منزلوں دور، ان کی دانش سے خْدا کی ذات ہے خْوردبین و دْوربیں تک، ان کی بَس اوقات ہے یہ کائنات سربستہ راز ہے۔ ایک پردہ ہٹتا ہے تو کھْلتا ہے کہ ان گنت پردے اَور ہیں۔ جسے ہم آج منزل سمجھتے ہیں، وہ کَل، نشان ِمنزل بھی نہیںرہتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس راہ کے مسافر کا اٹھتا ہوا ہر قدم، اسے منزلوں پیچھے لے جاتا ہے۔ ہر گام، نظر کی نارسائی، بھی ظاہر ہوتی جاتی ہے۔ اس لیے کہ یہ سفر، مادّی اور یک رْخے ہیں۔ یہی وجہ ہوئی کہ ع ہر قدم دوری ِمنزل ہے نمایاں مجھ سے کیا خبر کہ اپنے علم میں، جسے ہم کائنات کہتے ہیں، کسی اور کائنات کا صرف ضمیمہ ہو! اس مقدمے کو قرآن ِحکیم نے یوں فیصلہ کیا ہے۔ ترجمہ۔ "اور تمہیں عِلم دیا گیا بہت تھوڑا"۔ چند روز پہلے، بلیک ہول کی تصاویر سامنے آ گئیں۔ سائنس کی دنیا میں، یہ بڑی پیش رفت ہے۔ ایسے میں، وہی پرانا سوال، پھر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ تو کار ِزمین را، نکو ساختی کہ با آسمان، نیز پرداختی یعنی، زمین کے جھگڑے انسان نے چکا دیے کہ دعوے اب آسمان کی مِلکیت کے ہو رہے ہیں؟ یہ ترقی ِمعکوس ہے کہ ایسے ہتھیار، اب بنا لیے گئے ہیں، جن کے زور پر، یہاں کی جنگیں، خلائوں تک پھیلا دی جائیں گی! دراصل، پستی کا سفر، اس وقت مقدر ہو گیا تھا، جب مادّے کو روح، یعنی ظاہر کو باطن پر فوقیت دی جانے لگی۔ یہ نہ سوچا گیا کہ روح اور مادّہ یا جسم مِل کر، انسان بنتا ہے۔ جسم کی ضروریات مادّی ہیں اور روح کے مطالبات روحانی! اہمیت ہر دو کی ہے اور ایک دوسرے کے لیے، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جسم روح سے خالی ہو، تو مْردہ ہے۔ روح کو جسم میسر نہ آئے تو اس کا کوئی معلوم ٹھکانہ نہیں! سوال یہ ہے کہ ان میں تابع کون ہو اور متبوع کون؟ یا دونوں کو برابر سمجھا جائے؟ مغرب کہیں تو روحانیت ہی کا منکر ہے اور کہیں جسم کی برتری کا قائل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مادّی معاملات میں، مغرب ترقی کی منزلیں طے کرتا آ رہا ہے۔ روحانی معاملات میں البتہ مشرقی اور خصوصاً مسلمان ہمیشہ برتر تھے۔ بلکہ مغرب کی نشاۃ ثانیہ سے پہلے، اور چنگیز خان کی یورش سے قبل، مسلمان روحانی اور ماّدی، دونوں میدانوں میں بہت آگے تھے۔ علم و فضل کی ساری ٹکسالیں، مسلمانوں کے ہاں تھیں۔ پسپائی اور شکست نے، یہ کارخانہ تو بند کیا ہی، روحانی یا اخلاقی حالت بھی خراب ہوتی گئی۔ رفتہ رفتہ، مغرب کی طرح، مشرق بھی بے جان ہو کر رہا۔ کہا جا سکتا ہے کہ مادی ترقی، یہاں تقریباً رْکی ہوئی ہے اور روحانی یا اخلاقی حالت بھی ابتر ہے۔ مادی ترقی کی خواہش ضرور ہے، مگر سامان میسر نہیں۔ روحانی ترقی کا سامان موجود ہے، دل البتہ اس طرف نہیں آتا۔ تن ترا در حبس ِآب و گِل کشد دل ترا در سْوی ِاہل ِدل کشد مشرقیوں کی حالت، ردی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مغرب کو، صرف مادّی افزائش کی بدولت، ترقی یافتہ اور مہذب کیوں سمجھا جائے؟ کیا صرف یک رْخی ترقی سے، کوئی قوم مہذب کہلانے کی سزاوار ہو سکتی ہے؟ بلیک ہول تک رسائی بجا، مگر پوچھنا چاہیے کہ "ترقی یافتہ" اور "مہذب" انسان کا اولین فرض یہ نہیں کہ اپنے ہم جنس پس ماندوں کی داد رسی کرے؟ زمین پر بسنے والوں کی حالت ِزار کا، انہیں کوئی احساس ہے؟ وہ جنہیں دو وقت کی روٹی نہیں جْڑتی، کِس کی ذمے داری ہیں؟ کروڑوں لوگ ہر روز، کِن کے استحصال کی وجہ سے بھوکے سو رہے ہیں؟ ان کی حالت تو کیا سنورتی، "مہذب اقوام" نے دسیوں جنگیں، کسی نہ کسی شکل میں، آج بھی شروع کر رکھی ہیں۔ یمن کی جنگ کا معاملہ دیکھیے۔ اسّی فیصد یمنی، متاثرین میں ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، یہ اس وقت سب سے بڑا انسانی بْحران ہے۔ چند روز پہلے، امریکی کانگرس کے ایوان ِزیریں نے، اس جنگ میں امریکی شمولیت روکنے کے لیے، قرارداد پاس کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اسے ویٹو کر دیا۔ گو قصوروار صرف ٹرمپ نہیں۔ کانگرس کے ممبر، اس ویٹو کو بے اثر کر سکتے ہیں۔ لیکن ان راہداریوں میں اس وقت "کچھ لو، کچھ دو" اور پرانے حساب چکانے پر توجہ کی جا رہی ہے۔ ایوان ِزیریں، ڈیموکریٹس کے قبضے میں دو تین مہینے پہلے آیا ہے۔ انہیں فکر ہے کہ اگلے چند ماہ میں نمائشی کام زیادہ سے زیادہ کیے جائیں تاکہ اگلے سال قصر ِسفید میں، ٹرمپ کی جگہ، ڈیموکریٹ صدر بیٹھا ہوا ہو! تیسری دنیا کے ممالک اور خاص کر کے مسلمان، ڈیموکریٹ صدور سے بڑی توقعات باندھتے ہیں۔ مگر زیادہ دْور کیوں جائیے، صرف اوباما، کلنٹن، کارٹر اور کینیڈی کو یاد کر لیجیے۔ مظلوموں پر ظلم توڑنے میں، یہ ری پبلکنوں سے کہیں ہیٹے نہیں رہے۔ اور صرف امریکا پر موقوف نہیں۔ دنیا بھر میں، مہلک ترین ہتھیار تیار کرنے کی دوڑ، "مہذب دنیا" کی دین ہے! دونوں عظیم جنگوں میں کروڑوں لوگ مارے گئے تھے۔ پچھلے بیس برسوں میں بھی، دس لاکھ سے زیادہ تو ہلاکتیں ہی ہوئیں۔ جنہیں نیم جان کر دیا گیا یا جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے، وہ بھی کروڑوں میں ہیں! ان بے کسوں کی دست گیری، انسانوں کو کرنا تھی یا بلیک ہول سے کوئی نئی قوم نیچے اْترے گی؟ یہ مظلوم اگر امتحان سے گزر رہے ہیں، تو اس سے زیادہ امتحان اْن لوگوں کا ہے، جو ان کی مدد کرنے کی قْدرت رکھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس امتحان میں انسان، بْری طرح فیل ہوا ہے۔ ہزار دفعہ آسمان پر چڑھائی کیجیے، مگر پہلے، زمین پر فساد پھیلانا بند کیجیے! مسلمانوں کو اگر، صرف یہی "ترقی" کرنی ہے، تو رستہ سامنے ہے۔ کامل ترقی کا راستہ، دنیا اور دین، دونوں کو پانا ہے۔ یہ منزل، ظاہر سے زیادہ، باطن پر نظر کرنے سے حاصل ہو گی۔ اور ع متصل ہو سطح ِظاہر سے، یہ وہ باطن نہیں زمین پر تباہی کے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں اور آسمان پر جھنڈے گاڑنے کی مسرت ہے۔ ایسی بلندی، ایسی پستی؟