اگر انسانی نفسیات کا مناسب سا شعور میسر ہو تو بچوں کی تربیت ذرا بھی مشکل کام نہیں، بلکہ یہ وہ دلچسپ ترین مشغلہ ہے جس کا لطف آپ ہی نہیں آپ کے بچے بھی لے سکتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھ لیجئے کہ عربی زبان کا مقولہ ہے ’’ الانسان حریص فی ما منع‘‘ یعنی انسان اس چیز کا حریص ہوتا ہے جس سے اسے روک دیا جائے۔ یہ مقولہ انسانی نفسیات کی ایک اہم حقیقت کو بہت سادگی کے ساتھ عیاں کر رہا ہے۔ اسی نفسیاتی اصول کا استعمال کرتے ہوئے سالوں قبل ایک روز میں گھر میں داخل ہوا تو میرے ہاتھ میں شیشے کا ایک چھوٹا سا جار تھا جس میں بیری کا شہد تھا۔ میرے بچوں نے اس جار کو بغور دیکھا اور پوچھا، یہ کیا ہے ؟ میں نے کامل سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا، یہ تھوڑا سا شہد ہے جو میں اپنے لئے لایا ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ اس کا کرتے کیا ہیں ؟ میں نے بتایا کہ اسے کھایا جاتا ہے۔ اگلا سوال ان کی جانب سے آیا، کیا یہ میٹھا ہوتا ہے ؟ عرض کیا دنیا میں اس سے میٹھی کوئی چیز نہیں۔ یہ کہہ کر چھوٹی چمچی سے دونوں کو تھوڑا سا کھلایا تو ان کی تو آنکھیں چمک اٹھیں۔ ابھی وہ اس معمولی سی خوراک کا پورا لطف بھی نہ لے پائے تھے کہ عرض کیا، یہ آپ لوگوں کے لئے نہیں ہے، یہ میں اپنے لئے لایا ہوں۔ یہ سن کر وہ سیدھا ماں کے پاس پہنچے اور پوچھا، اتنی زبردست چیز صرف ابو ہی کیوں کھائیں گے ؟ ماں نے جواب دیا، شاید اس لئے کہ یہ زبردست چیز بہت تھوڑی ہے۔ ’’تو وہ زیادہ کیوں نہیں لائے ؟‘‘ یہ سن کر ان کی ماں نے کہا، یہ تو انہی سے جا کر پوچھ لو۔ وہ یہی سوال میرے پاس لائے تو میں نے کہا ، یہ روز کھانے والی چیز ہے، آپ لوگ نہیں کھا پاؤگے۔ کہنے لگے، ابھی کھایا تو ہے آپ کے سامنے، ہم تو کھا سکتے ہیں۔ عرض کیا، یہ تو صرف چکھایا ہے، کھایا تو یہ ناشتے میں جاتا ہے۔ کہنے لگے، تو ہم ناشتے میں کھا لیں گے ناں۔ میں نے پوچھا واقعی ؟ تو دونوں نے بہت پرجوش انداز سے سر ہلا دیا۔ یوں اگلے روز میں تین کلو شہد لے آیا۔ جانتے ہیں یہ سب کیا تھا ؟ یہ نفسیاتی کھیل تھا جو میں نے اپنے ان بچوں کے ساتھ اس مقصد کے لئے کھیلا کہ انہوں نے صبح کا ناشتہ ترک کردیا تھا جو طالب علم بچوں کا ایک عام مسئلہ ہے اور جو صحت کے لئے خطرناک بھی ہے کیونکہ ناشتہ لازمی خوراک ہے۔ اس ایک جملے نے نفسیاتی قاعدے کے عین مطابق ان میں اس کی طلب پیدا کردی اور یوں کبھی بھی پھر ایسا موقع نہ آیا کہ میرے بچے ناشتے کے بغیر سکول گئے ہوں۔ اب یہیں سے اولاد کی تربیت میں پیش آمادہ اس سنگین چیلنج کا حل بھی سمجھ لیجئے جسے ’’پابندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تقریباً ہر دوسرے گھر کا مسئلہ ہے کہ والدین بچوں پر پابندیاں عائد کرتے ہیں تو وہ مزاحمت اور پھر بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی کردار اسی نفسیاتی قاعدے کا ہے جو عربی مقولے میں بیان ہوا۔ آپ جس چیز سے بھی منع کریں گے بچہ اس میں کشش محسوس کرنے لگے گا۔ آغاز آپ یہاں سے کر سکتے ہیں کہ تین سے چار سال عمر والے بچے سے آپ پوچھئے کہ جو ٹھوس غذا وہ کھا رہا ہے، کیوں نہ اس میں سے تھوڑا سا اس کے شیر خوار بھائی یا بہن کو بھی کھلا دیا جائے ؟ بچہ اگر ذہین ہوا تو خود ہی آپ سے کہے گا کہ اس کے بھائی کے تو دانت ہی نہیں ہیں تو وہ یہ کیسے کھا سکتا ؟ آپ کا ردعمل یہ ہوسکتا ہے کہ ’’ارے ہاں ! مجھے تو خیال ہی نہ رہا کہ اس کے تو ابھی دانت ہی نہیں ہیں لھذا اسے تو چپس نہیں دینی چاہئے‘‘ اب یہی بات انہی ایام میں آپ نے کسی نہ کسی بہانے سے دہرانی ہے۔ مثلا کسی وقت آپ شیر خوار کے منہ کی جانب ٹھوس غذا بڑھا نے کی ایکٹنگ کر سکتے ہیں جس سے آپ کا چار سے پانچ سال کا بچہ خود آپ کو روکے گا۔ آپ کے اس تجربے کے ذریعے اس کے شعور و لاشعور دونوں تک اس حقیقت کا ادراک منتقل ہوگیا کہ شیر خواری کی عمر میں ٹھوس غذا ’’ممنوع‘‘ ہے اور اس لئے ممنوع ہے کہ یہ عمر اس کے لئے مناسب نہیں۔ اسی کی دوسری قسط کچھ عرصے بعد تین پہیوں اور دو پہیوں والی سائیکل کے لئے درکار عمروں کا فرق سمجھانا ہوگا جس کا موقع خود بخود پیدا ہوگا، آپ نے تو بس اس کا استعمال کرنا ہے۔ لیکن بچہ اصل چیلنج تو تب بنتا ہے جب وہ سات برس کی عمر کا بیریئر عبور کر جاتا ہے۔ اب وہ بچپن اور لڑکپن کے بفرزون میں ہے۔ اس عمر میں جب آپ اس سے پوچھیں گے کہ کیا شیر خوار بچے کو ٹھوس غذا دینا درست ہوگا ؟ تو اب اس کی دانش اسے بہت ہی پر یقین طور پر غلط بتائے گی۔ پھر آپ پوچھئے کہ کیا تین پہیوں والی سائیکل کی عمر میں دو پہیوں والی سائیکل بچے کو دینا درست ہوگا ؟ وہ یقین سے پر لہجے کے ساتھ اس اقدام کو بھی غلط بتائے گا۔ تب آپ پوچھئے کہ یہ غلط کیوں ہے ؟ تو خود بتائے گا کہ اس عمر میں وہ دو پہیوں والی سائیکل کیسے سنبھالے گا ؟ اس کے تو پیر ہی پیڈلز تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اب یہیں سے آپ نے سائیکل اور موٹر سائیکل کا فرق اور اس کے لئے درکار عمر کا فلسفہ اس کے سامنے بس رکھنا ہی ہے۔ قائل وہ خود ہوجائے گا۔ اسی قاعدے کے مطابق ہر معاملے میں آپ اسے بس قائل کرتے جائیں گے کہ فلاں کام یا فلاں چیز کے لئے درکار عمر ابھی آپ کی ہوئی نہیں سو اسی لئے وہ ابھی آپ کو میسر نہیں۔ اور یہ جو آج میسر نہیں وہ بہت جلد آپ کو میسر ہونے کو ہے۔ یہ معاملہ آگے بڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائے گا کہ ایک روز آپ کا تیرہ چودہ برس کا بچہ آپ سے اپنے ذاتی موبائل فون کا مطالبہ کر دے گا۔ آپ عمر کا ہی حوالہ دیں گے تو وہ کہے گا کہ اب تو میں بہت بڑا ہوگیا ہوں۔ تب آپ اسے اس دلچسپ حقیقت سے آگاہ کرسکتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں جو الیکشن ہوئے اس میں آپ سے تین تین برس بڑے لڑکوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ ووٹ ڈالنے کی ذمہ داری کے لئے درکار عمر اٹھارہ برس ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ چودہ برس کی عمر میں بڑے تو واقعی ہوگئے ہیں مگر ابھی آپ کو اور بھی بڑا ہونا ہے۔ ابھی آپ نے موبائل فون کی ذمہ داری ادا کرنے کی عمر تک پہنچنا ہے، اس کے دو سال بعد آپ نے ووٹ دینے کی ذمہ داری ادا کرنے کی عمر تک پہنچنا ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ الیکشن میں کھڑے ہونے کے لئے پچیس سال کی عمر درکار ہے ؟ یوں بچہ عمر کے ہر موڑ پر ذمہ داری اور اس کے لئے درکار عمر کا فلسفہ سمجھتا چلاجائے گا تو جسے پابندی سمجھا جاتا ہے وہ اسے پابندی لگے گی ہی نہیں۔ یقین جانئے وہ بہت جلد اس بات کا شعور حاصل کرجاتا ہے کہ اس پر کسی چیز کی پابندی نہیں، مسئلہ بس اتنا سا ہے کہ کچھ چیزوں کی ابھی اس کی عمر نہیں ہوئی۔ یہ تجربہ میں نے اپنے تین مختلف مزاج والے بچوں کے معاملے میں آزمایا ہے اور تینوں ہی بچوں میں نتائج اس قدر شاندار رہے ہیں کہ بلوغ کے بعد تو وہ خود ہی ’’ذمہ داری اور درکار عمر‘‘ کے فلسفے کے محافظ رہے ہیں۔