میں یہ بھول ہی گیا کہ اس وقت 2020ء ہم پر بیت رہا ہے۔ ماہرین کئی سال پہلے ہمیں نوید دیا کرتے تھے کہ جب یہ سال آئے گا تو ہماری شرح نمو 7فیصد ہو جائے گی۔ یہ گویا ایک سنگ میل تھا جسے ہم عبور کرنا چاہتے تھے۔ ملک میں جو سیاسی دھماچوکڑی مچی تو یہ بات بتا دی گئی کہ اب یہ سنگ میل ہم 2023ء میں عبور کریں گے گویا ہمارا ملک ترقی کی رفتار میں تین سال پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ سنگ میل ایسا ہے کہ عام طور پر یہاں پہنچ کر کوئی قوم وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ کم از کم آنے والی نسلوں کو روزگار فراہم کرنے کی پوزیشن میں آ جاتی ہے۔ جب 2023ء کا ہدف بیان کیا گیا تو میں نے عرض کیا تھا کہ شاید ہم 2025ء میں ایسا کر سکیں۔ یہ پانچ سال پیچھے رہنے کی بات نہ تھی‘ بلکہ پانچ سال اپنی زندگیوں سے کاٹنے کا عمل تھا جس کے اثرات شاید ایک طویل عرصے تک محسوس کئے جاتے رہیں۔ میں یہ بھول گیا تھا۔ ایسی افراتفری مچی تھی کہ کسی کو کسی کی ہوش نہ رہی تھی۔ ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے۔اس مسئلے پر کئی پہلوئوں سے دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک بنیادی بات ہے کہ معیشت اور سفارت آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک کے اثرات دوسرے پر اس طرح پڑتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ہاں اس کے ساتھ ایک عنصر کا اور اضافہ کر لیں اور وہ ہے سلامتی کا مسئلہ۔ہمارے لئے سفارت کاری ملکی سلامتی اور معاشی ترقی سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ہمارے لئے ہی کیا‘ دنیا میں اکثر ممالک میں یہ ایک زمینی حقیقت ہے یہ جنہیں ہم ایشیائی ٹائیگر کہتے ہیں۔ یہ اچانک پیدا نہیں ہو گئے۔ بنگلہ دیش ‘ ویت نام سے لے کر کوریا اور تائیوان تک ایک پوری پٹی ہے، جس میں ملائشیا ‘ سنگا پور‘ ہانگ کانگ اور انڈونیشیا سب شامل ہیں۔ اس پٹی نے اچانک ترقی کرنا شروع کی۔ ضرور ان کی لیڈر شپ اچھی ہو گی‘ضرور یہاں کی پالیسیاں اچھی ہوں گی‘ مگر یہ پورا خطہ اچانک کیسے اٹھ کھڑا ہوا۔ دنیا بھر میں ایشیا کا لفظ گویا اسی خطے کے لئے استعمال ہونے لگا۔ آخرکیوں ہمیں اس علاقے کی سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ بنگلہ دیش اور ویت نام سے دنیا والوں کی محبت نہیں جاگ اٹھی تھی۔ بلکہ یہاں کے بعض سفارتی اور سلامتی کے تقاضے ایسے تھے کہ یہ ملک آگے بڑھتے گئے۔ رہے ہم تو ہمیں کئی معاملات میں حالات نے الجھا دیا۔ مشرق وسطیٰ میں کس چیز کی کمی تھی۔ سرمایہ کم تھا؟مغرب سے تعلقات میں کچھ کمی تھی؟یہ لوگ کیا آمادہ بغاوت تھے؟ پھر وہ کس کارن ’’شیر‘‘نہ بن سکے جس طرح وسائل کی کمی کے باوجود مشرق بعید کے ممالک بن گئے۔ ہمیں اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہماری سلامتی اور تزوینی صورت حال کی وجہ سے قدرت نے ہمیں کئی بار مواقع دیے، کیا خیال ہے ٹرمپ نے اچانک پلٹا کھایا تھا اور وہ اچانک پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کی دھمکیاں دیتا ہوا، دوستی پر اتر آیا تھا۔ اس دوستی کا ایک پہلو تو افغانستان میں حالات کے بدلنے کے تقاضے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کا یہ احساس ہے کہ افغان جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر ختم نہیں کی جا سکتی اور یہ کہ اب یہ جنگ ختم ہو جانی چاہیے۔کوئی سمجھتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ حکمران بدل جانے کا کمال ہے کہ وہ بات کو اس کی اصل روح کے مطابق نہیں سمجھ رہا۔ ہم نے اس کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ امریکہ نے اس سے پہلے ہمیں سی پیک سے ہٹا کر آئی ایم ایف کے راستے پر لگا ڈالا۔ یہیں سے معاشی ترقی کا سارا پیراڈائم بدل گیا۔ یقینا یہ بات درست ہو گی کہ ہمارے ہاں سیاسی بندوبست میں تبدیلی بھی اس کا شاخسانہ تھا۔ تاہم یہ بات بھی غلط نہیں کہ اس تبدیلی کے بغیر بھی بہت سے مقاصد حاصل کئے جا سکتے تھے۔ یہ ہماری سفارتکاری کی ناکامی تھی یا سلامتی کے تقاضوں پر غلط اندازہ تھا۔ اس وقت چاروں طرف ہاہو کار مچی ہوئی ہے کبھی ہوا ہے کہ ہمیں اپنے دوست سے لیا ہوا ایک ارب ڈالر کا قرض یوں واپس کرنا پڑا ہو۔ یہ قرض ہم نے چین سے رقم لے کر ادا کیا ہے۔ کیا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سکیورٹی تقاضے ہم سے منسلک نہیں۔ نہ ہوتے تو ہمارے آرمی چیف اور انٹیلی جنس کے سربراہ سعودی عرب ہنگامی دورے پر نہ جاتے۔شیخ رشید یہ نہ کہتے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس موقع پر ہماری ایک وزیر شیریں مزاری کو یہ بیان نہ دینا پڑتا کہ عمران خاں تو کشمیر کے مسئلے کو درست سمت لے جا رہے تھے مگر وزارت خارجہ کچھ نہیں کر رہی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ہمارے سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ کیا وزیر خارجہ کا یہ بیان یا اشارہ ہماری دفاعی مقتدرہ کے تصورات سے ہٹ کر تھا یہ سب ایک تزوینی مقصد کے تحت تھا۔ چین ‘ ایران میں مضبوط سرمایہ کاری کی بنیادیں رکھ چکا ہے وہ سعودی عرب میں بھی اپنے مفادات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ادھر چین کی سرحدوں کے ساتھ انڈیا سے سنجیدہ چھیڑ چھاڑ جاری ہے۔ نیپال بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ وہ ایک بڑے رقبہ پر اپنا حق جتا رہا ہے۔ چین اسے سی پیک کے راستے گوادر تک ملانے کے خواب دکھا رہا ہے تاکہ بھارت پر اس کا انحصار کم ہو سکے۔ بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا ہر جگہ ایک ہل چل ہے۔مطلب یہ نہیں کہ ’’ہم‘‘ نے بھارت کو دبوچ رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے لئے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم نے اگر اس کا فائدہ نہ اٹھایا تو ذمہ دار ہم ہوں گے کوئی اور نہیں۔ سعودی عرب‘ ایران ‘ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ ترکی اور قطر سے ہمارے مضبوط تعلقات خطے کو ایک نئی شکل دے سکتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہم نے ترکی کو شریفوں کا ساتھی اور قطر کو قطری خط کے طعنے دے کر مذاق بنا رکھا ہے۔ نواز شریف نے ایسے ہی وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس نہیں رکھا تھا۔کوئی اس کی خارجہ پالیسی کا کبھی جائزہ لے تو اس کو اندازہ ہو گا کہ نواز شریف کے خیال میں خارجہ پالیسی کا بوجھ برداشت کرنا کابینہ کے کسی اور رکن کے بس کی بات نہیں تھی۔ شاید یہ بات درست ہے۔ میں نے عرض کیا عنصر ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ سفارت کاری اور سکیورٹی ۔ہم سعودی عرب سے اپنی معیشت کا ذکر تو بہت کرتے ہیں۔ سکیورٹی کے معاملات کو چھپا جاتے ہیں۔ اپنی ہی نہیں، ان کی سکیورٹی بھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک وزیر نے اپنے دفتر خارجہ کو اس کی کوتاہ ہمتی اور کوتاہ نظری کا طعنہ دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے ہمارے معاشی معاملے پر بات کی ہے‘ اگرچہ یہ خارجہ امور سے بھی متعلق ہے اور چیف آف سٹاف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سعودی عرب روانہ ہو گئے ہیں۔ اس دوران ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سعودی سفیر نے بھی ہمارے ملک میں اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ سب کچھ ایک دوسرے سے متعلق ہے۔ ذرا غور کیجیے۔