بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ کان صرف بڑے بوڑھوں کے کھینچنے یا اینٹھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ سکول اور لاک ڈاؤن میں احساس جاگا کہ یہ محض پکڑوانے کے لیے وجود میں لائے گئے ہیں۔ نوجوانی میں اندازہ ہوا کہ ان سے سُنی اَن سُنی کا کام بھی لیا جا سکتاہے۔ جوانی میں کانوں کا مصرف یہی دکھائی دینے لگا کہ صرف اس بات کا دھیان رکھنا ہے کہ ان پہ کسی طرح کی جوں نہ رینگنے پائے۔سیاست و حکومت میں یہی کان ایک سے سن کے دوسرے سے نکالنے کے کام آتے ہیں اور شادی کے بعد یہی کان بھرنے کے کام آنے لگتے ہیں۔ بڑھاپے میں ان کانوں نے ہر مزے دار بات کو غیر شرعی قرار دے کر اس پہ کھڑے ہونے کی مشقت بھی پال لی۔ قوتِ بصارت میں ذرا سا بھی ضعف آئے تو یہی کان چپ چاپ اپنی دونوں بہنوں ، یعنی آنکھوں کے لیے عینک ڈھونے کی مزدوری بھی کرنے لگتے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ نظر کمزور ہو جائے تو یہی کان گز گز کے ہو جاتے ہیں۔ان کانوں کے عجز و انکسار، گوشہ نشینی اور درویشی کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ چہرے کے برہمن اور نک چڑھے اعضا (آنکھیں، ناک، پیشانی، ٹھوڑی، ہونٹ، دانت اور رُخسار وغیرہ) نے فرنٹ پہ قبضہ جما کے، انھیں اول دن سے سائیڈ پہ لگا رکھا ہے، یا دوسرے معنوں میں کارنر کر رکھا ہے لیکن ان کی سادگی،درویشی اور درماندگی دیکھیے کہ اس مشکل دور میں کہ جب کوئی کسی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، یہ دونوں بھائی اپنی نخریلی بہن جو کہ اپنے اوپر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتی، کے لیے ماسک اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں۔ ان بہن بھائیوں کے پیار اور اپنائیت کا تو یہ عالم ہے کہ محض ان کے ناموں کے حروف الٹ دینے سے ایک، دوسرے میں بدل جاتا ہے۔ ایک وہ ان کا خود سر بھائی منہ ہے، جو ازل سے صرف سنانے کی سرداری سنبھالے بیٹھا ہے، ہمیشہ اپنی کہے چلا جاتا ہے۔ کان کہتے ہیں کہ ہم اس کی ہر اَول فَول پورے جی جان سے سنتے ہیں لیکن اس نے کبھی پھوٹے منہ سے بھی پلٹ کے نہیں پوچھا کہ بھائیو! کس حال میں ہو؟ بلکہ بعض اوقات تو اس کے کہے کی سزا بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑتی ہے۔ پھر اس دانتوں کے بنکر اور رُخساروں کے ایئر کنڈیشنڈ میں بیٹھی بہن زبان سے تو اللہ بچائے، ہمیشہ بلا سوچے سمجھے کچھ نہ کچھ ایسا کہہ دیتی ہے کہ ہماری سال ہا سال کھِنچائی ہوتی رہتی ہے۔ آنکھ پلکوں کی چادر تان لیتی ہے، منہ ہونٹوںکے تکیے پہ سر رکھ کے سو جاتا ہے، ناک نزلے کی شدت میں بند ہو جاتی ہے لیکن ہم ازل سے کھلے کے کھلے، کھڑے کے کھڑے اور کھرے کے کھرے!! ان کانوںکوسب سے زیادہ شکوہ ان شعرا حضرات سے ہے ۔ ان کے بقول ہم نہ ہوں تو ان کی ساری فاعلاتن فاعلات مٹی میں مل جائے۔ ان کی مرغوب غذا یعنی واہ واہ، ہمارے گھر آنگن سے گزر کے ہونٹوں کے دروازے پہ دستک دیتی ہے لیکن مجال ہے، ان نا شُکروں، نا ہنجاروں نے کبھی اپنی شاعری میں ہمیں بھی یاد کیا ہو!! جس شاعر کو دیکھو محبوب کے دیگر اعضائے رئیسہ کے قصیدے پڑھے جا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے: تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟ …کہیں سے آواز آتی ہے: تُو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ… کوئی پکارتا ہے: پیار بھرے دو شرمیلے نَین… کوئی ٹھوڑی کی ہلکی سی سلوٹ کو چاہِ زنخداں قرار دینے پہ تلا ہوا ہے … کوئی گالوں میں پڑنے والے اتفاقیہ گڑھے میں غوطہ زنی کی خاطر گھر سے نیکر پہن کے آیا ہے… بعض چار چشم شاعر تو ایسے بھی ہیں کہ بیگم کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود گھر کے خراب نلکے پہ تین ہفتوں سے ان کی نظر نہیں پڑی لیکن محبوب کی گردن سے گزرتا پانی تک انھیں صاف دکھائی دے رہا ہے۔ غرض یہ کہ پورا ادب غزالی آنکھوں، شربتی ہونٹوں، شامیانے جیسی پلکوں، ملائم رُخساروں، ناگن زلفوں، صراحی دار گردنوں، شفاف پیٹوں، کشادہ سینوں، آزمائے ہوئے بازوؤں، صندلیں پنڈلیوں، گوری کلائیوں، خندہ پیشانیوں اور مضبوط کاندھوں کے تذکرے سے بھرا پڑا ہے، لیکن مجال ہے کسی بدبخت شاعر نے کبھی محبوب کے کانوں کا بھُولے سے بھی ذکر کیا ہو!! حالانکہ اگر مَیں ان بے وفا شاعروں سے محض ایک مہینہ تعاون کرنے سے انکار کر دوں تو پاک و ہند کے آدھے شاعر تو اپھارے سے مر جائیں۔ ہم نے انھی کانوں سے سنا ہے کہ انھیں دنیا بھر کی خواتین سے بھی بہت سے شکوے ہیں، جو بظاہر تو اپنے آپ کو اس قدر نازک اندام ، لطیف، شائشتہ اور بے ضرر بنائے رکھتی ہیں جیسے بقول شاعر واقعی نسیمِ صبح کے چھونے سے ان کا رنگ مَیلا ہو جائے گا اور پھول کی پتی کو ہاتھ لگانے سے خدا نخواستہ ہاتھ میں چھالے پڑ جائیں گے۔ عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ چھوٹی سی چھپکلی دیکھ کے جان پہ بن آتی ہے، واش روم میں ننھا سا کاکروچ سامنے آ جائے تو ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے لیکن جب میرے ساتھ برتاؤ کی باری آتی ہے تو یہ ہلاکو خاں کی بیٹیاں بن جاتی ہیں۔ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے سے پیشتر ہی پہلے تو میرے جسم کے سب سے نازک حصے میں تیز دھار آلے سے ظالمانہ قسم کا سوراخ کرواتی ہیں، بعض علاقوں میں تو کان کی اچھی خاصی بارہ دری بنوا لی جاتی ہے۔ اس پہ بھی ان کا جی نہ بھرے تو ان سوراخوں میں من من کے جھمکے لٹکا لیتی ہیں، اور اگر کبھی ہم اس مشقت اور ہمیں باپ کا جھولا سمجھ لینے والے ان شریر جھمکوں سے دل برداشتہ ہو کر چپکے سے کسی جھمکے کو شٹ اپ کال دے دیں تو یہ بیبیاںہماری سبک دوشی پہ شاد ہونے کی بجائے بھرے بازار میں ٹھمکے لگا لگا کے اور یہ کہہ کہہ کے پورا بازار اکٹھا کر لیتی ہیں کہ: جھمکا گِرا رے… اس کم فہم، کم نظر، کم بخت بلکہ کم ظرف انسان کو دیکھو کہ اس نے ماسک بنایا تو صرف ناک کے دفاع کے لیے! منھ کو اس کی ہمسائیگی کی بنا پر اضافی بونس مل گیا ۔ آنکھوں کو شروع دن سے عینک کی ڈھال میسر ہے لیکن اس احسان فراموش نے ہمارے تحفظ کے لیے آج تک کوئی ڈھکن، کوئی زرہ، کوئی ڈھال، کوئی پردہ ایجاد نہیں کیا، اُلٹا اس بد تمیز ماسک کی رسیاں باندھنے کے لیے ہمیں بطور کھونٹے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے وجود کے ساتھ بے وفائی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اگر کبھی کہیں کسی سازش کی سرگوشی سنی بھی تو کان لپیٹ کے الگ ہو گئے۔ آج جب سرِ عام یہ کہا جا رہا ہوتا ہے کہ یہ کم بخت کرونا، انھی مفاد پرست اور بورژوا اعضا یعنی ناک، منھ اور آنکھ کے ذریعے انسانی جسم تک پہنچ رہا ہے، تو یقین کریں مجھے کُل کے ساتھ بغاوت کرتے جزو، خدا کے نافرمان بندے، وفاق سے غداری کے مرتکب صوبے، قوم کے ساتھ دھوکا دھوکا کھیلنے والے لیڈر، والدین کی نا فرمان اولاد، اور اصل سے لاپروا و لا تعلق بد نسل یاد آنے لگتے ہیں۔ میری مجبوری یہ کہ مَیں ان کے خلاف بول بھی نہیں سکتا کیونکہ مجھ پر صرف سماعت کی وحی اترتی ہے، بس ہر بار یہی سوچ کے رہ جاتا ہوں: ؎ دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے