اقتدار کی خصلت میں آمریت رکھی ہوئی ہے۔ خواہ کوئی بادشاہ یا آمر فوج کے ذریعے علاقوں کو فتح کرے، اپنے ہی ملک پر قبضہ کرے، یا پھر جمہوری انداز میں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر مسندِ اقتدار پر قابض ہو جائے۔ گذشتہ صدی کے مشہور برطانوی فلاسفر اور ادیب برٹینڈ رُسل (Bertrand Russell)کی ایک کتاب ہے جس کا نام "Power" ہے۔ انگریزی اور اُردو دونوں میں اس لفظ کے معانی اور مطالب کے اعتبار سے لاتعداد مترادفات ہیں۔ جن میں قوت، طاقت، برتری، غلبہ اور حاکمیت وغیرہ شامل ہیں۔ رُسل کی کتاب اس فلسفے کے گرد گھومتی ہے کہ جب انسان کی بنیادی ضروریات مثلاً کھانے پینے، سونے رہنے اور جنسی خواہشات کی تکمیل ہو رہی ہوتی ہے تو پھر سب سے اہم خواہش جو اس کے اندر اُبھرتی ہے وہ غلبے، برتری اور قوت کی خواہش ہوتی ہے۔ گھر بار اور اہلِ خانہ پر کنٹرول سے لے کر دفتر، کاروبار، مسجد، مدرسہ غرض ہر جگہ غلبے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہو جاتی ہے اور سیاسی حاکمیت یعنی حکومتی اقتدار اس کی آخری منزل ہے۔ اس معاملے میں جمہوریت اور آمریت دونوں غلبے کی لا محدود ہوس میں برابر ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پادشاہت میں ایک بادشاہ اور اس کی فوج براہِ راست حکومت کرتی نظر آتی ہے وہی اس نظام کی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ جبکہ دُنیا کی جدید جمہوری ریاستوں میں ہر ملک کی ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے جو کارپوریٹ سرمایہ دار، قومی افواج اور دیگر ادارے مل کر بناتے ہیں۔ یہ ہمیشہ پسِ پردہ رہتی ہے لیکن ووٹ لے کر آنے والے حکمران، کٹھ پتلیوں کی طرح اس کے اشاروں پر رقص کرتے ہیں۔ عالمی قوت امریکہ سے لے کر پاپا نیو گنی جیسے چھوٹے سے جزیرے والے جمہوری ملک میں بھی ایک اسٹیبلشمنٹ ضرور موجود ہوتی ہے۔ کچھ اہلِ تصّوف کے نزدیک بھی ظاہری دُنیاوی اقتدار پر لوگوں کو بٹھانے کے فیصلے پسِ پردہ روحانی اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے ۔ علاقے کے قطب یا ابدال ایسے احکامات جاری کرتے ہیں۔ بو علی قندر کا یہ قول صوفیاء میں عام ہے کہ جب ان کے کسی مرید کو بادشاہ نے تنگ کیا تو اس نے ’’مرشد‘‘ سے شکایت کی، جس پر بو علی قلندر نے ایک رقعہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس بادشاہ سے کہا کہ باز آ جائو اور پھر لکھا’’ ور نہ بخشم ملک تو با دیگری‘‘ (ورنہ میں تمہارا ملک کسی دوسرے کو بخش دوں گا)۔ یہی پوشیدہ روحانی اسٹیبلشمنٹ ہی تو ہے جو بے نظیر اور نواز شریف کو ’’بابا دھنکا‘‘ کی چھڑیاں کھانے پر مجبور کرتی ہے اور عمران خان کو پاک پتن میں گلاب کی پتیوں کا فرش بچھا کر ماتھا رکھنے پر قائل کر دیتی ہے۔ روحانی اور مادی اسٹیبلشمنٹ دونوں، آج بھی ہوسِ اقتدار میں پاگل سیاست دانوں کے دلوں پر راج کرتی ہیں۔ یوں تو یہ کھیل قیام پاکستان سے ہی چل رہا ہے، لیکن گذشتہ چند سالوں سے کچھ سیاست دان اپنے تجربے سے اس گمان میں آ گئے تھے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو کبھی اور کسی بھی وقت عالمی طاقتوں پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ کے دبائو سے مطیع و فرمانبردار بنایا جا سکتا ہے۔ قوت و اقتدار کے اس کھیل کا پہلا تماشہ اس وقت ہوا، جب پرویز مشرف تمام تر قوت و اقتدار کے باوجود اس قدر مجبور بنا دیا گیا کہ نواز شریف اپنے تمام گھرانے، سازوسامان اور نوکروں سمیت راتوں رات اسکے شکنجے سے آزاد ہو کر آرام دہ ’’سرور پیلس‘‘ میں جا بسا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد جب عالمی اسٹیبلشمنٹ کی اس قوت کا اندازہ بے نظیر کو ہوا تو اس نے بھی عین اس لمحے جب وہ نواز شریف کے ساتھ لندن میں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کر رہی تھی، دبئی میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اسکے کارندوں سے این آر او کے لئے مذاکرات جاری رکھتے ہوئے تھے۔ یہ سب بالکل اس رنگ بدلتے محبوب کی طرح ہوتا رہا ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ’’سر ترے زانو پہ تھا اور مجھ کو یاد آیا کوئی‘‘۔ پاکستان اس وقت ہوسِ اقتدار، غلبہ، قوت اور کنٹرول کی سہ رُخی لڑائی میں دھنسا ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ سمیت ہر کوئی ایسے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے جیسے سروں پر عورتوں نے پانی سے بھری گاگریں اُٹھائی ہوتی ہیں۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ سی آئی اے 1947ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک دُنیا بھر کے 72 ممالک کی حکومتیں تبدیل کروا چکی ہے۔ سی آئی اے کے مختلف سابق سربراہوں نے حکومتیں گرانے کی اس حکمتِ عملی کے پانچ طریقِ کار بتائے ہیں۔ (1) اپوزیشن کو سرمایہ فراہم کرنا (Funding Opposition)۔ اس طریقے سے براہِ راست سیاسی پارٹیوں کو سرمایہ دیا جاتا ہے یا افواج کے ذریعے تختہ اُلٹا جاتا ہے۔ جنوبی ویت نام، برازیل اور گوئٹے مالا میں ایسا کیا گیا۔ (2) لیڈروں کا قتل (Assassination) انہوں نے کانگو کے جمہوری صدر لممبا کو قتل کیا، وہ مقبول تھا اس لئے ہنگامے پھوٹے اور چار سال ملک میں قتل و غارت ہوتی رہی۔ (3) معیشت کی تباہی (Destroying Economy) اسے دوسری زبان میں معاشی قتل (Economic Assassination) بھی کہتے ہیں۔ چلّی کے منتخب صدر آلندے کے خلاف یہی طریقہ استعمال کیا گیا اور چلّی کی معیشت کو مختلف پابندیوں سے تباہ کر دیا گیا اور پھر ایک دن اس افراتفری میں امریکہ کی پشت پناہی سے وہاں جنرل پنوشے برسر اقتدار آ گیا۔ (4)میڈیا پر قبضہ (Media Takeover) اس معاملے میں سی آئی اے کمال کرتی ہے۔ وہ اخبار یا اس کے مالک کو نہیں خریدتی بلکہ عام رپورٹر، صحافی اور کالم نگار کو خریدتی ہے۔ نوم چوسکی نے اپنی مشہور کتاب ’’ رضا مندی کی تخلیق‘‘ (Manufacturing Consent) میں بتایا ہے کہ دُنیا کے ہر ملک میں لاتعداد رپورٹر، صحافی اور کالم نگار، سی آئی اے کے پے رول (Pay Roll) پر ہوتے ہیں۔ (5) بد امنی اور انارکی پیدا کرنا (Creating Chaos) ۔ سی آئی اے نے اس تکنیک کے ذریعے جس ملک میں بھی ہنگامے شروع کروائے اور اپنے سرمائے کے بل بوتے پر گروہوں میں شدید خانہ جنگی کروائی، وہاں عالم یہ تھا کہ احتجاج کرنے والے عوام کو بالکل علم نہیں تھا کہ وہ یہ احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ مثلاً جب ایرانی صدر مصدق نے تیل کی صنعت کو قومی ملکیت میں لیا تو امریکہ اور برطانیہ اس سے ناراض تھا۔ اس فیصلے کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی تعلق نہ تھا، لیکن کروڑوں ڈالر ایرانی سیاسی رہنمائوں کو دے کر مصدق کے خلاف شدید ہنگامے شروع کروائے گئے اور ملک کو ایک ایسی خانہ جنگی کا شکار کیا گیا کہ مصدق کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ گذشتہ تین سالوں سے پاکستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک مستقل محاذ آرائی برپا تھی۔ اپوزیشن کا ہر لیڈر اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری سیاست میں بے جا مداخلت پر بدنام کر رہا تھا۔ اس میں ایسے لیڈر بھی شامل تھے جو علاج یا مقدموں کے خوف سے یا قوم پرست گوریلا جنگ کے سلسلہ میں بیرون ملک تھے۔ غیر ملکی اور ملکی اخبارات میں ایک وسیع طبقہ ان رہنمائوں کو نجات دہندہ اور جمہوری روایات کا پاسبان بنا کر پیش کرتا رہا۔ یہ دانشور اور سیاست دان ملکی اداروں کو خواہ وہ عدلیہ اور فوج تھی مسلسل اپنے نشانے پر رکھتے تھے۔ ان تین سالوں میں ایسا اس لئے ہے کہ گذشتہ تقریباً 31 سال سے پہلے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی جو دُنیا کی واحد عالمی طاقت بن چکی تھی۔ اس عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں چین سے محدود حد تک رومانس کی اجازت دے رکھی تھی، لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔ امریکہ اب واحد عالمی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہی۔ چین اور روس باہم ایک قوت بن چکے ہیں۔ اب دونوں جانب ایک ہی قسم کا مطالبہ ہے۔ ہمارے ساتھ رہنا ہے تو چین اور روس سے آنکھ مٹکا بند کرو اور اگر چین اور روس کے ساتھ رہنا ہے تو پھر امریکہ سے طلاق لو۔ ’’سر ترے زانو پہ تھا اور مجھ کو یاد آیا کوئی‘‘ والے مزے اب ختم ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے جو خط لہرایا ہے وہ دراصل اسی فیصلے کی وارننگ ہے۔ امریکی دفتر خارجہ حکومت نہیں بدلا کرتا۔ وہ صرف انکار کرنے والوں کو فیصلے سے مطلع کرتا ہے۔ حکومتیں ہمیشہ سی آئی اے بدلتی ہے اور انہی پانچ طریقوں سے۔ لیکن وہ کبھی اپنا ثبوت نہیں چھوڑتی۔ فیصلے کی گھڑی ہے۔