زیدایک پچیس سالہ نوخیز نوجوان تھا ۔معمول کی طرح وہ اتوار کی رات کو بھی اپنے کمرے میں سونے کیلئے گئے۔ صبح کوجب گھر والوںنے اسے جگانے کیلئے دروازے پرمتعدد بار دستک دی تو درواز نہ کھولا گیا یوں آخر کار جب دروزازہ توڑاگیا تو زید کی نعش پنکھے کے ساتھ لٹک رہی تھیـ‘‘ ۔بکر بھی ہمارے ہی معاشرے کا ایک پڑھا لکھا شخص تھا۔ایک دن ان کے کمرے سے گولیوں کی آواز آئی، جس پر، گھر والے فی الفور ان کمرے میں گئے ، دیکھا تو بکر عمر نے خود کو موت کی نیند سلا دیا تھا ــ‘‘۔ سترہ سالہ عمیر پتنگ اڑانے کے بہانے بالائی منزل کی چھت پر گئے ،لیکن پتنگ بازی کے بجائے اوپر سے چھلانگ لگا کر جاں بازی کو ترجیح دے کر ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سوگئے‘‘۔ تینتیس سالہ پری گل چند روز پہلے کالج سے گھر پہنچی اورکھانا کھانے کے بعد واش روم چلی گئی۔پری گل نے جب نکلنے میں کافی دیر لگائی تو گھر والوں نے دروازے نہ کھولنے پر توڑ ڈالا، اورچند گھنٹے پہلے ایک زندہ پری گل کی بے جاں نعش کو نکالا۔ پوسٹ مارٹم کے لیے اس کی نعش کوہسپتال لے جایا گیا تو انہیں بتایا گیا کہ زہریلی دوائی کھانے سے پری گل کی موت واقع ہوئی ہیــ‘‘۔ ہمارے معاشرے میں اس نوعیت کی روح فرسا خبروں کی بھرمار رہتی ہے۔ باالخصوص موجودہ ترقی یافتہ دور میں تو ایسے واقعات میں دن دگنی رات چگنا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے المناک واقعات پر ہمارا رد عمل ہر وقت یک طرفہ بلکہ منافقانہ رہتا ہے ۔بہت سے لوگ تو ایسی اموات کی خبر سن کر کلمہ ترجیع (انا للہ وانا الیہ راجعون) تک پڑھنے کی زحمت بھی نہیں فرماتے کیونکہ ان کے ہاں خودکشی کرنے والا سرے سے مسلمان ہی نہیں رہا ۔ اسی طرح میت کے لواحقین جب محلے کے پیش امام کو جنازہ پڑھوانے کیلئے بلاتے ہیں تو وہ جنازہ پڑھانے سے یا توصاف انکار کردتا ہے یا پھر آئیں بائیں شائیں کرنے کے بعد جنازہ پڑھوانے پر حامی بھر تاہے۔ تدفین کے بعدلواحقین سے تعزیت کرنے کیلئے لوگوں کی آمد بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہاں تک سنا ہے کہ خودکشی کرنے والا خواہ کتنا ہی پرہیز گار کیوں نہ ہو لیکن اس اقدام نے ان کی پورے اچھے اعمال پر پانی پھیر کراس کیلئے جہنم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اپنی پیاری زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں درگور کرنا زندگی کا سب مشکل ترین فیصلہ ہوتا ہے یوں ہمیں ایسے مشکل ترین فیصلوں کو سطحی لینے کے بجائے سنجیدہ لیناچاہیے۔ہم تصویر کے ایک رخ کو دیکھ کر فقط یہ حکم صادر کرتے ہیں کہ زید، عمر اور پری گل نے خودکشی کرکے حیوانیت کا ثبوت دے دیا، ایسے انتہائی اقدام کرنے کی کیا ضرورت تھی اوراب انہیں اخروی سزاووں کیلئے بھی خودکو تیارکرنا چاہیے۔جبکہ تصویر کے دوسرے رخ پر توجہ دینے کی سرے سے زحمت نہیں فرماتے کہ آخرنوجوان زید ،بکر، جمال اورتینتیس سالہ حسین پری گل نے آخر اس آپشن کو بہترین آپشن کیوں سمجھا؟ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے ان کواتنا مجبور کردیا کہ ان کے سامنے دنیا کی تمام تر لذتیں ماند پڑ گئیں اورانہوں نے موت ہی کو گلے لگانے میں عافیت سمجھی؟ہم زید، بکر اور پری گل پر تو دنیا جہاں کے فتوے لگا دیتے ہیں جبکہ ان لوگوں کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں جن کے سبب ہی نے زید، بکر اور پری گل کوفقط ایک ہی آپشن اپنانے پر مجبور کردیا تھا۔ بالفرض زید غربت کے ہاتھوں تنگ آئے تھے اور غربت ہی کی وجہ سے اس نے آخر کار خودکشی کی موت کو غنیمت جاں کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بظاہر خودکشی زید نے کی تھی لیکن حقیقت میں ان کے قتل کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو اس ملک میں ناجائز پیسہ کمانے کو جائز سمجھتے ہیں اور دولت کی منصفانہ تقسیم پر یقین نہیں رکھتے ۔ اسی طرح بکر کے سینے پر دراصل ان لوگوں نے گولی چلائی تھی جنہوں نے میرٹ پامالی ، اقربا پروری اور رشوت خوری کر کر کے بکر جیسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صرف اس وجہ سے کھڈے لائن لگایا دیا تھا کہ وہ میرٹ کے بجائے کسی دوسرے راستے کے ذریعے نوکری لینے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ ہے کوئی ایسا مولوی جس نے بکر کے قتل میں سہولت کاروںکا جنازہ پڑھوانے سے بھی انکار کیاہو؟ ہے کوئی منصف جو بکر کے معاشی قتل عام میںحصہ ڈالنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لے ؟ اسی طرح پری گل جس لڑے کے عشق میں مبتلا تھیں جو ان سے بنفس نفیس شادی کرنے پر رضامند بھی تھا، لیکن دونوں اطراف سے والدین نے ان کی پسند کی شادی نہیں ہونے دی۔ یوں تنگ آکر دل برداشتہ پری گل نے زہریلی دوا پینے کو ترجیح دے خود کو ہمیشہ کیلئے اس منافق معاشرے کے جبر سے آزاد کرلیا تھا۔ کیا خود کو اس طرح کے انجام سے دوچار کرنے میں پری گل کے والدین کچھ کم ذمہ دار ہونگے؟ چھ سال پہلے کے سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال دس ہزار افراد اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہی ہاتھوں کرتے ہیں جبکہ تین لاکھ کے قریب افراد اس انتہائی اقدام کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ریاستی سطح پر ایسے اقدامات کے تدارک کیلئے کوششیں کی جاتی ہے نہ ہی سماجی سطح پر۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس حوالے سے ہمارے علماء کرام بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اگرہمارے خطیب حضرات محراب ومنبر سے سماجی مسائل اور سماجی رویوں میں تبدیلی اور خودکشی کے بنیادی محرکات پر بولنا شروع کریں تو میرا یقین ہے کہ یہ بڑا موثر ثابت ہوگا۔ ٭٭٭٭٭