بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کے ذریعے ٹی وی کے ایک لائیو شو میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے خلاف عالم عرب کے رد عمل نے عرب دنیامیں بھارتی سفارت کاری کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے۔ دس دن تک بھارت میں مسلمان نوپور شرما اور نوین کمار جندال کے خلاف کارروائی کی مانگ کر رہے تھے، مگر ان کو عرب دنیا کے رد عمل کے بعد ہی پارٹی سے معطل کر دیا گیا۔ پاکستان، ترکی، ملائیشیا بشمول آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے احتجاج کو بھارتی حکومتیں عموماً نظر انداز یا مسترد کرتی تھیں ، مگر عالم عرب کے رد عمل کی وجہ سے آجکل آئے دن مشرق وسطیٰ میں موجود بھارت کے سفارتکار ان ملکوں کے متعلقہ فارن آفیسز، میڈیا کے نمائندوں، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افرادکے دروازوں پر دستک دیکر یہ پیغام دینے کی کوششیں کررہے ہیں کہ بی جے پی کے ترجمانوں کا رد عمل اضطراری تھااور حکومت کا ان کے اس عمل کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے اورانکو اسکے لئے سزا بھی دی گئی ہے۔ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے بارے میں عالمی فورمز پر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے 2019سے سزا کے بطور بھارتی وزارت خارجہ نے ترکی کے ساتھ فارن آفس ڈائیلاگ کو معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ مگر اس قضیہ کے بعد آناً فاناً وزارت خارجہ میں سیکرٹری ویسٹ سنجے ورما نے انقرہ کا دورہ کرکے اس ڈائیلاگ کا احیا کر دیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں ترکی بھی عربوں کی طرح سرکاری طور پر احتجاج نہ درج کروادے۔ سینکڑوں سالوں کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں یا ان کے حکمرانوں نے عصبیتوں اور ذاتی فوائد سے بالاتر ہوکر ایک جسد واحد کی حیثیت سے عمل یا ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، تو اس کے خاصے دیرپا اور مثبت نتائج نکلے ہیں۔ عالم عرب کے اس رد عمل نے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کی نیندیں بھی حرام کر کے رکھ دی ہیں۔ اس سے قبل چاہے بابری مسجد کی مسماری کا ایشو ہو یا فرقہ وارانہ فسادات، ان کے فوراً بعد ہی کسی جید عالم دین یا دینی تنظیم کے رہنمائوں کو حکومت کی طرف سے مسلم ممالک کا دورہ کرواکے وہاں کے حکمرانوں تک پیغام پہنچایا جاتا تھا کہ یہ بس چند شر پسندوں کی کارستانی تھی اور یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور حکومت اس سے احسن و خوبی کے ساتھ نمٹ رہی ہے۔ انکو یہ بھی باور کرایا جاتا تھا کہ ان کی مداخلت سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوسکتی ہے۔ مگر چونکہ اسوقت معاملہ پیغمبر ﷺ کا تھا، اور شاید اب جید عالم دین یا دینی تنظیم کے لیڈر وں کو اس حد تک کنارے لگایا جا چکا ہے کہ وہ اب مسلم ملکوں میں بھارتی حکومت کی غیر سرکاری سفارت کاری کرنے سے گریزاں ہیں، اسلئے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے سفارت کار عالم عرب میں برپا ہونے والے رد عمل کی روک تھام نہیں کر پار رہے ہیں۔ یہ رد عمل اس حد تک چبھ رہا ہے کہ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر اور نظریہ سازشری رام مادھو نے مسلمانوں کو ایک تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے جس سے وہ بھارت میں سکون کے ساتھ زندگی گذار سکتے ہیں۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں، مسلمان غیر مسلموں کا کافر نہ کہیں، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور مسلمان جہاد کے نظرئے سے خودکو الگ کریں۔ پہلی اور تیسری شرط کیلئے مشاہرین اورعلماء کو رام مادھو کو جواب دینا چاہئے، دوسری شرط یعنی مسلمانوں کے امت کے تصورسے ہمیشہ ہی نہ صرٖ ف ہندو قوم پرست بلکہ لبرل عناصر بھی نالاں رہے ہیں اور ایک عرصہ سے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس کو رد کردیں۔ مجھے یا د ہے کہ ایک بار کشمیر کے بارے میں نئی دہلی میں محکمہ دفاع کی ایک تھنک ٹینک نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔ جہاں ایک سرونگ بریگیڈئرنے امت کے اس تصور کو ہی کشمیر کے ایشو کی جڑ قرار دیکر تجویز دی کہ اس کو بیج کنی کرنی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے مکہ میں فریضہ حج ادا کرنے سے بھی اس تصور کو تقویت ملتی ہے۔ اسلئے ان کی تجویز تھی کہ بھارت میں ہی مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کرکے یا مسلمانوں کو ہر سال سعودی عرب جانے کے بجائے درگاہ اجمیر جانے کی ترغیب دلائی جائے۔ اسی طرح ایک بار ایک ٹریک ٹو ڈائیلاگ میں بظاہر نہایت ہی لبرل کشمیری پنڈت دانشور نے بھی مسلمانوں کے امت کے تصور کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ بس یہی ایک چیز بین المذاہب ڈائیلاگ میں رکاوٹ آتی ہے۔ ان دنوں فرانس میں سکھوں کی پگڑی پہننے کا معاملہ درپیش تھا،اور بھارتی حکومت نے اسکو حکومت فرانس کے ساتھ اٹھایا تھا اور چین کے کیلاش پہاڑوں میں ہندووں کی مانسرور یاترا کی تیاریا ں بھی ہو رہی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آخر ان دونوں معاملات پر پھر بھارتی حکومت کیوں اتنی زیادہ فعال ہے؟ اس تصور کو تو پھر ہندو ازم سے بھی خارج کرنا ضروری ہے۔ 2007میں سمجھوتہ ٹرین دھماکوں کے بعدجب ہندو دہشت گردی کی بازگشت سنائی دینے لگی، تو میں نے جنوبی دہلی میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ویشیو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ہیڈ کوارٹر میں ہندو قوم پرستوں کے شعلہ بیان لیڈر ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا کا انٹرویو کیا۔ وہ اسوقت تنظیم کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری تھے۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا، کہ ‘‘آپ توایک ڈاکٹرہیں اور وہ بھی کینسر سپیشلسٹ۔ آپ انسانوں کے جسم سے کینسر دور تو کرتے ہیں، مگر سوسائٹی میں کیوں کینسر پھیلاتے ہیں۔‘‘ تو ان کا جواب تھا۔ ‘‘کہ ہم بھارتی سوسائٹی میں مدرسہ اور مارکسزم کو کینسر مانتے ہیں اور ان دونوں کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے وچن بند ھ ہیں۔ چاہے اسکے لئے سرجری کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے۔ــ‘‘ کئی اور سوالوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا، کہ بھارت میں تو تقریباً 15کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ اور ان سبھی کو تو آپ ختم نہیں کرسکتے۔ کیا کوئی شکل نہیں ، کہ ہندو اور مسلمان شانہ بہ شانہ پرامن زندگی گزارسکیں۔تو اپنے مخصوص انداز میں میز پر مکہ مارتے ہوئے انہوں نے کہا،‘‘ ہاں ہاں کیوں نہیں،ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں اعانت کی ہے۔ (جاری ہے)