بنوں کا وہ ویڈیو کلپ جس میں ایک کتے کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے، بہت سے لوگوں نے دیکھی ہے لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی نظر سے یہ نہیں گزری اور اچھا ہی ہے، ایک خواہ مخواہ کی اذیت سے بچ گئے۔ ویڈیو میں ایک کتے کو تحریک انصاف کا پرچم اوڑھا کر ایک درخت سے باندھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ وہ سہما ہوا نظر آ رہا ہے۔ کتا ذہین جانور ہے۔ قاتلوں کے تیور سے بھانپ گیا ہو گا کہ اس کا برا وقت آ پہنچا۔ قاتل کسی قومی وطن پارٹی کے کارکن ہیں۔ پشتو زبان میں کچھ گالیاں دیتے ہیں، پھر یکے بعد دیگرے ذرا ذرا سے وقفوں کے ساتھ کتے پر تین گولیاں داغتے ہیں۔ ننھا منا سا جانور ناقابل تصور اذیت سے تڑپتا اور بھیانک چیخوں کے ساتھ روتا ہے۔ تیسری گولی پر اس کا جسم تشنج میں چلا جاتا ہے، وہ چیخنے کے قابل نہیں رہتا لیکن اس کا تڑپنا بتا رہا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہے۔ سر پر گولی نہیں ماری کہ دم جلد نکل جاتا۔ پولیس نے دونوں شیطان زادوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ ایک کا نام عمر گلیشر اور دوسرے کا نصیراللہ ہے۔ چند دن جیل میں رہیں گے پھر چھوٹ جائیں گے۔ جانوروں کا ’’قصاص‘‘ تو ایسی شے ہے جسے سوچنا ہی حماقت کی دلیل ہے۔ بہرحال، ملکی سیاست میں طرح نو ایجاد ہوئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اتفاق سے کتا اور گدھا ایسے جانور ہیں جو اس کرہ ارض پر پائے جانے والے سب جانوروں میں مظلوم ترین ہیں۔ اشرف المخلوقات کے ہاتھوں دنیا کا کوئی جانور محفوظ نہیں، کیا سمندر، کیا صحرا، کیا فضائے بسیط، ہر جاندار اس کی بندوق پستول کی زد میں ہے لیکن یہ دو جانور اس صبر و قدر کے ساتھ کہ انسانی آبادیوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں، اس کے ظلم کا سب سے زیادہ ہدف بنتے ہیں۔ ان جانوروں کا ذکر زبان و ادب کے تمام لٹریچر میں تحقیر سے کیا جاتا ہے اور دونوں کے نام گالی کے مترادف بنا دیئے گئے ہیں، یہاں تک کہ مذہبی سکالرز نے بھی ان کی مذمت ہی کی ہے، بے دلیل اور بے جواز۔ مولانا مودیؒ کے علم اور دانش کا زمانہ اقراری ہے۔ ان کی تفسیر تفہیم القرآن نے جو مقام پایا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن پتہ نہیں، سورۃ الاعراف کی آیت ’’اِنْ تحمل عَلَیْہ یَلْحَثْ۔۔۔الخ‘‘ کی تفسیر میں انہوں نے کتے کی بے وجہ شدید مذمت کی ہے۔ آیت قرآنی میں کتے کی ایک عمومی فضیلت کہ اسے مارو یا چھوڑدو، اس کی زبان لٹکتی رہتی ہے۔ مولانا ؒ نے اپنے تفسیری حاشیے میں کتے کی جامع مذمت کرتے ہوئے اس کی سب سے بڑی برائی یہ بیان کی ہے کہ وہ بہت لالچی ہوتا ہے، اس کی ناک دن بھر زمین کے ساتھ لگی رہتی ہے کہ کہیں کچھ کھانے کو مل جائے۔ مولانا کا دینی علم بھی بے پناہ تھا اور ان کا موٹیو سانئٹیفک مطالعہ بھی بہت وسیع اور گہرا تھا۔ اسے دیکھ کر قدرے حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایسا فقرہ لکھا۔ گلی محلوں میں کتوں کے لیے ڈنر ٹیبل لگے ہوتے ہیں نہ ہی کوئی کا دستر خوان سجا ہوتا ہے۔ وہ گلی کوچوں میں دن بھر اور رات گئے تک ناک گھسیٹتا ہے پھر بھی اسے اتنا کھانا بھی بمشکل ملتا ہے جو اس کی روزانہ کی ضرورت کا ایک تہائی بلکہ چوتھائی بھی پورا کرسکے۔ کیا خیال ہے، گلی کوچوں میں کتنی چیزیں پڑی ہوتی ہیں جن سے وہ پیٹ بھر سکے۔ ناک گھسیٹنا، زبان لٹکانے کی طرح اس کی مستقل جبلت یا عادت نہیں۔ جو کتے پالتو ہوتے ہیں اور جنہیں وقت پر سیر حاصل کھانا مل جاتا ہے، انہیں کبھی کسی نے ناک گھسیٹتے نہیں دیکھا۔ کھانے کی تلاش میں ہمہ وقت بھٹکتے کتے عمر طبعی نہیں پاتے۔ کچھ بھوک سے مر جاتے ہیں کچھ گاڑی کے نیچے آ کر۔ انسانی آبادیوں میں پائے جانے والے جانور بھی انسانوں کی طرح دو طبقات میں ہیں۔ ایک مراعات یافتہ یعنی پالتو، دوسرے گلیوں میں پھرنے والے آوارے، ذلتوں کے مارے اور دھتکارے ہوئے۔ ان میں سے کسی کو پیار سے کھانا کھلائیں، جو اب میں اس کی شکر گزاری آپ کو حیران بلکہ شرمندہ کردے گی۔ کتا نہایت حساس جانور ہے لیکن اسی تناسب سے صبر و قناعت کا پیکر بھی۔ صوفیائے کرام نے کتے کا ذکر جس استعارے میں کیا ہے، وہ ذلت اور رسوائی کا اشارہ نہیں بلکہ تشکر، صبر، استغنیٰ اور راضی برضا ہونے کی علامت ہے۔ نیز وفاداری اور تابعداری کی بھی۔ ٭٭٭٭٭ کتوں پر سب سے زیادہ ظلم چین، جاپان، کوریا (دونوں) ویتنام اور ملحقہ زرد نسل کے ممالک میں ہوتا ہے۔ ہرسال کروڑوں کتے یہاں قتل کر کے کھائے جاتے ہیں۔ کتے کو خوراک کے لیے قتل کرنا اتنا بڑا ظلم نہیں جتنا بڑا ظلم اس کیفیت میں ہے جس میں انہیں قتل کیا جاتا ہے ۔ایک باڑے میں ہزاروں کتے تنگ دڑبوں (دھاگے اور رسی سے بنے ہوئے خانوں) میں بندھے ہوتے ہیں، دن رات ان کے سامنے ان کے ساتھی کتے ذبح کئے جاتے ہیں۔ باقی سب پر کیا گزرتی ہو گی۔ یہ تو ایک بات ہوئی، دوسری بات زرد اقوام کا انوکھا فلسفہ ہے۔ ان کا یقین ہے کہ جانور مرتے وقت جتنا زیادہ اور جتنی دیر تڑپے گا، اس کاگوشت کھانے میں اتنا ہی مزدار ہوگا۔ چنانچہ طرح طرح کی تدبیر سے انہیں ہلاک کیا جاتا ہے۔ ایک تدبیر یہ ہے کہ زندہ کی کھال اتار دو، آدھا گھنٹہ اسی میں لگ جاتا ہے۔ کھال اترنے کے بعد بھی کتا زندہ رہتا ہے، پھر اسے ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پانی کا دجہ حرارت ایسا ہوتا ہے کہ وہ فوراً پھر بھی نہیں مرتا۔ درجنوں طریقے ہیں، ہر ایک کولکھنا بھی باعث اذیت اور پڑھنا بھی تکلیف دہ ہے۔ چینی ڈاکومنٹری San Hua میں ایک بلی کو رسی سے ٹانگ دیتے ہیں۔ وہ تڑپتی ہے۔ ایک آدمی بڑی قینچی لا کر اس کی ٹانگ کاٹ دیتا ہے اور کئی منٹ کے خوفناک منظر کے بعد اس قینچی سے اس کی گردن الگ کردیتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں بھی کتوں پر بے پناہ مظالم ہوتے ہیں۔ آوارہ کتوں کو شیلٹر میں بند کردیتے ہیں۔ کچھ دن رکھتے ہیں کہ کوئی پالتو بنانے کے لیے ان میں سے کسی کو لے جائے۔ مقررہ دنوں کے بعد انہیں بڑے ڈبوں میں بند کر کے کیمیائی گیس ڈال کر اسے گیس جیمبر بنا دیتے ہیں۔ یہ سستی گیس ہوتی ہے، اور ایک کتا آدھا گھنٹہ تڑپ کر مرتا ہے۔ پالتو کتوں کے ساتھ دھرا ظلم ہوتا ہے۔ وہ اپنے مالکوں کے گھروں میں راجہ بن کر رہتے ہیں۔ بچوں کو بہلاتے ہیں، عمدہ اور بڑھیا کھانا کھاتے ہیں، اچھے بچھونوں پر سوتے ہیں، ان کے کھیلنے کو طرح طرح کے کھلونے ہوتے ہیں۔ پھر ایک دن مالک کا ان سے دل بھر جاتا ہے، وہ انہیں انہی شیلٹرز میں دے آتے ہیں۔ میرے گھر میں راج کرنے والا کتا خود کو چند فٹ کے تنگ پنجرے میں اچانک پاتا ہے تو کئی روز تک تو اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ پھر ایک دن اسے گیس چیمبرز میں لے جانے کی باری آ جاتی ہے۔ کئی بے رحم مالک شیلٹرز میں بھی نہیں جاتے، گاڑی میں بٹھاتے ہیں اور کسی جنگل ویرانے میں پھینک آتے ہیں۔ یہ کتے خود شکار کر کے کھانے کے قابل نہیں ہوتے اور جنگلوں میں پڑا پڑایا کھانا نہیں ملتا۔ بھوکے پیاسے مر جاتے ہیں۔ مالک انہیں چھوڑنے کے بعد نئے اور چھوٹی عمر کے پالتو جانور لے آتے ہیں۔ کتا کیسا وفادار جانور ہے۔ ایک مالک نے اپنا کتا دور لے جا کر کسی جنگل ویرانے میں نہیں، ایک سڑک کے کنارے چھوڑ دیا۔ وہ یہی سمجھتا رہا کہ مالک کسی کام سے گیا ہے، اسے لینے واپس ضرور آئے گا۔ پورے دو سال وہ سڑک کے کنارے اسی جگہ گرمی سردی اور بارش، ہر موسم میں موجود رہا اور انتظار کرتا رہا۔ راہگیر اسے کھانے کو کچھ دے دیتے۔ قسمت اچھی تھی۔ کسی کوترس آیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ کتے کی ذہانت کے بارے میں بھی شاید کسی دن کوئی تحریر ہو جائے گی۔ فی الوقت اشرف المخلوقات سے گزارش ہے کہ جانوروں کے بارے میں اپنی سوچ بدلیں، ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا اور یہ کہ کرو مہربانی تم اہل زمین پر، خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر۔ ہمارے مذہب میں یہ تو ہے کہ کتے کو گھر کے اندر نہ لائو (بوجہ Rabies جو کتے، بھیڑے، لومڑی، گیدڑ اور لکڑ بھگوں یعنی اس گھرانے کے سبھی جانوروں میں ہو جاتا ہے) لیکن یہ کہیں نہیں ہے کہ اس کا وجود ہی برداشت نہ کرو۔