آج نہ ہی اقبال کا یوم پیدائش ہے اور نہ ہی یوم وفات بلکہ آج میرا دل مسلمانوں کے عظیم ترین شاعر کے متعلق بے قرار ہوا جو جب تک حیات رہے تب تک مسلمانوں کے متعلق سوچتے رہے۔ صدیوں بعد ایسا کوئی ستارہ چمکتا ہے جسکی حیات بھی پیغام اور موت بھی پیغام۔ جسکا زوال کسی زمانے میں ممکن نہ ہو اور ہر آنے والا زمانہ اسکو یاد کر کے فخر محسوس کرے۔ وہ عالمگیر ہوتا ہے۔ اپنی ملت کے متعلق فکرمند ہوتا ہے۔ اسکا کلام دلوں کو جلا بخشتا ہے۔ وہ نوجوان قبیلے کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔ قبیلے کو اس سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کیا آج کا نوجوان بھی اقبال کے معیار پے پورا اترتا ہے؟ آج کا نوجوان کیا چاہتا ہے؟ آج کا نوجوان کن چیزوں کو اپنی زندگی میں لازم سمجھتا ہے؟ وہ کن اصولوں پے چلنا پسند کرتا ہے؟ مجھے اپنا موازنہ خود کرنا ہوگا اقبال کی تعلیمات کی روشنی میں۔ مجھے تحقیق کرنی چاہیئے کہ اقبال اپنی شاعری میں بار بار ایک نوجوان کو کیوں مخاطب کرتے ہیں؟ جیسے اقبال کہتے ہیں کہ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا کسی بھی معاشرے کا آئینہ اسکا فرد ہوتا ہے اگر فرد ٹھیک ہے تو معاشرہ ٹھیک ہے اگر فرد میں خرابی ہے تو معاشرے میں خرابی ہے۔ یہ وہ فکر ہے اقبال کی جس میں وہ نوجوان کو ایک مثالی فرد اور اس مثالی فرد سے ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی جانب بلاتے ہیں۔ جیسے اقبال کہتے ہیں کہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ہر فرد کو اپنی زمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور سب سے بڑھ کر مجھے اپنی زمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ بطور نوجوان معاشرے میں میرے قول اور فعل سے مثبت تبدیلی آ رہی ہے یا منفی؟ میں اپنے معاشرے میں موجود لوگوں کے لیے آسانی کا باعث بن رہا ہوں یا مشکل کا؟ اقبال قردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حسن قردار سے قرآن مجسم ہو جا ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے بطور نوجوان میں اقبال کا شاہین ہوں جو منزل قبول نہیں کرتا جو ہر لمحہ اک جستجو میں رہتا ہے۔ مجھے شاہین نایاب اور قلیل جبکہ کبوتر کثیر نظر آتے ہیں۔ اگر علامہ صاحب کی اپنی زندگی کی مثال پیش کروں تو وہ جدوجہد سے بھرپور ہے آپ رح کی زندگی ایک شاہین کی زندگی ہے جو میرے جیسے نوجوانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ اقبال تین سال مغرب میں رہے اور مغرب کی تین بڑی یونیورسٹیز سے تین بڑی ڈگرز حاصل کی۔ اقبال نے کیمبرج سے گریجویٹ کیا اسکے بعد بار ایٹ لا کی ڈگری لی پھر اقبال نے ہیڈلبرگ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایسا شاندار تعلیمی ریکارڈ آج کے نوجوان کے لیے نمونہ عمل ہے۔ آج کے نوجوان میں بدقسمتی سے وہ لگن اور وہ کاوش ناپید نظر آتی ہے۔ جیسے اقبال کہتے ہیں کہ گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کی اگر شکست نہں ہے تو اور کیا ہے شکست اقبال مجھ جیسے نوجوانوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ میں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس لیے برصغیر پاک و ہند میں اقبال واحد شخصیت تھے جنہوں نے صرف تیس سال کی عمر میں دنیا کی سات زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ جن میں چار مشرقی اور تین مغربی زبانیں تھیں۔ اقبال نے اپنی ذات کو رول ماڈل کے طور پر نوجوانوں کے سامنے پیش کیا۔ آج کا نوجوان جب مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اپنی تہذیب کو حقیر سمجھتا ہے تو حیرت ہوتی ہے ۔