تحریک ِ آزادیِ کشمیرکی تفصیل میں جاتے ہوئے بہت دور تک نکل گیا تھا۔ایک اعتبار سے یہ ضروری بھی تھا۔کہ حالیہ برسوں میں ہماری شدت پسند ،مذہبی تنظیموں اور Non-State Actorsنے تحریک آزادیِ کشمیر کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔اس پر تفصیلی بات کرنا چاہتا تھا۔مگر 5اگست کو نریندر مودی نے آرٹیکل 370 اور -35Aکے ذریعے اپنا غاصبا نہ قبضہ مکمل کیا اور اس پر جو شدید رد عمل سرینگر بلکہ سارے مقبوضہ کشمیر میں ہوا ہے۔۔۔اُس نے پہلی بار ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔خود بھارت میں اور مقبوضہ کشمیر میں اُس کے پٹھو کشمیری رہنما بھی بھڑک اٹھے۔جس کے سبب عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے کشمیری قائدین کو بھی مودی سرکار کے خلاف علم اٹھانا پڑا۔ گزشتہ دو ہفتے سے بھارت کے زیر تسلط کشمیرمیں جو مسلسل کرفیو جاری ہے اور دس ہزار سے زیادہ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے،اور پھر بھارتی سورماؤں نے لائن آف کنٹرول پر جو گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہے،جس سے فوجی اور سویلین کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔اُس پہ میں نے سوچا کہ کراچی میںبیٹھ کر قلم کی گھسائی اور اسکرین پر آواز لگانے کے بجائے کیوںنہ لائن آف کنٹرول کا سفرکیا جائے۔اسلام آباد سے مظفر آباد کا سفر کوئی تین گھنٹے کا ہے۔اور پھر مظفر آباد سے چکوٹی یعنی لائن آف کنٹرول تک کوئی ڈیڑھ گھنٹے کاہے۔دریائے نیلم اور دریائے جہلم جہاں ملتے ہیں، اُسے دو دریاب کہتے ہیں۔اور یہاں سے جو سڑک جاتی ہے اُس سے چکوٹی کوئی 74کلومیٹراور اُس سے آگے سرینگر کوئی 100کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔جمعہ کی صبح دومیل یا جسے اب قائد اعظم برج کا نام دیا گیا ہے ،وہاں سے سفر کا آغاز کیا تو مجھے 2005ء کا وہ تاریخی سفر یاد آگیا جب پہلی بار ’’دوستی بس ‘‘ کے ذریعے دونوں جانب کے کشمیریوں کے لئے راستہ کھلا تھا۔کوئی چودہ برس ہونے کو آرہے ہیں مگر آج بھی وہ یاد گار تاریخی سفر دل و دماغ میں محفوظ ہے۔ہزاروں کی تعدادمیں موٹر سائیکلوں ،گاڑیوں ،ٹرکوں میں اس جانب سے پرجوش بچے،جوان ،بوڑھے ،مرد و عورتیں چکوٹی کی جانب رواں دواں تھے۔ دومیل سے لائن آف کنٹرول کی طرف سفرکریں تو دریائے جہلم ساتھ ساتھ بہتا ہوا سرینگر تک جاتا ہے۔یہ بڑی تاریخی شاہرا ہ ہے۔بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی تقسیم ِہندسے پہلے اسی راستے سے سفر کیا تھا۔اور یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے بین الاقوامی شاعر فیض احمد فیضؔ کی شادی سرینگر میں ہوئی تھی۔اور نکاح اس وقت کے شیرِ کشمیر شیخ عبداللہ نے پڑھایا تھا۔ یہ ایک ایسا تاریخی راستہ تھا جہاں برسوں نہیں صدیوں سے اِس طرف اوراُس طرف کے کشمیری ہی نہیں بلکہ برصغیر پاک و ہند کے لوگ اس حسین پر کشش وادی کے موسم اور حسین جھیلوں کا نظارہ کرنے چھٹیوں کے دنوں میں خاص طور پر آتے تھے۔ چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوںکہ دوستی بس سے پہلے 2004ء میں مشرف صاحب کی ٹریک ٹو پالیسی کے سبب مجھے بھی سرینگر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔مگر لاہورسے امرتسر،امرتسر سے جموں اور جموں سے سرینگر ہم 72گھنٹے میں پہنچے تھے۔2005ء کی دوستی بس سروس کے بعد مجھے 2008ء کا بھی وہ سفر یاد آرہا ہے جو پہلی بار دونوں جانب سے دوطرفہ تجارتی راستہ کھلا تھا۔ جمعے کی خنک صبح میں جب ہم لائن آف کنٹرول کی طرف روانہ ہوئے تو معمول کے مطابق دریا بھی رواں دواں تھا ،ٹریفک بھی معمول کے مطابق تھا۔ چکوٹی سے پہلے جتنے بھی چھوٹے بڑے گاؤں نظر آئے وہاں زندگی رواں تھی کیونکہ میرا خیال تھا کہ کہیں لائن آف کنٹرول کی کشیدہ صورتحال کے سبب اطراف کے لوگ اپنا گھربار اور کاروبا ر چھوڑ کر مظفر آباد شہر میں نہ منتقل ہوگئے ہوں۔ لائن آف کنٹرول پر موجود فوجی افسران کی بریفنگ میں یہ سن کرمعلومات میں اضافہ ہوا کہ جہاں لائن آف کنٹرول ہے اُسکے آگے بائیں ہاتھ پرپاکستانی اور بھارتی فوجی چوکیاںآمنے سامنے ہیں ۔اُس کے درمیان ایک خاصی تعدادمیں مقامی لوگ بھی صدیوں سے رہائش پذیر ہیں۔ فوجی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کی تواتر سے ہونے والی گولہ باری سے صرف یہی مقامی آبادی متاثر نہیں ہوتی، بلکہ اُن کی گولہ باری میلوں دور ہٹیاں بالا تک جاتی ہیں،جو لائن آف کنٹرول سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جوابی گولہ باری سے اس لئے گُریز کرتے ہیں کہ اِس سے مقبوضہ کشمیرمیں رہائشی ہمارے مسلمان کشمیری بھائی ہی نشانہ بنیں گے۔ لائن آف کنٹرول سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر ہمیںان چھوٹے چھوٹے گھروں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جہاں نسل در نسل سے مقامی لوگ رہائش پذیر ہیں۔چکوٹی کے سیکنڈری اسکول میں پڑھانے والی ایک ٹیچر بتانے لگیں کہ اُن کے بچوں نے گولہ باری اور دھماکوں میں آنکھ کھولی ہے ۔اورآپ نے تو دیکھا ہوگا کہ ہمارے گھر کے ساتھ بنکر بھی ہیں۔ جہاں زیادہ گولہ باری ہونے کے بعد ہم بعض اوقات ساری رات اُس میں گزار دیتے ہیں۔یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور بوڑھے مردوں اور خواتین کی جرأت کو داد دینی پڑی کہ وہ کتنے کٹھن حالات میں نہ صرف یہاں موجود ہیںبلکہ جوش و جذبے سے سرشار ہیں۔ بارہ،چودہ سال کے اسکول جانے والے بچے نہ صرف برہان وانی کے نام سے واقف تھے بلکہ پُر جوش انداز میں کہہ رہے تھے کہ اگر ہمارا بس چلے تو ہم بھی لائن آف کنٹرول کراس کرکے شہیدبرہان وانی کی بریگیڈ میں شامل ہوجائیں۔ لائن آف کنٹرول سے واپسی پر آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان سے تازہ ترین صورتحال پر گفتگو ہوئی۔اُن کا کہناتھا کہ مودی کے آرٹیکل 370کے اقدام نے ایک طویل عرصے بعد ساری دنیامیں بھارت کا مکروہ اور سفاک چہرہ دکھا دیا ہے۔ سلامتی کونسل کے 16اگست کو ہونے والے اجلاس کے حوالے سے جب میں نے سوال کیا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی بہت نتیجہ خیز نہیں ہوا، تو اُن کا کہنا تھا کہ پچاس سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مسئلہ کشمیر پر دس غیر مستقل اور پانچ مستقل ممبران نے یہ بات تسلیم کی کہ کشمیر ایک ایسا متنازعہ مسئلہ ہے جسے حل ہونا ہے۔ورنہ اس سے قبل کبھی امریکہ اور کبھی روس اسے ’’ویٹو‘‘ کردیا کرتے تھے۔ انٹرنیشنل میڈیابھی سرینگر میں جاری کرفیو کے حوالے سے جو کوریج دے رہا ہے ،وہ بھی بہت غیر معمولی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا ستمبرمیں ہونے والا اجلاس انتہائی ہنگامہ خیز ہوگا۔کیونکہ بھارت کو اپنا چہرہ چھپانا مشکل ہوجائے گا۔ (جاری ہے)