ہمارے وزیر اعظم عمران خان جب سے امریکہ کو فتح کر کے لوٹے ہیں‘ بھارتی میڈیا میں کہرام پڑا ہے۔ خود بھارت کے اندر ڈونلڈ ٹرمپ کو صلواتیں سنائی جا رہی ہیں۔ جنتا کے نیتا مودی کو چپکی لگی ہے۔ ترجمان نے ان کے جو تردید کی اس تردید کی بھی تردید آ چکی ہے۔ ناطقہ سرگریباں ہے اسے کیا کہیے۔ اپنے ملک میں اپوزیشن کی جماعتیں جو مہنگائی اور ڈالر کی اڑان پہ بغلیں بجا رہی تھیں۔ انہیں بھی دھچکا لگا ہے کہ ہم سمجھتے تھے انناس یہ عورت نکلی۔ویسے تو سید محمد جعفری کا یہ مصرعہ تجریدی آرٹ کی بابت ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کی سیاست بھی اس آرٹ سے کچھ کم نہیں۔ ان معنوں میں کہ اپوزیشن کرتی کچھ اور اندر سے نکلتا کچھ ہے۔ امریکہ کو فتح کرنے کا سب سے زیادہ صدمہ اگر کسی کو ہے تو اپنے مولانا فضل الرحمن کو ہے جو اس غم میں گھلے جا رہے ہیں کہ اب تک عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی عوامی تحریک کیوں نہیں اٹھی۔ اب تک وہ ہر حکومت کا نفس ناطقہ بنے رہے ہیں۔ خواہ حکومت فوجی ہو یا جمہوری‘ مولانا کا کھانچہ ہر حکومت میں فٹ رہا ہے۔ مدتوں بعد یہ پہلی حکومت آئی ہے جس سے مولانا کا مک مکا نہیں ہو پایا۔ اس کا جیسا قلق انہیں ہے‘ اس کا اندازہ کسی اور کو نہیں خود مولانا ہی کو ہو گا۔ صدمہ یہ بھی ہو گا کہ واشنگٹن میں ہزاروں پاکستانی عمران خان کے لئے کیسے اور کیوں جمع ہو گئے۔ نہ یہ ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوتا اور نہ ڈونلڈ ٹرمپ پر عمران خان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کی دھاک بیٹھتی۔ تو ہمارے وہ اپوزیشن کے لیڈر ہیں جن کی نفرت اور ناپسندیدگی اتنی گہری ہوتی ہے کہ پھر وہ ملکی مفاد کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ برخوردار بلاول بھٹو کم سے کم مولانا سے تو بہتر نکلے کہ انہوں نے قومی مفاد میں عمران خان کو اپنے اعتماد سے بہرہ ور کیا۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ ملک بدترین معاشی بحران سے گزرنے کے باوجود خطے کا اہم ملک بنتا جا رہا ہے۔ دنیا کی توجہ اس ملک پر مرکوز ہوتی جاتی ہے۔ چین اور امریکہ کے علاوہ مسلم ملکوں سعودی عرب‘ قطر‘ ترکی ‘ ملائشیا سے بھی تعلقات میں گہرائی آتی جا رہی ہے۔ خود ملک کے اندر بدعنوانی کے معاملے میں جو بے حیائی اور سینہ زوری نظر آتی تھی۔ یہ رویہ بھی تبدیل ہو چلا ہے اور بدعنوانی کے ساتھ محاسبے اور پکڑ دھکڑ کا اندیشہ اور خوب بھی پیدا ہو چلا ہے۔ بدعنوان لیڈروں کے ساتھ وزیر اعظم کے استہزائی رویے نے ان کے جھوٹے وقار اور رعب و دبدبے کا پردہ چاک کر دیا ہے اور لوگوں کو ان کی اصل حقیقت کا پتا چلتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ملک میں قانون کی بے لاگ عملداری کی مثالیں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ مثلاً ایک ٹریفک کانسٹیبل کا رینجرز کی ایک گاڑی کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بلا خوف و خطر گرفت کرنا اور پھر پولیس کی جانب سے اسے انعام سے نوازا جانا‘ بہ ظاہر چھوٹے واقعات ہیں لیکن ان سے یہ قیاس کرنا دشوار نہیں کہ ہوا کارخ کس سمت ہے اور ملک میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ عوام میں ایک شعور پیدا ہو چکا ہے۔ کھرے اور کھوٹے کو پہچاننے کا شعور‘ اپنے برے اور بھلے کا پتہ ‘ جبھی جملہ اپوزیشن پارٹیوں کا احتجاج موجودہ حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر کوئی رنگ نہ جما سکا۔عوام کو بھی خوب اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ سارے خالی برتن ہیں جو اس لئے بجتے ہیں کہ اندر سے بالکل ہی تہی ہیں۔ وہ یہ بھی بھانپ رہے ہیں کہ اگر مہنگائی ہے تو اس لئے کہ پچھلے حکمرانوں نے ملک کو لوٹ مار کر کے بالکل ہی کھولا کر دیا ہے اور موجودہ حکومت مصنوعی طور پر ملک کو معاشی استحکام کے دھوکے میں مبتلا کر کے عوام کو کسی جھوٹے تاثر سے بہلانا نہیں چاہتی۔ جہاں تک سمجھوتا ضروری بلکہ ناگزیر تھا‘ وہاں تک اس نے سمجھوتہ کیا کہ کوئی دوسری صورت بھی ہی نہیں لیکن حالات بتدریج بہتر ہوتے جائیں گے۔ کپتان کی حکومت جیسی کیسی بھی ہے پچھلی حکومتوں سے غنیمت ہے۔ اس لئے بھی کہ اس نے قوم و ملک کو لاحق سب سے بڑی بیماری بلکہ کینسر کو اس نے تبدیلی کا ہدف بنایا ہے اور وہ بدعنوانی کا کینسر ہے۔ اگر یہ حکومت کرپشن یا بدعنوانی کو ایک گالی بنا کر بھی رخصت ہوتی ہے تو یہ اس صدی کا سب سے بڑا کارنامہ اور اس ملک کی سب سے بڑی خدمت ہو گی۔ کرپشن اور بدعنوانی و بددیانتی نے ہی یہ دن دکھائے ہیں کہ خزانہ ہی خالی نہیں ہوا۔ سیرت و کردار کی دولت سے بھی یہ قوم محروم ہو گئی ہے اخلاقی اقدار کی تباہی کا آغاز ہی بدعنوانی سے ہوا جس نے رفتہ رفتہ ملک کو جوہر کردار سے خالی کر دیا بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نیکی اور نیک نفسی ‘شرافت اور وضعداری ایک عیب بن گئی۔ نیک آدمی نامراد ہو گیا اور بدکردار اپنی کامیابی کے سبب لائق تقلید اور باعث احترام ٹھہرا۔ اس لئے اگر وزیر اعظم عمران خان ببانگ دہل چوروں اور ڈاکوئوں کے القاب سے پچھلے حکمرانوں کو مخاطب کر رہا ہے تو اسے یہ حق ہے۔ کیونکہ اپنی چالبازیوں اور عیاریوں سے ملک و قوم کو لوٹنے والے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔ جتنی بڑی برائی ہوتی ہے اس کے خاتمے کے لئے اتنے ہی جوش کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ملک کو صلاح و فلاح کے لئے آج حضرت عمرؓ کا دُرّہ درکار ہے۔ جب تک سختی اور سخت گیری سے اصلاح احوال کی کوششیں نہ ہوں گی۔ ان لٹیروں اوربے حس و سنگدل وحشیوں کو ٹھیک نہ کیا جا سکے گا۔ بدعنوانی صرف یہی تو نہیں کہ کسی ٹھیکے میں کمیشن اور کک بیکس وصول کیا جائے۔ بدعنوانی یہ بھی تو ہے کہ حق دار کو اس کا حق دینے کے بجائے اپنے بھائی بھتیجے یا اپنے کسی منظور نظر کو دے دیا جائے ۔پچھلی دونوں حکومتیں اس ملک کو اپنی ذاتی و خاندانی جاگیر سمجھتی تھیں۔ عہدوں اور منصبوں کی بندر بانٹ اس طرح کرتی تھیں جیسے یہ ملک انہیں میراث میں ملا ہو۔جواب دہی اور احتساب کے ہر احساس سے عاری یہ حکمران اگر آج پس دیوار زنداں ہیں تو اس لئے کہ انہیں یہیں ہونا چاہیے اور عام قیدیوں کی طرح ہونا چاہیے۔ کیوں انہیں وہ سامان تعیشات فراہم کیا جائے۔جس کے وہ عاری ہیں۔ کپتان کا کہنا غلط نہیں کہ اگر عیش و عشرت کا سامان قید میں مہیا کئے جائیں تو پھر سزا کیسی؟ خدا وند تعالیٰ وزیر اعظم کے پائے ثبات میں جنبش نہ آنے دیں۔ انہیں استقامت عطا کریں تاکہ یہ تباہ حال ملک اور درماندہ ملک اپنی منزل پہ پہنچے۔ ستر پچھتر سال کا عرصہ تباہی و بربادی کے لئے بہت ہوتا ہے۔ تعمیر کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ ابھی تو تخریب ہی تخریب ہے۔ تعمیر تو اس کے بعد ہو گی۔