کبھی آپ نے سوچا کہ ہم اتنے تھکے ہوئے ، چڑ چڑے ، بیزار اور مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں۔ پھر اس سوال کا جواب یہی ملتا ہے کہ ہم غیر مطمئن اور مایوس لوگ ہیں۔ جی ہاں۔ زندگی میں اپنے ارد گرد دیکھیں توآپ پر واضح ہو گا کہ ایسے حالات میں مضبوط سے مضبوط لوگوں کے نظریات بھی سماجی اور معاشی مسائل کے طوفان میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ سماجی اور معاشی مسائل کے مقابلے میں نظریات کی کیا اہمیت ہے۔ اس سوال کا جواب آپ پندرہ بیس ہزار روپے کمانے والے اس شخص سے پوچھیں جو ایک کمرے کے مکان میں اپنے چار بچوں کے ساتھ رہتا ہے ۔ جو ایک وقت کا کھاتے ہیں تو دوسرے وقت کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ ایک عبرت انگیز سسکتی زندگی ان کے دروازے پر کھڑی دستک دیتی رہتی ہے۔ آج جب میں حکمرانوں سے ریاست مدینہ کا تذکرہ سنتا ہوں تو مجھے یہ سب کچھ صرف ایک نعرہ لگتا ہے ۔ ایک بہلاوا، ایک ڈھونگ اور ایک دھوکہ لگتا ہے ۔ آخر ایسا کیوں لگتاہے؟ یہ تو ایمانداری کا دعویٰ کرتے ہیں ، زندگیوں میں انقلاب کی بات کرتے ہیں، یہ تو تبدیلی کی بات کرتے ہیں ۔ دنیا میں اللہ کی رضا اور آخرت میں سر خرو ہونے کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں ۔ پھر کیا بات ہے کہ دل و ذہن ان کی بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اخبار کا اس تراشے نے جو غمناک بھی ہے اور دردناک بھی ۔ جس نے نہ جانے میرے جیسے کتنے لوگوں کی نیند ، دماغ کا چین اور جسم کا سکون چھین لیا ہے کہ ایک بچی کو ذیادتی کے بعد اسے نہ صرف جان سے مار دیا گیا بلکہ اس کو آگ لگا دی گئی ۔ نہ جانے کتنے معاشی ، سماجی اور معاشرتی بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہے ہیں اور ہمارے صاحب اقتدار اور اختیار سب کچھ اچھا کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ مان لیں کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکے اور ان کی حفاظت بھی نہ کر سکے ۔ یہ بھی مان لیں کہ ہمارا قانون ایسے درندہ صفت سفاک لوگوں کا راستہ نہ روک سکا۔ اس ملک کے ہزاروں بچے فاقے کاٹتے ہیں،ننھی ننھی خواہشیں پلوئوں سے باندھتے پھرتے ہیں۔ جن کی آنکھوں میں ستارے نہیں روٹیاں چمکتی ہیں اور جن کے ہونٹوں پر ترانے نہیں منتیں جھڑتی ہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جوں جوں لوگوں کے معاشی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ اپنی نظریات اور منزل سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ صاحب اقتدار اور اختیار لوگوں کو اگر زندگی کی تلخی اور کڑواہٹ کا ذائقہ چکھناہے تو وہ ایک قدم نیچے آکر سوچیں اور صرف ایک دن کے لئے اپنی شاہانہ زندگی کو ترک کردیں۔ اپنے یخ بستہ کمروں کے ایئر کنڈیشنڈ بند کر دیں۔ شاندار گاڑیوں کو گیراج میں لاک کر دیں۔ منرل واٹر کی ٹھنڈی بوتلوں کو حلق میں نہ انڈیلیں ۔ سلائس پر مکھن اور شہد کی تہہ نہ جمائیں ۔ کینیا کی کافی میں ہالینڈ کا دودھ نہ ملائیں ۔ اعلیٰ برانڈ کے کپڑوں پر فرانس کا پرفیوم نہ لگائیں ۔ اٹلی اور اسپین کا جوتا نہ پہنیں ۔ بالوں کو انگلستان کے کیمیکل سے ڈائی نہ کریں۔ ایک دن کے لئے صبح سویرے ہریالی میں بنے ٹریک پر جاگنگ نہ کریں ۔ لمبے کانوں اور چھوٹی دم اور چمکتی ہوئی آنکھوں والے کتوں سے گفتگو نہ کریں ۔ اپنی کارکردگی پر ڈینگیں نہ ماریں اور ایک حکم پر دسترخوان پر سجے کھانوں کو ترک کر کے صرف ایک دن اپنے گھروں سے نکل کر دادو ،بھورے والا ، چکوال ، مردان ، شہداد پور ، گوادر، خضدار اور تھرپارکر میں پھیل جائیں اور کھال میں اترتی گرمی کی حدت ، وجود میں جس کی تکلیف اور جسم سے جدا ہوتی زندگی، اس میں مایوسی اور بے بسی کے درمیان پہنچ کر چاروں طرف نظر گھمائیں ۔ اپنے ہی کندھوں پر اپنے ہی جنازے اٹھائے لوگوں سے مخاطب کرکے انہیں بتائیں کہ وزیر اعظم پاکستان کو ریاست مدینہ بنا رہے ہیں۔ پھر آپ کے اس بیان پر یہ بے کس اور مجبور لوگ جو جواب دیں، اسے باندھ کر واپس گھر لوٹ آئیں ۔اسی زندگی میں لوٹ آئیں جس زندگی کو آپ نے ۔جی ہاں۔ آپ نے صرف ایک دن کے لئے خیر باد کیا تھا۔ پھر ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ کیا آپکی ریاست مدینہ اس ملک کے 65فیصد لوگوں کو پانی کا ایک گلاس بھی فراہم کر سکا ہے، جو صدیوں سے کیچڑ چھان کر پی رہے ہیں ۔ کیا آپ کی یہ ریاست ان 70 لاکھ نوجوانوں کو ملازمتیں دلا سکتی ہے جو ملازمت کے حصول کے لئے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں ۔ کیایہ ریاست ہمارے درمیان تمام تفریق کی دیواریں گرا دے گی؟ کیا یہ ریاست غریب بیمار کو دوائی، ضرورت مند کو رحم اور مظلوم کو زبان دے گی؟ کیا اس ریاست میں آپکے کروفر اور پروٹوکول پنکچر ہو جائے گا؟ وی آئی پی لائونج ختم کر دے گا اور ہوٹروں کا گلہ دبا دے گا؟ گردنوں سے سریئے اور آنکھوں سے قہر ختم کر دے گا ؟ وڈیرہ شاہی اور جاگیر داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا ؟ مزدوروں کو ان کے اوقات پر تنخواہ ادا کروا دے گا؟ پتھریلی زمین پر ہل چلانے والے کی ضرورتیں پوری کروا دے گا؟ روتے بچوں کے آنسو پونچھے گا اور بیوائوں کا خوف ختم کر ے گا؟ یتیموں کے سر پر سایہ بن جائے گا اور سب کو سکھ سے رہنے کا حق دے گا؟ ہر طرف میرٹ ہو گی اور حق دار کو اس کا حق ملے گا؟ جی ہاں۔ خود اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا آپ اس ریاست مدینہ کی بات کررہے ہیں ، جس کی بنیاد آقائے نامدارﷺ نے رکھی تھی اور جسے سیدنا فاروق اعظم ؓ نے پوری دنیا میں پھیلا دیا تھا۔ اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا آپ کی ریاستِ مدینہ واقعی اسلام کے اصولوں پر مبنی ہو گی ۔ ریاست مدینہ میں تو انسان کو انسان سمجھا جاتا تھا اور انکے تمام بنیادی حقوق ادا کئے جاتے تھے۔اُس وقت کے حکمران مظلوم کی آہ سے ڈرتے تھے اور خدا کے قہر سے کانپتے تھے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھرآپ کونسی ریاست ِمدینہ بنا رہے ہیں، جس کے دامن میں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا ہی نہیں ۔ کوئی معاشرتی، معاشی، سیاسی اور سماجی اصلاح اور تبدیلی نہیں ۔ ذرا سوچئے ۔ پھرآپکی منزل کیا ہے؟