میجر(ر) آفتاب احمد کی کتاب’’کھیڈن ہار فقیرا‘‘ کا مطالعہ جاری ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ظفر تم نے ہمیں یہ تو بتایا ہی نہیں کہ معیار کیوں دن بدن گر رہا ہے۔‘‘پریذیڈنٹ سلیکشن بورڈ بریگیڈیئر ظفر حیات سیمینار سے فراغت کے بعد جب اپنے آفس میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان کو بورڈ کے اندرونی معاملات پہ تعارف اور تفصیل کے اختتام پر پہنچے تو جنرل ضیاء کو شاید یاد آ گیا کہ وہ مرکزی نقطہ جس کی خاطر انہوں نے یہاں آنے کی دعوت قبول کی تھی اس کا تو پورے فسانے میں کہیں ذکر ہی نہ ہوا تھا۔ اس مبارک روز بریگیڈیئر کا دفتر تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ ترین پیتل ‘تانبے اور رنگ برنگی پٹیوں کی قوس و قزح میں سجا ہوا تھا۔ فضائی بیڑے کے ایئر مارشل انور شمیم ‘ امیر البحر ایڈمرل کرامت رحمن نیازی‘ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان‘ گورنر اور کور کمانڈر سرحد لیفٹیننٹ جنرل فضل حق ‘جنرل زاہد علی اکبر‘ لیفٹیننٹ جنرل جمال سید میاں وغیرہ وغیرہ۔بریگیڈیئر ظفر حیات نے کانوں کی لوئوں تک سرخ ہوتے ہوئے اپنے تحریری مسودے سے نظریں ہٹائیں اور سٹینڈ سے تھوڑا ہٹ کر جیسے ایک لمحے کے لئے اٹینشن ہوئے۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ جنرل کو اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے روایتی عسکری انداز میں کلاس برخواست کرنے لگے تھے۔والدین کی عدم دلچسپی‘ اسکول کالج کا گرتا ہوا معیار۔ انہوں نے تیزی سے ان دو نقاط کو دہرا دیا۔ جن کا رونا بورڈ کے ممبر اٹھتے بیٹھتے کیا کرتے تھے۔ جو حرف عام تھا۔ ’’ہاکی مت کھیلو‘‘ بڑبولے جنرل فضل حق نے فقرہ کسا۔ میرے ساتھ بیٹھے راولپنڈی کے کور کمانڈر نے ہنسی ضبط کرنے کے لئے ہلکی سی کھانسی کا سہارا لیا۔ ’’کیا مجھے کچھ کہنے کی اجازت مل سکتی ہے؟ اس کا جواب میں بھی دینا چاہتا ہوں‘‘ میں نے اچانک کھڑا ہوتے ہوئے کہا۔ وہ سب چونک کر رہ گئے۔ بریگیڈیر ظفر حیات نے جب سے شہزادہ صاحب سے ادارہ اپنی صدارت میں لیا تھا‘ پہلی بار شدید غصے کے عالم میں مجھے گھورا۔وہ دانت پیس کے رہ گئے تھے‘ ان کے کسی باجگزار‘ماتحت نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے روسٹرم ان سے چھین لیا تھا۔ مسلح افواج کی ہائی کمان کے سامنے یہ ناقابل برداشت گستاخی تھی۔ گستاخی یہ یقینا تھی لیکن یہ اس لائق تھی کہ اسے روا رکھا جاتا۔ اس نازک لمحے جب ملک کے سیاہ و سفید کی ملکیت کے دعویدار ایک ساتھ وہاں موجود تھے مجھے اس کا ارتکاب کرنا ہی تھا۔ قیمت خواہ کچھ بھی ہوتی۔ ’’تم کیا جواب دو گے؟‘‘ جنرل فضل حق نے جو دوستانہ اور مخاصمانہ زبان درازی کے لئے بے حد مشہور تھے بلند آواز سے کہا۔ وہ بریگیڈیئر ظفر کے بھائی بریگیڈیئر امیر گلستان جنجوعہ اور مولوی جنرل ضیاء الحق شہرہ آفاق ٹینک رجمنٹ 6لانسرز اور گائیڈز کی ہندوستانی پھر پاکستان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ سفر و حضر کے ساتھی‘دوست اور راز دان۔ صوبہ سرحد کی گورنری بھی اس ناطے پہلے قرعے میں جنجوعہ کے پاس رہی اور پھر فضل حق کی لاٹری میں نکلی تھی۔ ’ہاں ہاں‘ آپ بتائیے‘‘ جنرل ضیاء الحق نے نفاست بھری اپنی اسی آواز اور مشفقانہ انداز میں گورنر اور کور کمانڈر کے اعتراض رد کرتے ہوئے مجھے اپنا نقطہ نظر بتانے کی اجازت دے دی جس انداز اور آواز میں انہوں نے کبھی اپنے پیارے اور محترم کرنل ان چیف ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دیا تھا۔ جانے کیوں مجھے بھی یقین تھا کہ جو کچھ میں کہنے جا رہا تھا اس کے جواب میں وہ مشفقانہ اور نفیس آواز مدتوں میرا بھی پیچھا کرتی۔ ’’معیار گرنے کا ذمہ دار یہ ملک‘ قوم یا یہ ادارہ نہیں‘ اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔‘‘ میں نے بلند لیکن سردسی آواز میں چیف آف آرمی سٹاف‘ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت کو براہ راست ملزم ٹھہراتے ہوئے کہا۔ مجھے آج بھی اس ٹھنڈ کا احساس بخوبی ہوتا ہے جس نے اس لمحے کے دوران مجھے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ جانے وہ کہاں سے آئی تھی۔ خوشبو اس میں یقینا جمال حبیب کی ہی تھی!’’کیا کہا‘ تم ہوش میں ہو؟ جنرل فضل حق میرے الزام کو ناقابل ہضم قرار دیتے ہوئے دھاڑے…Uncouth۔بدُّو۔‘‘ ’’تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ جنرل اختر عبدالرحمن کمک لئے اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے ان کا گلابی چہرہ لال ٹماٹر ہو چکا تھا۔،’باس‘ کی حمایت میں فسٹ مونٹین کا توپچی جنرل رسالے والے سے پیچھے نہیں رہ سکتا تھا اور پھر ان کا اور جنرل ضیاء الحق کا تو مرن جیون کا ساتھ تھا۔ ’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں جناب‘‘ میں نے اپنے الزام پہ اصرار کیا۔ ’’تم ٹھیک نہیں کہہ رہے ہو‘ ہم تمہیں ٹھیک کریں گے۔‘‘ وہ شاید جنرل جمال سید میاں تھے جنہوں نے اکثر پختون لہجے میں ایک حقیر لیکن گستاخ میجر کو حتمی دھمکی دے ڈالی تھی لیکن میں ولی نعمت آقا اور باس کی حمایت میں وفاداری اور اطاعت گزاری کا شور مچانے اور بڑبڑانے والے ان سب بوڑھے پر کٹے عقابوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق سے براہ راست مخاطب رہا جو گردن کو ایک زاویے پہ خم دیے میری بات بغور سن رہے تھے۔ ’’جناب والا میں یکساں نصاب تعلیم کی بات کرتا‘ وہ پھر سہی ‘ابھی صرف اتنی کہ آپ کے دو صاحبزادے ہیں‘ آپ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنی گائیڈز یا بائیسویں کیولری میں بھیجنا پسند نہیں کیا‘ کیا امریکی ڈالر پاکستانی روپوں سے بھاری ہیں؟‘‘ میں نے انہیں پوچھا۔ بریفنگ روم میں ایک طویل لمحے کے لئے پن ڈراپ خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ میرے سوال کا چیف کے پاس کوئی جواب تھا‘ نہ ان کے دائیں بائیں رو پہلے چمکتے چاند ستاروں کے پاس جو منقار زیر پر ہو گئے تھے۔ ’’لیکن یہ آداب کے خلاف ہے‘ تم ہوش میں ہو؟‘‘ جنرل اختر عبدالرحمن نے ایک بار پھر مجھے ڈانٹا۔بریگیڈیئر ظفر حیات انہیں بتا سکتے تھے کہ ان کا سٹاف افسر مدہوشی اور سرمستی کے لئے ساقی کے ہاتھوں شراب کہن کا تو رسیا تھا۔ بلیک ڈاگ اور شیواز ریگل تو کجا چائے کا بھی عادی نہ تھا۔ رہا بھینس کا دودھ تو گیریژن کمانڈر کے بقول وہ کوہاٹ میں اس جیسے جونیئر افسران کے لئے مہنگا سودا تھا۔ لیکن ظفر حیات تو جیسے میری مداخلت کے بعد سے سکتے کے عالم میں تھے۔ ’’چیف ہی نہیں‘ آپ بھی اس کے ذمہ دار ہیں‘‘ اب جنرل اختر عبدالرحمن کی باری تھی۔ میں نے وہی الزام ان پہ بھی چسپاں کرتے ہوئے کہا۔’’وہ کیسے؟‘‘ ایڈمرل کرامت رحمان نیازی نے جو خالص نیازیوں کی طرح کھلے ڈلھے جنرل آفیسر تھے‘ خاصی دلچسپی لیکن دھیمی آواز میں پوچھا:شاید پاکستان کا امیر البحر بھی کہیں اس توپچی سراغرساں جنرل کے ہاتھوں ڈسا ہوا تھا جس کے کاٹے کا تریاق اسلام آباد تو کیا بغداد میں بھی کہاں تھا؟ ’’آپ کے چار بیٹے ہیں‘ وہ سب امریکی یونیورسٹیوں میں علم اور امریکی کارپوریشنوں میں ڈالر کما رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی توپ خانے میں آپ کی اپنی فسٹ ایس پی کی کسی بیٹری کی کمان نہیں کر رہا۔‘‘ جنرل اختر ٹھنڈے ہو کر واپس اپنی کرسی پر دھنس گئے۔ اگرچہ محض دو سال بعد زبان دراز‘بدو‘ کو ان کے سامنے سازش اور بغاوت کے ملزم کی حیثیت میں کھڑا ہونا تھا لیکن اس روز پریذیڈنٹ آئی ایس ایس بی کے دفتر میں ملزم وہی نکلے تھے۔ ’’جناب والا‘ روٹی ‘ ضروری سہی لیکن کوئی بھی آرمی اپنی روایات پہ ہی قائم ہوتی اور کھڑی رہتی ہے۔نپولین کی سوچ میں دیسی اور اسلامی ٹانکا لگاتے ہوئے میں جنرل ضیاء الحق سے مخاطب تھا۔ میں یونیفارم پہننے میں فخرمحسوس کرتا ہوں کہ یہ میرے آباء کی میراث ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے سپاہی میرے دادا اور دوسری جنگ عظیم سے لوٹ کر 1948ء اور 1965ء میں پاکستان کے مورچوں میں کھڑا ہونے والے میرے والد نے مجھے 1971ء کے مشرقی اور مغربی محاذ کی راہ دکھائی تھی۔ میرے چچا‘ ماموں اور کزن سب سپاہی تھے۔ آپ رسالے اور توپ خانے کو اپنی اولاد عطیہ نہیں کر سکے تو دوسروں سے اس کی توقع کیوں کرتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر انجینئر بن کر ڈالر کمانا ان حالات میں بہتر آپشن نہیں ہو گی؟ پھر معیار کیسے قائم رہتا؟۔