقی اور ناقابل عمل مطالبات منوا کر شریک اقتدار نہیں ہوئی‘ ایم کیو ایم کا مینڈیٹ کراچی تک محدود ہے اور وہاں صوبائی حکومت سے بالا بالا اربوں روپے کے ترقیاتی پراجیکٹس کی تکمیل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ الطاف دور کے دفاتر کی بحالی بھی آسان نہیں کہ بیشتر سرکاری زمینوں پر قائم ہیں اور ماضی میں دہشت گردوں کے اڈے بنے رہے۔ بی این پی کے بعض مطالبات پر عملدرآمد میں عملی مشکلات ہیں جبکہ مسلم لیگ(ق) کے تین مطالبات ہیں (1) جن اضلاع میں ان کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی جیتے وہاں کے انتظامی افسران کے تقرر و تبادلوں(2) ترقیاتی فنڈز کی تقسیم اور (3) ترقیاتی پراجیکٹس کی تیاری میں باہمی مشاورت۔ ہفتہ رفتہ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی سٹینڈنگ کمیٹی کے ارکان سے ملاقات میں چودھری پرویز الٰہی تحریری معاہدے پر عملدرآمد میں لیت و لعل اور بار بار مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل سے نالاں اور دلبرداشتہ تھے اور انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر وہ سب کچھ کہہ دیا جو ناراض اور دکھی شخص کہہ سکتا ہے۔مذاکراتی کمیٹی سے پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کی فراغت پر وہ حیران تھے‘ اسی روز چودھری صاحب کے صاحبزادے مونس الٰہی نے ایک ٹویٹ میں ناراضگی ظاہر کی۔ شفقت محمود پھر بھی پر اُمید ہیں کہ دونوں جماعتوں میں مذاکرات کے ذریعے معاملہ سلجھے گا اور شکر رنجی دور ہوجائے گی۔ 1985ء سے ملک میں جمہوریت کے نام پر منتخب نمائندوں کی بلیک میلنگ کا جو نظام نافذ ہے اس نے صرف پولیس اور انتظامیہ کے مورال اور کارکردگی پر منفی اثرات مرتب نہیں کئے‘ کرپشن ‘ سفارش اور اقربا پروری کے مکروہ کلچر کو بھی فروغ دیا۔ سیاستدان یہ رونا تو روتے ہیں کہ ان کی کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ججوں‘ جرنیلوں اور بیورو کریٹس کی بدعنوانی و بے ضابطگی سے کوئی تعرض نہیں کرتا مگر اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں کہ اگر سیاستدان یعنی منتخب عوامی نمائندے اپنے آپ کو آئین و قانون کے مطابق پالیسی سازی تک محدود کر لیں اور انتظامی‘ مالیاتی معاملات جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصداق سول و خاکی بیورو کریسی کو طے کرنے دیں‘ ترقیاتی پراجیکٹس کے لئے تجاویز دیں‘ من پسند ٹھیکیداروں کی وکالت نہ کریں تو پھر کسی کی مجال ہے کہ وہ ترقیاتی فنڈز کی لوٹ مار میں انہیں شریک جرم قرار دے سکے۔ اسی طرح اپنے حلقے اور ضلع میں انتظامی و پولیس افسران کی تعیناتی و تبادلے میں دلچسپی لینے والے منتخب عوامی نمائندے اس الزام سے کیسے بچ سکتے ہیں کہ وہ ان افسران کی لوٹ مار‘ بد انتظامی‘ عوام دشمنی اور ظلم و تشدد کا حصہ ہیں۔ گورنر چودھری محمد سرور نے ایک ٹی وی انٹرویو میں الزام عائد کیا کہ بیورو کریٹس ان کا فون سنتے ہیں نہ کام کرتے ہیں‘ واقفان حال کے مطابق پنجاب کے اعلیٰ عہدیدار نے پیغام بھیجا کہ اس انتظامی افسر کا نام بتائیں جس نے آپ کا فون سننے یا جائز کام کرنے سے انکار کیا ہو؟ تاحال پیغام رساں جواب کا منتظر ہے۔ چیف سیکرٹری اعظم سلیمان اور انسپکٹر جنرل پولیس شعیب دستگیر کو وزیر اعظم نے فری ہینڈ دیا کہ وہ اپنے قانونی اختیارات کسی دبائو اور مداخلت کے بغیر انجام دیں تو شور مچ گیا کہ وزیر اعلیٰ کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے حالانکہ یہ آئین اور قانون کے مطابق تقسیم کار ہے اور باقی کے تجاوزات کا خاتمہ۔جن چار اضلاع میں مسلم لیگ (ق)کی اکثریت ہے وہاں بھی انتظامی افسران منتخب ارکان کی مرضی سے تعینات ہیں مگر بالائی ہدایات کے تحت صرف اور صرف قاعدے‘ قانون کے مطابق کام کرنے کے پابند۔ ظاہر ہے کہ اتحادی جماعت کو شکایت ہے۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے کے اصول کے تحت منتخب عوامی نمائندے پالیسی سازی پر توجہ دیں عملدرآمد کی ذمہ داری بیورو کریسی کی ہے ‘وہ کسی سیاسی دبائو ‘ ترغیب اور تحریص کے بغیر اپنا کام کرے تاکہ خرابی کی صورت میں اس کی گوشمالی ممکن ہو اور وہ یہ نہ کہہ سکے کہ اُسے آزادی سے کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ اطمینان بخش نتائج فراہم کر سکتی۔ حکومت کے اتحادیوں اور ارکان اسمبلی کو اس کی عادت نہیں اور عمران خان نے معاہدے کرتے وقت سوچا نہیں کہ جو مطالبات مانے جا رہے ہیں انہیں پورا کرنا وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کی اخلاقی‘ سیاسی اور انتظامی ذمہ داری ہے۔ حکومت بنتی اکثریت سے چلتی مگر حکمت سے ہے اور معاہدوں کی پاسداری نہ کرنے والی بلکہ معاہدوں کو قرآن و حدیث نہ سمجھنے والی حکومتیں عوامی ساکھ کھو کر تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جاتی ہیں۔ آصف علی زرداری کو مخدوم جاوید ہاشمی نے سیاست کا پی ایچ ڈی قرار دے ڈالا تھا مگر معاہدہ کر کے مکر جانے کی عادت نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا۔ صرف اتحادی نہیں‘ جہانگیر خان ترین اور پرویز خٹک بھی اگر عمران خان کے قومی ایجنڈے میں مددگار نہیں تو قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہے وگرنہ کمیٹیوں کی تشکیل اور ردوبدل کے بجائے خان صاحب اتحادیوں کو خود بلائیں‘ شکوہ و شکایات سنیں‘ ناقابل عمل اور تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ مطالبات کو رد‘جائز شکایات کو دور کریں اور آگے بڑھیں۔ لگائی بجھائی کرنے والے ان کے دوست ہو سکتے ہیں نہ ملک و قوم کے۔ مہنگائی ‘ بے روزگاری اور بدامنی کا طوفان بڑھتا چلا آ رہا ہے اس کی روک تھام اتحادیوں سے مل کر نہ ہوئی‘‘ یہ سال بھی مشکلات کا سال رہا‘ تو عوام کی اُمیدیں نااُمیدی میں بدلتے کتنی دیر لگتی ہے‘ ذرا سوچیں تو؟