وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ احتساب کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور این آر او ملک سے غداری کے مترادف ہے اس لئے وہ کسی بدعنوان کو یہ رعایت نہیں دیں گے۔ معاشرے کی مثالی شکل دیکھنے کے خواہش مندوں کو وزیر اعظم کی بات سے ذرہ برابر اختلاف نہیں ہو سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے کا بڑا حصہ جب بدعنوانی اور بددیانتی کو اپنی معاشی آسودگی کا ذریعہ تسلیم کر چکا ہو تو انہیں یہ سمجھانا کافی مشکل ہو گا کہ احتساب کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام کا دھرنا جاری ہے جس کا بڑا مطالبہ وزیر اعظم کا استعفیٰ ہے۔ اس مطالبے کے حق میں کون کون ہے اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ کم از کم آئینی و قانونی صورت حال تو اس استعفے کی تائید نہیں کرتی۔ جے یو آئی کے قائد مارچ اور پھر دھرنے کے دوران اہم فیصلوں کے لئے رہبر کمیٹی پر تکیہ کرتے رہے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے گریز کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کا کندھا استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن حقیقت یہی ہے کہ دھرنے کے مستقبل کے متعلق مولانا فضل الرحمن زیرحراست میاں نواز شریف کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ سیاستدان کی تربیت ایسی ہو رہی ہے کہ اپنا مطالبہ منوانے کے لئے وہ ہر حد پار کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ اگر وہ اقتدار میں ہو تو اپنے مخالفین کا راستہ روکتا ہے۔ تحریک انصاف نے جب لانگ مارچ کیا تو گوجرانوالہ میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے قافلے پر حملے کی کوشش کی۔ پرویز خٹک کی قیادت میں کے پی کے سے تحریک انصاف کا جلوس دھرنے میں شرکت کے لئے اسلام آباد آ رہا تھا۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں کسی پرامن جلوس کے خلاف گیس کے اتنے شیل استعمال نہیں ہوئے جتنے پنجاب پولیس نے تحریک انصاف کے لوگوں کو روکنے کے لئے استعمال کئے۔ مذہب اور مذہبی معاملات پر سیاست کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ علم و تحقیق سے وابستہ دینی اساتذہ تو اپنے ارفع کام میں مصروف رہتے ہیں مگر جو مذہبی سیاسی جماعتیں عوام کا تعاون اور حمایت حاصل نہ ہونے کے باعث معدومی کا شکار ہونے لگتی ہیں وہ اپنے جلسے جلوسوں میں حساس دینی عقاید پر اس طرح بات کرتی ہیں کہ عوام میں اشتعال پھیلے اور اس اشتعال کا رخ ان کے مخالفین کی طرف ہو جائے۔ مولانا فضل الرحمن کا دیا گیا الٹی میٹم تو اپنا وقت پورا کر چکا ہے لیکن اس طرح کی گفتگو اور اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مطالبات کو کسی اور طریقے سے منوانا چاہتے ہیں۔ دھرنے سے نمٹنے کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت نے وہ غلطیاں تاحال نہیں کیں جو مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میںکیں۔حکومت نے مارچ شروع ہونے سے قبل ہی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دیدی جس نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی کور کمیٹی سے مسلسل رابطہ رکھا اور ان کے مطالبات جاننے کی کوشش کی۔ مارچ کے شرکاء کو کسی جگہ روکا نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ سے روانہ ہونے والے کارکن تیسرے دن اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ حکومت نے اب بھی مذاکرات کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ ممکن ہے پس پردہ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہو۔ وزیر اعظم کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر بات کر چکے ہیں۔ یہ سارا عمل حکومتی رویے کو سنجیدہ اوربامقصد ثابت کرتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ اصلاحات سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے ‘ انتخابات اور قیادت کے انتخاب کا احاطہ کرتی نظر آنا چاہئیں۔ اس بات پر ہرشعبہ زندگی سے متعلق افراد کا اتفاق ہے کہ سیاست خدمت اور دیانتداری سے آراستہ نہ ہو تو اس کا تعلق جرائم اور قانون شکنی کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہر شخص کو سیاست میں حصہ لینے‘ اپنے خیالات کے لئے حمایت حاصل کرنے اور پھر اقتدار میں آ کر اپنا منشور نافذ کرنے کی آزادی ہے ۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس آزادی سے مستفید ہو رہی ہیں۔ کچھ خاندان اقتدار کواپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جمہوری نظام میں کوئی خاندان بادشاہت کا اختیار نہیں رکھتا۔ سیاسی اصولوں کی بابت رہبر کمیٹی میں شریک اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے 2014ء میں پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر جو تقاریر فرمائیں وہ قابل قدر ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت جب وہ اقتدار میں تھیں تو تحریک انصاف سے مذاکرات کے لئے آمادہ نہ تھیں۔ آج صورت حال بہت مختلف ہے مگر رہبر کمیٹی کے پاس ایسا کوئی چارٹر آف ڈیمانڈ نہیں جس پر بات چیت آگے بڑھ سکتی ہو۔ ممکن ہے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں دھرنے کا معاملہ زیر بحث لانے پر اپوزیشن کے مقررین نئے دلائل کا ڈھیر لگا کر حکومت کے لئے مشکل صورت حال پیدا کر دیں لیکن اس سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرنے والی تمام جماعتوں کو اطمینان ہونا چاہیے کہ حکومت نے دھرنا دینے والوں کو متکبرانہ انداز سے نظر انداز نہیں کیا بلکہ ہر موڑ پر ان کی بات سننے پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ امر امید افزا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے موقف میں لچک کے اشارے مل رہے ہیں۔ مولانا سیاسی حقیقت ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے مثبت تدابیر کا خیر مقدم کریں گے۔ اس بابت حکومت کو احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ یہ تاثر موجود نہیں رہنا چاہیے کہ حکومت اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا رہی ہے۔