معزز قارئین!۔ کل (13 رجب اُلمرجب /21 مارچ کو ) پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے عقیدت و احترام سے ’’باب اُلعِلم‘‘ حضرت علی علیہ السلام کا یوم ولادت منایا ۔ نجف ؔ ۔ عراق کا ایک شہر ہے ، جہاں حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا روضہ ٔ مقدس ہے ۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ… نجفؔ، میرا مدینہ ؔہے، مدینہ ہے میرا کعبہؔ! مَیں بندہ اور کا ہُوں، اُمّتِ شاہ ولاؔیت ہُوں! اپنی ایک اور نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ … بغضِ اصحابِ ثلاثہ ، نہیں اقبال ؔکو! دِق مگر اِک خارجیؔ سے ،آ کے مولاؔئی ہُوا! قیامِ پاکستان سے قبل ایک صحافی نے قائداعظمؒ سے پوچھا کہ ’’ آپ شیعہ ہیں یا سُنّی؟‘‘ تو ، قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ’’ مَیں ایک عام مسلمان ہُوں البتہ حضرت علی ؑ کا یومِ ولادت اور یوم شہادت ہم سب مسلمان مِل کر مناتے ہیں‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ 25 فروری 1969ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزندِ اوّل عطا فرمایا تو مَیں نے اپنے والد صاحب ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اِس کا نام ذوالفقار علی چوہان رکھا ۔ ذوالفقار ؔ۔ اِس دو دھاری تلوار کا نام تھا جو پیغمبر اِنقلابؐ کو غزوۂ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر مِلی۔ ذوالفقار پر دندانے اور کُھدی ہُوئی لکیریں تھیں۔ حضور پُر نُورؐ نے ذوالفقار حضرت علیؑ کو عطا کردِی تو اُس کا نام ’’ ذوالفقار علی ؑ‘‘ پڑ گیا تھا۔ ذوالفقارِ علی ؑ۔ جمہوریہ تُرکیہ کے شہر استنبول کے ’’ طوپ کاپی میوزیم‘‘ میں نبی کریمؐ اور خُلفائے راشدہؓ کے تبرکات کے ساتھ محفوظ ہے۔ مَیں نے ذوالفقار علی ؑ کی دوبار زیارت کی۔ پہلی بار جب مَیں اکتوبر 1993ء میں اپنے دو مرحوم دوستوں انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ جمہوریہ تُرکیہ کے دورے پر تھا اور دوسری بار ستمبر 1991ء میں صدرغلام اسحاق خان کے دورۂ تُرکیہ میں اُن کی میڈیا ٹیم کا رُکن کی حیثیت سے۔ پھر میرے پانچوں بیٹوں اور پانچوں پوتوں کے نام حضرت علی ؑ کے نام پر ہیں اور ایک نواسے علی اماؔم کا بھی۔ میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیرؔ سے تھا ، جہاں اُنہوں نے خواجہ غریب نواز، نائب رسولؐ فی الہند، حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒکے دست مبارک پر اسلام قبول کِیا ۔ خواجہ غریب نوازؒ نے حُسینیتؑ کے علمبردار کی حیثیت ہی سے تبلیغ اسلام کی تھی۔ 1947ء میں مشرقی (اب بھارتی ) پنجاب سے ہجرت کے بعد ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا تھا۔ میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ 1956ء میں مَیں نے میٹرک پاس کِیا تو، مَیں نے اردو میں ایک نعت لکھی جو لائل پور (اب فیصل آباد ) کے ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی۔ مَیں 1960ء میں بی ۔ اے ۔ فائنل کا طالبعلم تھا جب، مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کِیا اور باقاعدہ اردو اور پنجابی میں شاعری شروع کردِی۔ 1969ء میں مَیں لاہور شفٹ ہوگیا ۔ 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے اپنے روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کا آغاز کِیا۔ 1981ء میں میرے خواب میں ، حضرت خواجہ غریب نواز ؒ ایک لمحہ کے لئے ، لاہور میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے۔ آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کراُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو، میری آنکھ کُھل گئی۔ مَیں پلنگ پر اُسی حالت میں تھا جس حالت میں، مَیں نے حضرت خواجہ صاحبؒ کو سلام پیش کِیا تھا۔ میرا بیڈ روم ایک ملکوتی خُوشبو سے مہک رہا تھا۔ سردی کا موسم تھا لیکن، مَیں پسینہ پسینہ ہوگیا ۔ مَیں نے اپنی اہلیۂ مرحومہ ( نجمہ اثر چوہان)کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا ۔ اُنہوں نے مجھے پانی دِیا اور پوچھا کہ ’’ کیا آپ نے بیڈ روم میں کسی خُوشبو کا "Spray" کِیا ہے ؟‘‘۔ مَیں نے اُنہیں حضرت خواجہ صاحب کی آمد سے متعلق بتایا تو، وہ بھی خُوشی سے نہال ہوگئیں ۔مارچ 2007ء میں مَیں نے مولا علی ؑ کی اردو میں منقبت لکھی ، جس کے چار شعر پیش کرتا ہُوں… تم کو مِلی ہے ، بزمِ طریقت میں ، صندلی! دیکھا نہ آسمان نے، تُم سا مہا ؔبلی ! …O… تُم نائب ِ رسولؐ ہو ،اور رُکن پنجتن ؑ ! تُم سے مہک رہی ہے ، گُلِستاں کی ہر کلی! …O… مولائے کائنات ہو، مُشکل کُشا بھی ہو! خیبر شِکن ضرور ہو، پر دِل ہے مخملی ! …O… ہو باب ِ علم، عِلم میں ،عالی مقام ہو! روشن تمہارے نُور سے ، ہر شہر ہر گلی! 1983ء میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ’’ مَیں اور 1961ء سے میرے سرگودھوی دوست سیّد علی جعفر زیدی کہیں پیدل جا رہے ہیں کہ ’’ راستے میں ایک خشک دریا آگیا۔ زیدی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ’’میرا اور آپ کا یہی تک کا ساتھ تھا‘‘ ۔ مَیں نے خشک دریا پر قدم رکھا ۔ مٹی گیلی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ ’’یہ تو دلدل ہے ؟‘‘ ۔ مَیں گھبرا گیا ، میرا جسم دلدل میں دھنس رہا تھا کہ اچانک ، میرے مُنہ سے ’’یاعلی ؑ !‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا ۔ مجھے محسوس ہوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دِیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے کہا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایہ شفقت ہے !‘‘۔سیّد علی جعفر زیدی ستمبر 1983ء ہی سے اپنے اہل و عیال سمیت لندن میں مقیم ہیں۔ کامیاب بزنس مین اور برطانوی لیبر پارٹی کے اہم رُکن ۔ معزز قارئین!۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور کے آخری دِنوں میں میرے ایک برخوردار سرگودھوی صحافی سیّد رضا کاظمی کے ذریعے میری ملاقات حقیقی معنوں میں درویش ، تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا حامد علی شاہ موسوی سے ہُوئی، جنہوں نے محترمہ کی دعوت پر وزیراعظم ہائوس جانے سے معذرت کرلی تھی۔ پھر 2007ء کے اوائل میں ، تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سیکرٹری سیّد قمر زیدی اور سیّد رضا کاظمی کے ساتھ ، دانشور ، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوںکے مصنف سیّد عباس کاظمی کو ساتھ لے کر آغا جی کا یہ پیغام لے کرمیرے گھر آئے کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ آپ سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ (جنّت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھ دیں !۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ کتاب میں میرے پیش لفظ کے نیچے کاظمی صاحب نے لکھا کہ ۔ ’’ اثر چوہان صاحب کاتعلق اہل سُنّت سے ہے لیکن آپ اہلِ بیت ؑ کا بہت احترام کرتے ہیں !‘‘۔ اُنہی دِنوں میری ایک پنجابی نعت میں ’’ بوہا عِلم دااور مہا بلی ‘‘ کی حیثیت سے حضرت علی ؑ کا تذکرہ بھی تھا نعت کے دو بند یوں ہیں …… سَرچشمہ ، حُسن و جمال ، دا! کِسے ڈِٹھّا نہ ، اوسؐ دے نال دا! ربّ گھلّیا ، نبیؐ ، کمال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… بُوہا ؔعِلم دا ، تے مہاؔبلی! اوہداؐ جانِشین ، علی ؑ وَؔلی! جیہڑا ، ڈِگدیاں نُوں، سنبھال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! اکتوبر 2011ء کو مَیں نے اپنے پنجابی جریدہ ’’ چانن‘‘ لاہور میں سیّد اُلشہدا حضرت امام حسین ؑ کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کِیا ۔ منقبت کے دو شعر یکم اکتوبر 2017ء کو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے میرے کالم میں شائع ہُوئے۔ آغا حامد علی شاہ موسوی صاحب نے میرا کالم پڑھا ۔ اُسی شام مجھے سیّد عباس کاظمی نے فون پر بتایا کہ ’’ قبلہ آغا حامد علی شاہ صاحب کا اپنے تمام رُفقاء کے لئے فرمان / پیغام ہے کہ ’’ آج سے اثر چوہان صاحب ! کو ’’حسینی راجپوت‘‘ کہا جائے‘‘ تو، معزز قارئین!۔ آج کے کالم میں ’’حسینی راجپوت ‘‘ کی منقبت کا مطلع اور دو شعر پیش خدمت ہیں … نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی مولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یَزداں دا! سارے نعریاں توں وڈّ،ا نعرہ تیرے ناں دا! تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… سارے وَلیِاں دے ، بُلھاں اُتّے سَجدی اے! من موہ لَیندی ، جدوں وَجدی اے! تیری حِکمتاں دی وَنجھلی مولا ؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا!