وہ ستر برس کی ایک بوڑھی عورت تھی۔ ہاتھ میں کڑھائی والا فریم‘ فریم میں سفید رنگ کا کپڑا کسا ہوا تھا اور وہ سرخ رنگ کے دھاگے کے ساتھ اس پر سٹرابری کا نقش بنا رہی تھی۔میں نے بہت عرصے کے بعد کسی خاتون کو اس طرح کشیدہ کاری کرتے دیکھا تھا۔بچپن کی یادوں میں ایسے کئی منظر محفوظ ہیں۔ مگر اتنے برسوں کے بعد میں نے بچپن کا یہ بھولا بسرا منظر امریکہ کے شہر ڈیلس میں جان ایف کینیڈی میوزیم کی داخلی لابی میں دیکھا تھا۔ جہاں ایک طرف استقبالیہ ڈیسک پر کچھ خواتین بیٹھی تھیں اور ساتھ ہی بائیں طرف ایک بنچ موجود تھا جہاں کشیدہ کاری میں مصروف وہ بوڑھی عورت‘ آنے جانے والے سیاحوں کے ہجوم سے بے خبر‘ سفید کپڑے پر سرخ رنگ کے دھاگے سے ایک ایک ٹانکہ لگا کر‘ سٹرابیری کا نقش کاڑھ رہی تھی۔ میں بے اختیار‘ اس خاتون کی طرف چلی گئی سلام دعا کے بعد میں نے ان کی کڑھائی کی تعریف اور پوچھا کہ آپ اس پبلک مقام پر جہاں ایک وقت میں بیسیوں سیاح‘ میوزیم دیکھنے آتے ہیں‘کڑھائی کا فریم لئے‘ کڑھائی میں مصروف ہیں‘خاتون نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا۔آپ کو پتہ کہ کرسمس آنیوالا ہے۔یہ میں اپنی بہن کو کرسمس کا تحفہ دینے کیلئے‘تکیے کا غلاف بنا رہی ہوں۔ میں یہاں کینیڈی میوزیم میں بطور گائیڈ کام کرتی ہوں۔ وقفے کے درمیان میں اپنا وقت بہتر استعمال کرنے کے لئے اپنی کشیدہ کاری کا فریم نکالتی ہوں اور مصروف ہو جاتی ہوں۔ میں نے ان کی اجازت لے کر اس گفتگو کو ویڈیو میں محفوظ کر لیا تھا۔ وہ بہت پروقار اور خوبصورت خاتون تھی۔چہرے کے نقش و نگار ایسے تھے جیسے‘اٹالین فلموں کا کوئی کردار میرے سامنے ہو۔ مگر اس سے زیادہ میرے متاثر کن چیز ان کا لوگوں کے ہجوم میں بیٹھ کر کشیدہ کاری کرنا تھا۔ میرا ذہن فوراً پاکستانی عورتوں کی طرف چلا گیا جو خیر سے اتنی ماڈرن ہو چکی ہیں‘ کشیدہ کاری جیسے نفیس کام کو قدیم اور آئوٹ آف فیشن خیال کرنے لگی ہیں۔ نوّے کی دہائی میں‘ جب ابھی برینڈڈ کا سیلاب نہیں آیا تھا تو خواتین‘ اپنے کپڑوں پر بیل بوٹے کاڑھتی اور کشیدہ کاری کر کے کو سجا تی تھیں۔ اس طرح ان کی حس جمالیات کی تسکین بھی ہوتی اور وقت بھی مثبت سرگرمی میں گزر جاتا۔ ہم چونکہ عدم تحفظ سے دوچار ‘ نقالی کرنے والے لوگ ہیں‘ہم نے بہت سی خوبصورت سرگرمیوں کو قدیم اور آئوٹ آف فیشن کر کے یکسر فراموش کر دیا تھا۔پڑھی لکھی لڑکیاں خاص طور پر اس طرح کے کاموں کو اپنے لئے ہتک سمجھنے لگیں گھر کی الماریوں سے دھاگے‘سوئیاں‘ فریم، اون ،سلائیاں، سب غائب ہو گئے۔ برینڈڈ کے طوفان نے ہماری اس طرح کی تخلیقی صلاحیتوں کو ہڑپ کر لیا۔ ہماری مائیں بہت شاندار کشیدہ کار تھیں۔ ہم چونکہ زیادہ پڑھ گئے‘ ماڈرن ہو گئے تو ہم نے اپنی مائوں سے یہ ہنر سیکھنا گوارا نہیں کیا مگر ہمیں چونکہ نقل کی عادت تھی اور وہ بھی مغرب کی نقل کرنے کی تاکہ ذرا مزید ماڈرن کہلوا سکیں۔ تو اب انقلاب یہ آیا ہے کہ جب ہم میموں کو یوٹیوب پر ایمبرائیڈری ٹیوٹوریل کرتے دیکھتے ہیں تو ہماری لڑکیاں اب پھر سے اس خوبصورت تخلیقی کام کی طرف آ رہی ہیں۔ ہم اپنے آپ پر شرمندہ رہنے والے احساس کمتری میں مبتلا لوگ ہیں۔ جب ہماری مائیں ہمیں یہ کہتی ہیں کہ ویلوٹ کے اس پرانے سوٹ کو کانٹ چھانٹ کر صو فے کی گدیاں بنا لیں تو ہمیں سخت ہتک محسوس ہوتی ہے‘ مگر جب ہم یوٹیوب پر گوری میموں کو‘ اسی قسم کے بے شمار کام ری سائیکل اور اپ سائیکل (Recycling and upcycling)کرتے دیکھتے ہیں تو ان کی تخلیقی سوچ پر واری صدقے جاتے ہیں۔کیا آپ نے کسی پرانی جرسی کے بازو کاٹ کر اس کی ٹوپی بنا کر بڑے فخر سے پہنی ہے۔ نہیں نا۔ فرض کریں ہم اسی نوعیت کا کوئی کام کر بھی لیں تو پھر اس کو چھپاتے پھریں گے۔ پنسا کولا فلوریڈا کی ستر سالہ سوسن کی طرح‘ ہرگز فخر سے نہیں بتائیں گے کہ وہ اونی ٹوپی جس کی خوبصورتی کی کچھ دیر سے تعریف کی جا رہی ہے‘ وہ میں نے اپنی پرانی جرسی کے بازو کاٹ کر بنائی ہے۔جی ہاں یہ کردار بھی ہمیں اپنی امریکہ یاترا کے دوران ملا تھا۔ پنسا کولا فلوریڈا میں سوسن ہماری گائیڈ تھیں اور وہ ستر برس کی عمر میں‘ یہ کام رضا کارانہ سرانجام دے رہی تھیں۔پرانی استعمال شدہ چیزوں کو ری سائیکل کر کے چیزیں بنانا ان کا مشغلہ تھا۔ کرسمس آنے والی تھی تو وہ اسی نوعیت کے تحفے اپنے نواسوں اور پوتیوں کیلئے تیار کر رہی تھیں۔ انہوں نے جو جیولری پہنی ہوئی تھی وہ بھی خود بنائی تھی۔مغرب میں چیزیں خود بنانے کے عمل کو باقاعدہ ایک نام دے دیا گیا اسے Diyکہتے ہیں یعنی Do it yourself یوٹیوب پر ڈی آ ئی وائے((diy اب پوری انڈسٹری بن چکی ہے۔ مختلف طرح کے کاموں کی لاکھوں کروڑوں diyویڈیو آپ کو نئے ہنر سکھانے کے لئے موجود ہیں۔روز مرہ زندگی سے جڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے ہنر سیکھنا ہمارے معاشرے کی کبھی بھی روایت نہیں رہی۔ ہم اپنے بچوں بچیوں کو ڈگری لینے کے لئے سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں کیا ہم نے کبھی انہیں زندگی سے جڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے ضروری ہنر سکھانے کی کوشش کی۔؟نہیں کیونکہ‘ ہم ٹونٹی مرمت کرنے سے لے کر کپڑے سلائی کرنے تک کے کاموں کو ان پڑھ لوگوں کا کام سمجھتے ہیں۔ ہم ہنر کو چھوٹا اور ڈگری کو بڑا سمجھتے ہیں۔ ہم ہنر کی قدر اور اہمیت سے آشنا معاشرہ ہی نہیں ہیں۔میں تو سمجھتی ہوں کہ ہنر سکھانا ہر سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ آج کل کے نوجوانوں کو یہ تربیت بھی دینے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دلچسپیوں سے ہٹ کر‘ آف لائن حقیقی زندگی میں تخلیقی اور حِس جمالیات کو مہمیز دینے والے مشاغل کیسے اپنائے جائیں۔باغبانی کرنا‘ کشیدہ کاری کرنا‘ پینٹنگ کرنا۔ دوستوں پر مشتمل کتب بینی کا آف لائن کلب بنانا، پرانی چیزوں کی ری سائیکلنگ کرنا۔ بس کوئی بھی ایسی سرگرمی جس میں کوئی ہنر سیکھیں اور سکھائیں۔مگر اس کے لئے ہمیں ہر قسم کی خودساختہ احساس کمتری سے نکلنا ہو گا۔ کیونکہ حس جمالیات‘ تخلیقی صلاحیتیں اور احساس کمتری ایک جگہ پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔