ابھی کچھ عرصہ پہلے تک یہ سوچنا محال تھا کہ کوئی ملتانی رات کو اپنے گھر میں آرام سے سوئے، صبح اٹھ کے فجرکی نماز پڑھے اور دس ساڑھے دس بجے لاہور کے اپنے صدر دفتر میں ہونے والی میٹنگ میں موجود ہووگرنہ ہوا یہی کرتا تھا کہ صبح 10بجے اگر میٹنگ یا پیشی ہے تو نصف شب کو ملتان سے رختِ سفر باندھا جائے۔کچھ مجھ ایسے سہل پسند اُس سے بھی پہلے سہہ پہر کو نکل کھڑے ہوتے کہ کسی سرائے میں شب بسری کر کے صبح سہولت سے دفتر پہنچا جاسکے۔ پتہ نہیں اب یہ دعا سی پیک کو دینی ہے یا گزرچکی کسی حکومت کو مگر دعا بنتی ضرور ہے۔ ملتان سے لاہور کا سفر فقط تین گھنٹے کا رہ گیا ہے۔ موٹروے سے پہلے، یہ دورانیہ ملتان سے ساہیوال کا تھا جو ان دو تاریخی شہروں کے عین درمیان سر رابرٹ منٹگمری نے اٹھارہ سو پینسٹھ میں بسایا تھا۔ دنیاوی اور روحانی مملکتوں کے بادشاہوں، ہنرمندوں ، فن کاروں، پھولوں، باغوں اور وقت کے حکمرانوں کے شہر لاہور کو ہم ایسے مضافاتی تب رُخ کیاکرتے ہیں جب کوئی میٹنگ ہو یا پیشی۔ رواں ہفتے کے پہلے ہی روز مجھے جس کام سے لاہور جانا پڑا۔ وہ میٹنگ تھی اور پیشی بھی۔ گویا ٹواِن وَن۔ صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھا۔ شیو کرنے ، تیار ہونے اور چائے کا کپ پینے میں نصف گھنٹہ صرف ہوگیا۔ چھ بجے اللہ کا نام لے کر گاڑی سٹارٹ کی اور نو بج کر دس منٹ پر گلشنِ راوی کی مون مارکیٹ میں بیٹھے ناشتہ کررہے تھے۔ گاڑی بھی کوئی طوفانی رفتار سے نہیں چلائی۔ موٹروے کی حدرفتار ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جب کہ ہماری رفتار ایک سو دس سے اوپر نہیں گئی۔ گویا حد رفتار سے بھی دس کلومیٹرفی گھنٹہ کم۔ اس موٹروے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بابو صابو اور ٹھوکر نیاز بیگ تک اطمینان سے پہنچادیتی ہے۔ جی ٹی روڈ کا عالم تو یہ تھا کہ جتنا وقت ملتان سے پتوکی کا لگتا،قریب اُتنا ہی پتوکی سے ٹھوکر نیازبیگ پہنچنے میں لگ جایا کرتا تھا۔ بڑے شہروں کی داخلی /خارجی راستوں پر سڑک کے کنارے کنارے آبادی دور تک کسی لنگور کی دُم کی طرح چلی جایا کرتی ہے۔ ملتان روڈ پر لاہور کی یہ دُم بھائی پھیرو بلکہ اُس سے بھی آگے پتوکی تک دراز ہے۔ ایم فور یعنی لاہور ملتان موٹروے کو کھلے سال بھر ہونے والا ہے۔ اب تو خیر ملتان سے آگے سکھر تک موٹروے کھل گئی ہے مگر یہ فورلین ہے جب کہ ایم فور چھ لین موٹروے ہے۔ ایم فور پر آٹھ انٹر چینج ہیں، تین سروس ایریاز، آٹھ پل، تین پل ریلوے لائن کے، چونتیس پل نہروں کے، ساٹھ انڈر پاس، مویشیوں کے لئے دوسو ایک گزرگاہیں اور سات سو پانچ محرابی راستے کھالوں وغیرہ کے لئے بنے ہیں۔ بظاہر سڑک کے دونوں جانب لوہے کی جالی بھی لگی ہے۔ سڑک کے آر پار جانے کے اتنے سارے راستے ہونے کے باوجود آپ کو دورانِ سفر زندہ اور مردہ، دونوں حالتوںمیں کتے اس موٹروے پر نظر آئیں گے۔ وہ جو مرے پڑے ہیں اور جن کی لاشوں کے چیتھڑے بسیں، ٹرک اور گاڑیا ں اڑا رہے ہیں۔ وہ بھی ظاہر ہے جب موٹروے پر چہل قدمی کو تشریف لائے ہوں گے تو زندہ حالت میں ہوں گے۔ کوئی ناہنجار گاڑی، بس یا ٹرک اُن کی خوش خرامی میں مخل ہوا ہوگا جس کی گستاخی کی بناء پر کتے کو اسبابِ زندگی سمیٹ کر لاش کی صورت اختیار کرنی پڑی۔ جابہ جا سیاہ سٹرک پر ٹائروں کے گھسٹنے کے سیاہ تر نشانات دور تک چلے گئے ہیں۔ بعض نشان درمیانی لین سے ہو کر ڈیوائیڈر کی طرف گئے ہیں اور پھر ڈیوائیڈر کی دیوار پر، اِک ذرا تبدیل رنگت کے ساتھ گھسائی کے نشان ہیں۔ ظاہر ہے سیر کو موٹروے پر آئے ہوئے کتے کو بچاتے ہوئے کسی گاڑی نے ایمرجنسی بریک آزمائی ہوگی اور سٹیئرنگ بھی موڑا ہوگا تو گاڑی اپنے ٹائروں پر گھسٹتی ہوئی ڈیوائیڈر سے جاٹکرائی ہوگی۔ گاڑیاں اور سوار زخمی ہو کر کبھی کتے کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہوں گے لیکن کبھی کتابھی زد میں آجاتا ہوگا۔ جا بہ جا پڑی لاشیں پچھلے جملے کے نصف آخر کی تائید کرتی ہیں۔ لاہور ملتان موٹروے پر ہم نے یہ لاشیں مختلف حالتوں میں دیکھیں۔ ثابت کتے سے لے کر رفتہ رفتہ حجم کم کرتا اور سڑک کا پیوند بنتا ہوا کتا۔ گویا اگراپنی اور موٹرسوار کی شامتِ اعمال کے باعث کوئی کتا لاش میں تبدیل ہوگیا ہے تو اُس کو موٹروے سے ہٹانے کا کوئی ریت رواج کم از کم ایم فور کے کلچر کا حصہ نہیں ہے۔البتہ گردو نواح کے کوے موٹروے انتظامیہ سے اِک ذرا زیادہ صفائی پسند ہیں کہ انہیں لاشوں کے گرد غول در غول اترتے دیکھا جو اس غلاظت کو کھا کھا کر سڑک صاف کر نے کی ڈیوٹی پر مامور تھے۔ جب سورج انگڑائیاں لیتا مشرق سے اٹھ رہا تھا تو ہم نے موٹروے کے کنارے، چند لوگ مارننگ واک کا لطف اٹھاتے بھی دیکھے۔ خانیوال سے عبدالحکیم سیکشن پر تو دن بھر آپ کو یار لوگ گھومتے نظر آئیں گے۔ جالیاں کٹی ہیں اور راستے بنے ہیں۔ موٹروے پولیس کا گشت ایم تھری وغیرہ کے مقابلہ میں نہ ہونے برابر ہے۔ سروس ایریاز میں بھی سب کچھ موجود ہے سوائے سروس کے۔ عمارات بنی ہیں مگر ویران۔ اب ایک آدھ سٹور کسی ایک سروس ایریا میں کھل گیا ہے، باقی رہے نام اللہ کا۔ ریسٹ ایریاز تو باقاعدہ رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کئے ہوئے ہیں۔ اس میں خدا جانے کیا راز ہے۔ ایک موقع ایسا آیا کہ غنودگی کا غلبہ ہونے لگا اور دل چاہا کہ کسی ریسٹ ایریا میں گاڑی روک کر ذرا آنکھیں موند لی جائیں مگر ان تک جانے کا راستہ نہ تھا۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کو بہرحال حل ہونا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ذرا جلدی ان کی طرف توجہ دے دی جائے۔ آوارہ کتوں کا موٹروے پر گھومنا مسافروں کے لئے بہرطور خطرناک ہے اور جو موٹروے پر سفر کررہا ہے، اس کو چائے پانی کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے، اس کا پیٹرول بھی ختم ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود ہماری عام ہائی ویزکا جو کلچر ہے کہ سائیکل ، گدھا گاڑی سے لے کر ٹرالر تک اور گائے بھینس سے لے کر پیدل انسان تک سبھی ایک ہی سڑک پر برابر تصرف کے ساتھ سفر کرتے ہیں، ان کے مقابلہ میں موٹروے اِ ک نعمت سے کم نہیں جہاں ذہنی یک سوئی اور سکون کے ساتھ آپ گاڑی چلاسکتے ہیں۔