مسلمان ایمان اور اعمال کے کسی درجے میں بھی کیوں نہ ہو، وہ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید اور اللہ کے آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتا ہے اور اس معاملے میں کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔ مغرب کو بھی یقینا مسلمانوں کی اس حساسیت کا پوری طرح اندازہ ہے۔ اسی لیے آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ مغربی دنیا میں رونما ہو جاتا ہے یا برپا کر دیا جاتا ہے کہ جس میں کتاب اللہ کی بے حرمتی یا نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے امت مسلمہ کی دلآزاری کی جاتی ہے۔ تین چار روز قبل ناروے میں قرآن پاک کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی جسے ایک مسلمان نوجوان عمر ڈھابہ نے ناکام بنا دیا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ساری اسلامی دنیا میں ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی مسلمان ہیں وہاں افسوس اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان میں بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی۔ گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے ناروے کا معاملہ عالمی فورمز پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان نے جنرل اسمبلی میں بھی کہا تھا کہ اسلام کسی بھی طرح کی دہشت گردی کی حمایت نہیں بلکہ شدید مذمت کرتا ہے۔ناروے کے دل خراش واقعے کے بارے میں وہاں سے کئی پوسٹیں سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی ہیں۔ میں وقت کی تنگ دامانی کے باوجود تھوڑے وقت میں جتنی زیادہ سے زیادہ تحقیق کر سکا ہوں وہ عرض کرتا ہوں۔ میری معلومات کے مطابق حالیہ واقعے میں ناروے کی جو تنظیم ملوث ہے اس کا نام ہے ’’سیان‘‘ ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ اسلام یعنی مسلمانوں کو ناروے میں پھلنے اور پھیلنے سے روکا جائے۔ اس تنظیم کا سربراہ 87سالہ آرنے تومر ہے۔ آرنے تومر نے ناروے جیسے پرسکون اور پرامن ملک میں بعض دوسرے یورپی ممالک کی دیکھا دیکھی چند برس پیشتر ایک تنظیم بنا لی تھی جس کا وہ خودسربراہ ہے۔ اسلامی دشمنی اس تنظیم کا بنیادی ہدف ہے۔ چند روز قبل آرنے نے ایک مظاہرے کا پروگرام بنایا۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ناروے کے شہروں میں مختلف مذاہب کے درمیان ڈائیلاگ اور مکالمہ ہوتا رہتا ہے۔ ان سیمیناروں میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ مختلف ادیان سے تعلق رکھنے والے اپنا اپنا مؤقف اور نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ پہلے آرنے بھی ڈائیلاگ فورمز میں شرکت کیا کرتا تھا مگر جب مسلم اسکالرز نے مختلف مواقع پر دلیل و منطق کے ساتھ اس کے مؤقف کو رد کر دیا اور سامعین نے دلائل کو درست قرار دیا تو آرنے کھسیانی بلی بن گیا اور وہ قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی پر اتر آیا۔ گزشتہ ہفتے جب آرنے تومر نے مسلم دشمنی کے اظہار کے لیے مظاہرے کا پروگرام بنایا تو اس سے ایک صحافی نے پوچھا کہ تمہارے مظاہرے کا مقصد کیا ہے تو نعوذباللہ اس دشمنِ اسلام نے کہا ہمارے مظاہرے کو آپ قرآن سوزی کی تقریب کہہ سکتے ہیں۔ ناروے کے جس شہر میں یہ افسوسناک واقعہ ہوا اس شہر کا نام ہے کرسٹین سینڈ اس اشتعال انگیز اعلان کے بعد وہاں کی مسجد کمیٹی کے صدر اکمل علی اور دیگر ممتاز مسلمان یہ واقعہ فوری طور پر پولیس اور سٹی کونسل کے علم میں لائے سب نے مسلمانوں کے مؤقف سے اتفاق کیا اور بتایا کہ مظاہرہ یہاں کے قانون کے مطابق ہر شہری کا حق ہے مگر قرآن سوزی فی الواقع ایک اشتعال انگیز کارروائی ہے جس کی ہم اجازت نہیں دیں گے اور اگر آرنے نے اس کی کوشش کی تو ہم اسے روک دیں گے۔ بعض مسلمان بالخصوص نوجوان اس کے اس اعلان پر بہت مشتعل تھے مگر مسجد کمیٹی کے صدر اور جامع مسجد کے امام نے مسلمانوں کو کسی طرح کی اشتعال انگیزی سے مکمل اجتناب کرنے کی تلقین کی۔ مظاہرے کے روز پولیس نے ایک قرآن تو اپنی تحویل میں لے لیا مگر آرنے تومر کے ایک ساتھی لارس تھورسن نے جیب سے فرقان حمید کا ایک اور نسخہ نکالا اور نعوذ باللہ اسے نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ جب نارویجین پولیس نے ایکشن لینے میں تاخیر کی تو غیرت ایمانی سے سرشار ایک مسلمان نے پولیس کی بنائی ہوئی ریڈ لائن کراس کی اور ملعون لارس تھورسن کو دبوچ لیا۔ اس واقعے پر ابھی تک ترکی اور پاکستان نے حکومتی سطح پر شدید احتجاج کیا ہے باقی مسلم ممالک خاموش ہیں۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ جدہ میں او آئی سی کے سیکٹریٹ میں ایک سا اجلاس ہو گا جس میں ناروے والے واقعے کی مذمت کر کے کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے مسلمانوں کی دلآزاری کے واقعات میں بڑی تیزی آئی ہے۔ غالباً اس کا سب سے بڑا سبب مغربی دنیا کے بعض دانشوروں اور حکمرانوں کا نائن الیون کے بعد اسلام دشمن رویہ ہے۔ 2005ء میں آقائے دو جہاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے بارے میں ڈنمارک کے اخبار نے 12تکلیف دہ خاکے شائع کیے۔ پھر ان خاکوں کو دیگر کئی یورپی ممالک کے اخبارات نے بھی شائع کیا تب جنوری، فروری 2006ء میں ساری دنیا میں شدید احتجاج ہوا تھا۔ یہ بات مسلمان حکمران مغرب کو نہیں سمجھا سکے کہ وہاں ایک فرد کی اہانت یا اس کی کردار کشی کو قابل دست اندازی پولیس سمجھا جاتا ہے اور وہاں کی عدالتیں اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں پر بھاری جرمانہ اور ہرجانہ عائد کرتی ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ابھی دو ہفتے قبل لندن کی ایک عدالت نے ریحام خان پر ایک غیر مصدقہ الزام عائد کرنے کی پاداش میں ایک پاکستانی نجی چینل کو مجرم قرار دیا۔ چینل کو درخواست گزار ریحام خان کو بھاری ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ اگر ایک فرد کی شخصی دلآزاری کو مغرب کی عدالتیں حساس جرم گردانتی ہیں تو وہ ایک مسلمان کی اپنی جان، اپنی ذات اور اپنی عزیز ترین ہستیوں سے زیادہ محترم شخصیت یا اپنی عزیز ترین کتاب کی بے حرمتی سنگین جرم کیوں نہیں سمجھتیں۔ یہ بات مغرب کو مسلمان حکمران سمجھا سکے ہیں اور نہ ہی مسلمان دانشور۔ ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمانوں کی قسمت کا اندازہ لگائیں کہ ان کے حکمران مغرب پر اپنی دولت تو نچھاور کرتے ہیں مگر انہیں یہ باور نہیں کرا سکے کہ مغرب مسلمانوں کے دینی جذبات و احساسات کا احترام کرے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں یہودی آٹے میں نمک کے برابر ہیں مگر بھلا مغرب کے کسی آزادی پسند میں ہمت ہے کہ وہ برملا ہولوکاسٹ کے بارے میں لب کشائی کرے۔ البتہ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر مرشد اقبالؔ نے ’’بیچارے مسلمانوں‘‘ کا جرم بھی بتا دیا ہے۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات فرمان ربانی ہے کہ مسلمان آپس میں نرم مگر غیر مسلموں کے لیے قوی ہوتے ہیں مگر آج کے مسلمان حکمران اپنی قوم کے لیے غیروں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ بہرحال مسلمانوں کو غوروفکر کر کے تسلسل کے ساتھ ایسی پالیسی اپنانی چاہئے جس کے بعد ناروے اور سویڈن جیسے واقعات کا تکرار نہ ہو سکے۔