کب کہا ہے مجھے خدائی دے اے خدا خود سے آشنائی دے میں محمد کا ماننے والا کربلا تک مجھے رسائی دے کریں تو کیا کریں زمانے کی آلائشیں اور آرائش پینڈا کھوٹا کر دیتی ہیں ایک الجھن تو ہے کہ شور باہر کا کم نہیں ہوتا بات اندر کی کیا سنائی دے۔ یہ درویشی کی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مقام سب کو کہاں ملتا ہے کہ بادشاہ وقت کی نوازشات سے مرعوب ہونے کی بجائے اسے دھوپ چھوڑنے کو کہے یہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی اور یک رنگی ہے یہ اور ہی دنیا ہے جہاں امام حنبل جیسے برگزیدہ و چنیدہ اورننگے پیر چلنے والے مجذوب بشر حافی کی قدم بوسی کریں یہ بھی سب کہاں عرفان رکھتے ہیں کہ کون عارف باللہ ہے۔ بس یہ مقام ہے جو، ولی را ولی می شنا سد، والی بات سمجھاتا ہے کہ جہاں اقبال کے پیغام پر کہ، کیا آپ کو گناہ سے نفرت ہے یا گناہگار سے، اٹھ کر حضرت شیر محمد کی طرح خود چل کر انہیں گلے لگاتا ہے: ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی میرے معزز قارئین !آج میں آپ کو لطافت واردا ت کی ایک محفل میں لے کر جانا چاہتا ہوں بعض اوقات ایسا خوشگوار اتفاق ہو جاتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے انسان کے کچھ لمحے چمک اٹھتے ہیں یا مہک جاتے ہیں۔ خوش گوار تاثر اور تاثیر رکھنے والے یہ لمحے آپ کے لئے سرمایہ حیا ت ہوتے ہیں۔ہوا یہ کہ میرا سب سے چھوٹا بھائی سید احسان اللہ شاہ میرے گھر آیا اور خوشی میں سرشار نظر آ رہا تھا اور پھر ایک ہی سانس میں بہت کچھ بتا گیا کہ اللہ کے فضل سے سلسلہ چشتیہ ،قادریہ،نقشبندیہ، سہروردیہ میں اسے عزت بخشی گئی کہ بطور خلیفہ ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ اس نے اصرار کیا کہ میں بھی اس محفل میں ساتھ چلوں ۔مجھے ترغیب دینے کے لئے یا راغب کرنے کے لئے بتایا کہ وہاں گلوکار ابرار الحق اور جواد وسیم بھی آ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ سید احسان اللہ شاہ نے گھر سے مجھے اٹھایا تو باقی کے نو،دس گھنٹے ان لوگوں کے ساتھ ہی گزرے۔ پتہ چلا کہ پہلے تو ایک جگہ اسی حلقہ کے مریدین اکٹھے ہوئے۔ سب سے پہلے شیخ الحدیث، پیر شریعت و طریقت اور امیر ختم نبوت حضرت مفتی محمد حسن کو رائے ونڈ سے لینا تھا کہ تقریب سعید میں انہی کا خطاب تھا اور دعا تھی۔زکریا بشیر صاحب‘ سید احسان اللہ شاہ اور میں رائے ونڈ کے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں حضرت مفتی محمد حسن صاحب کے پاس دعائیں کروانے والے اور زیارت کرنے والے آئے بیٹھے تھے ،ہم ان سائلین کے ساتھ قالین پر جا بیٹھے، دیر تک حضرت کو گفتگو اور ذکر ازکار کرتے اور سوالوں کے جواب دیتے یا مشورہ دیتے دیکھتے رہے، ایک احساس برکت اور آسودگی کا تھا۔ ان کے منہ سے دعائیں گلاب بن بن کر مہک رہی تھیں، ہماری اقدار و روایات کی وہ نشانی محسوس ہوئے سادگی عجزو انکسار کے پیکر: گر سکھا دیں گے بادشاہی کا ہم فقیروں سے دوستی کر لو بس سادہ اور سلیس زبان میں اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں ریا کاری نمود و نمائش سے کوسوں دور اپنے ہجرے کو مسائل اور مجبوریوں میں گھرے لوگوں کے لئے پناہ گاہ بناتے ہوئے، تقریب کی جگہ پہنچے تو مفتی محمد حسن صاحب کو پہلے ایک کوٹھی میں کھانے کے لئے ٹھہرایا گیا لوگ تو ان سے ہاتھ ملانے اور زیارت کے لئے ٹوٹ پڑے۔ منتظمین منع کرتے رہے مگر حضرت کہتے آنے دیں اور وہ سب کو عزت و محبت سے نوازتے تھے میں چونکہ بالکل ان کے ساتھ ہی جگہ پائے ہوئے تھا میں ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ جناب مجھے تو اسے ہی لگتا ہے جیسے اظہار شاہین نے آپ ہی کے لئے کہا تھا: تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے وہ مسکرائے دعائیں دینے لگے کچھ دیر بعد ہم دو چار لوگ ہی رہ گئے ۔کھانا سادہ سا ان کے لئے آیا۔ انہوں نے ایک بوٹی توڑ کر بانٹی تو میں نے کہا کہ مجھے توآپ اپنے ہاتھ سے کھلائیں۔ انہوں نے کمال شفقت سے لقمہ میرے منہ میں ڈالا۔ دیکھنے والے دور سے پھر آ گئے اور یہ سلسلہ بھی چل نکلا خود انہوں نے بہت ہی معمولی کھایا کھانے پر اصرار کیا تو کہنے لگے بزرگ کہتے تھے فقیر بیس گھروں کا مہمان بھی ہو تو بھوکا رہتا ہے۔ مجھے سعدی یاد آئے کہ کہتے تھے کہ بادشاہ ایک سلطنت پر بی راضی نہیں ہوتے دس درویش ایک نان پر قناعت کر لیتے ہیں، تھوڑی دیر بعد جواد وسیم آ گئے وہ بھی تبلیغ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی بات پر حضرت کو ایک شعر سنایا تو میں نے انہیں بتایا کہ یہ حنا تیموری کا شعر ہے: کہتے ہیں لوگ تجھ کو مسیحا مگر یہاں اک شخص مر گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد بہت اچھا لگا کہ مفتی محمد حسن صاحب کی اتنی صحبت نصیب ہوئی کئی شہروں سے لوگ قدم بوسی اور زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ سٹیج نہات عمدہ انداز میں سجایا گیا تھا۔ اصل میں کچھ روز قبل احسان اللہ شاہ کی دستار بندی ہو چکی تھی اور جناب زکریا صاحب کو بھی ذمہ داریاں تفویض کی جا چکی تھیں۔ خالد صاحب کمپیرنگ فرما رہے تھے اتنی دیر میں ابرار الحق بھی آ گئے انہوں نے بہت ہی پیارے انداز میں وہ نعت سنائی جو آج کل وائرل ہے ۔یہ اچھا لگا کہ آقا ﷺ سے والہانہ عقیدت ان کی کہ در پر حاضری کے لئے باریش ہو گئے۔ کہ باریابی کے لئے یہ امر ضروری تھا۔ مفتی صاحب کے خطاب میں بار بار سبحان اللہ کا کثرت سے تکرار۔ مجھے معاً مولانا عبداللہ درخواستی یاد آ گئے کہ وہ اپنی تقریر میں کئی کئی بار لوگوں سے سبحان اللہ کہلواتے۔ بڑے پیارے لگتے جب کہتے سب کہہ دو سبحان اللہ۔ انہوں نے ایمان اور یقین کی بات کی کہ یہی بنیاد ہے کہنے لگے نہ کسی نے کہا کہ تمہیں کیسے دوسری دنیا کا یقین ہے جواب دینے والے نے کہا کہ آنکھوں دیکھا یقین تو اور ہے مگر جس نے آنکھیں دی ہیں۔ اس پر دیکھنے سے بھی زیادہ یقین ہے۔وہ مجمع میں بیٹھے لوگوں کو ان کے ہونے کا یقین دلا رہے تھے پیار سے بزرگوں کو مخاطب کرتے ہوئے نام پوچھتے۔ بچوں کو کھڑا کر کے سوال کرتے یہ ایک تعلق اور اس کی بات ہے۔ ایک بچے سے پوچھا کہ اس کا گھر کہاں ہے بچے نے کہا ادھر ہی سامنے آپ کہنے لگے یہ تو اچھا جواب نہیں۔ بچے نے دوسری مرتبہ پوچھنے پر کہ گھر کہاں ہے ؟ کہا جنت میں!! وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں بہت رات ڈھل چکی تھی بڑی مشکل سے مفتی صاحب کو گاڑی تک لایا گیا۔ ہجوم راستہ کب دیتا ہے۔ پھر لوگ گاڑی کے ساتھ بھی بھاگتے ہیں کہ زیارت کر لیں یا مصافحہ کر لیں۔ ہم مفتی صاحب کو رائے ونڈ چھوڑ کر رات 3بجے کے قریب یعنی اگلے روز واپس آئے حافظ شیرازی کے شعر کے ساتھ اجازت: آنا نکہ خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود کہ گوشۂ چشم بما کنند