لندن میں ہیتھرو ایئر پورٹ سے اترتے ہی میرے مستقل میزبان بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے اپنے مخصوص انداز میں جملہ کہتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ’’لگتا ہے’این آر او‘ ہوگیا،جبھی آپ لانگ مارچ کے بیچ ہنگام میں ’فیض میلے ‘ میں شرکت کے لئے آگئے۔‘‘ایئرپورٹ سے بیرسٹر قادری کی دریائے ٹیمز کے پہلو سے لگی رہائش گاہ کاکوئی گھنٹے بھر کا فاصلہ ہے۔۔ ۔ اب دریائے ٹیمز کا زبان پر نام آہی گیا ہے تو منفرد لہجے کے شاعر مصطفی زیدی کے اس شعر سے کیسے گُریز کیا جائے ۔ ۔۔ہئے ہئے! ساحلِ ٹیمز میں سنگم کا صنم یاد رہا وقتِ رخصت وہ تیرا دیدۂ نم یاد رہا لند ن یوں بھی اب دوسرا پاکستان جیسا لگتا ہے۔۔ ۔ پانچواں دن ہوگیا، مشکل سے کسی ’’گورے ‘‘سے اُس کی مادری زبان میں بات ہوتی ہے ۔ہفتے کو’’ فیضؔ میلہ ‘‘تھا جس میں سال دو چھوڑ کر دہائی ایک سے آناہورہا ہے۔سینکڑوں کا مجمع ہو تا ہے جس میں برطانیہ حتیٰ کہ یورپی ممالک سے محبان ِ فیض ؔ صاحب کی محبت میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ ۔ ۔ سہ پہر سے رات کے دوسرے پہر تک فیض ؔ صاحب کی شخصیت اور شاعری کے ساتھ حالات ِ حاضرہ کے حوالے سے بڑی وقیع اور دقیع گفتگو ہوئی ہے۔ ۔ ۔ جیسے اسکرین پر آواز لگانے والوں کے بارے میں یہ خوش فہمی پائی جاتی ہے کہ ہم اندر کا احوال جانتے ہیں۔ ۔ ۔ ’’لانگ مارچ ہوگا ،نہیں ہوگا‘‘، ’’میاں نواز شریف واقعی بیما ر ہیں‘‘یا ’’بیماری ڈرامہ ہے‘‘،’’کیا این آر او ہوگیا؟‘‘۔ ۔ ۔ اب یہ کیسے قائل کیا جائے کہ کراچی کیا۔ ۔ اسلام آباد میں ہوتے ہوئے ہم ’’پاور کوریڈور‘‘کی سن گن نہیں لے پاتے۔اس پر حوالے کے لئے ،کسی معتبر بلکہ خود سر اینکر کانام لیا جاتا ہے،کہ’’ وہ تو سینہ ٹھوک کر اعلیٰ عدالت کے سامنے گرج رہا تھا کہ ’این آر او‘ ہوگیا ۔‘‘۔ ۔۔ ندامت سے اپنی بے خبری تسلیم کرنے میں عافیت ہی سمجھی ۔ ۔ ۔ لندن برسہا برس سے آنا ہورہا ہے۔۔ ۔ قیام بس چار ، پانچ دن کا ہی ہوتا ہے۔۔ ۔ خواہش یہی ہوتی ہے کہ وطن ِ عزیز میںبیزاری کی حد تک سیاست میں شب و روز کی مشقت چھوڑ کر جب لندن کے پارکوں اور ’پبوں‘میں شامیں گزاری جائیں تو جھوٹے سے بھی۔ ۔ ۔ وطن ِ عزیز اور اُس کی ہمہ وقت سیاسی ہنگامہ آرائی پر گفتگو سے گُریز کیا جائے۔ ۔ ۔ مگر ہم پاکستانی ۔ ۔ ۔ جس جہان ِ رنگ و بو اور محفل ِ ہاؤ ہو میں ہوں۔ ۔ ۔ چھٹتی نہیںہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی کسی غلط فہمی سے پہلے ہی وضاحت ضروری ہے کہ پارکوں اور ’پبوں ‘کے شہر لندن میں ہوتے ہوئے میری مراد سیاست سے ہے۔ ۔ ۔ ورنہ اس ’’کافر‘‘کو ہر شام چھوڑے عرصہ ہونے کو آرہا ہے: ع کیا زمانہ تھا،اِدھر شام،اُدھر ہاتھ میں جام صبح تک دورچلا کرتے تھے پیمانوں کے اب تو رستے بھی رہے یادنہ مے خانوں کے کیسی عجیب بات ہے کہ مادرِ جمہوریت برطانیہ میں سیاست کی ’گورے‘ علت اورعادت کبھی کی چھوڑ چکے ہیں۔ ۔ ۔ پچھلے چند ماہ سے Brexitکے مسئلے پر سلطنت ِ برطانیہ پر انتہائی برا اور کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ مہینے بھر پہلے تو نہ پارلیمنٹ تھی اور نہ وزیر اعظم ۔ ۔ ۔ ابھی بھی وزیر اعظم بورس جانسن Brexitپر بات کرنے پر ایک بار پھر منہ کی کھائی بیٹھے ہیں۔مگر کیا مجال کہ کسی پارک،’پَب‘،ٹیوب اور فٹ پاتھ پر اس کی بازگشت بھی سنائی دی ہو۔۔ ۔ ’’گوروں‘‘ کا مرغوب موضوع فٹ بال، ڈربی اور موسم ہے۔ادھر سوچا تھا کہ چار دن جو لندن میں بسر ہو ں گے ۔ ۔ ۔ توعمر کے اس پہر میں اُن یاران عزیز کی صحبتوں سے لطف اندوز ہوں گا ۔ ۔ ۔ جو دہائیوں پہلے، وطن عزیز کی سیاسی دشت نوردی چھوڑ کر آدھے ’’گورے ‘‘ہوچکے ہیں۔مگر ابھی ’’ہیلو ،ہائے‘‘کی نوبت نہیں آتی کہ ۔ ۔ ۔ تابڑ توڑ سوالوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ’’ آپ کے خان صاحب کی کب حکومت جا رہی ہے؟‘‘ ۔ ۔ ۔ ایسی ہی ایک محفل میں پیر کی شام جب اسکرین پر نظر پڑی تو وزیر اعظم عمران خان دوٹوک الفاظ میں یہ کہتے نظر آئے کہ۔ ۔ ۔ ’’کوئی این آر او نہیں ہوگا‘‘۔ ۔ ۔ خان صاحب کے اس جملے نے تو اور بھی لطف دیا کہ ۔ ۔ ۔ ’’ میں میاں نواز شریف کی زندگی کی ضمانت کیا دوں ۔ میں خود اپنی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا ۔‘‘ عزیزو ،برسوں پہلے ڈاکٹر جانسن کا یہ مقولہ سُنا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ’’جو زندگی سے بیزا ر ہو، وہ لندن آجائے۔ ۔ ۔ ‘‘ اس پر کسی نے یہ جملہ دیا کہ ۔ ۔ ۔ ’’اوراگر کوئی لندن سے بیزار ہو جائے تو؟‘‘ ۔ ۔ ۔ جواب آیا۔ ۔ ۔ ’’ تواس کا مطلب وہ زندگی سے بیزار ہے۔‘‘ سو پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ۔ ۔ کہ اسکرین سے پیٹ لگنے کے سبب جو وطنِ عزیز میں شب و روز سیاست میں گذرتے ہیں ۔ ۔۔ اُس سے بیزار ہو کر ذرا فقط ’’فیض ؔ میلہ‘‘ میں شرکت کے بہانے وطن چھوڑ کر لندن کے پارکوں اور ’پبوں‘ میں یاران ِ عزیز کی محفل ِ ہاؤ ہو میں ۔ ۔ ۔ پیروی ،رند ِخرابات میں ، زہرہ جبینوں کی مناجاتیں ہوں گی۔ ۔ ۔ مگر اِدھر ابھی جم کر بیٹھے نہیں کہ ۔ ۔ ۔ وہی کمبل بنا ’’سوال‘‘۔ ۔۔۔ کہ : ’’حکومت کب جا رہی ہے؟‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’میاں صاحب کی صحت کیسی ہے؟‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’مولانا کے لانگ مارچ کے پیچھے کون ہے؟‘‘ ۔ ۔ ۔ ہائے لندن، وائے لندن بھاڑ میں جائے لندن