یہ دارالحکومت کی معتبر ترین مارکیٹ تھی۔ میں نے اور میرے دوست نے ریستوران میں چائے پی۔ پھر میرا دوست پھل خریدنے ساتھ والی دکان میں گیا۔ میں ہمراہ تھا۔ یہاں چونکہ غیر ملکی گاہک نسبتاً زیادہ تعداد میں آتے ہیں، اس لیے قیمتوں کا حساب کتاب دیسی سے زیادہ گورا تھا۔ ایک حد سے زیادہ متشرع بزرگ کائونٹر پر تشریف فرما تھے۔ میرے دوست نے قیمت ادا کی۔ بزرگ نے باقی پیسے واپس کیے اور فوراً دوسرے گاہک کی طرف متوجہ ہو گئے۔ میرے دوست نے رقم گنی۔ بیس روپے کم تھے۔ اس نے کائونٹر والے بزرگ سے کہا، آپ نے بیس روپے اور دینے ہیں۔ بزرگ مسکرائے اور کہا ’’آپ نے مانگے ہی نہیں۔ وہ تو میں نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں۔‘‘ اسی شام نواسی ایک فیشن ایبل ماڈرن شاپنگ مال میں لے گئی۔ ایک جدید، امریکی، فاسٹ فوڈ دکان سے کھانا خریدا۔ پیسے دیئے۔ مشین پر ٹھک ٹھک ہوئی۔ رسید نکلی۔ ریزگاری واپس ہوئی۔ میں نے گنی۔ پانچ روپے کم تھی۔ کائونٹر والے کو بتایا تو اس نے پہلے تو غور سے مجھے دیکھا پھر پانچ روپے ہتھیلی پر اس طرح رکھے جیسے میں بھکاری ہوں۔ یوں لگا جیسے میری عزت نفس کے سفید پردے پر ایک داغ لگ گیا۔ واپسی پر ہم نے گاڑی میں پٹرول ڈلوایا۔ رقم ادا کی۔ واپس جو پیسے ملے، گنے تو دس روپے کم تھے۔ کیشیئر نے گلے میں ایک بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ رقم واپس دے کر وہ کافی دور، ایک اور گاہک سے وصولی کر رہاتھا۔ میں گاڑی اس کے پاس لے گیا۔ دس روپوں کا تقاضا کیا۔ وہ کافی دیر دوسرے گاہک سے نمٹتا رہا۔ یا یہ ظاہر کرتا رہا کہ مصروف ہے۔ میں گاڑی روک کر ثابت قدمی سے موجود رہا۔ پھر اس نے مجھے پانچ پانچ روپے کے دو زرد رنگ سکے دیئے۔ یہ اس دن کی میری دوسری بھیک تھی۔ یہ تینوں واقعات ایک دن کے ہیں۔ کالم نگار ساری دنیا پھرا ہے۔ قارئین میں بے شمار ایسے ہوں گے جو اس سے بھی زیادہ جہاں نوردی کر چکے ہوں گے۔ بہت سے مستقل بیرون ملک قیام پذیر ہیں۔ آج تک خریداری کرتے ہوئے کہیں، کبھی، ایسا نہیں ہوا کہ بقایا رقم کم ملی ہو۔ ایک ایک پیسہ، ایک ایک سینٹ واپس کیا جاتا ہے۔ گاہک کو بھکاری بنانے کا یہ مکروہ رواج پاکستان ہی میں کیوں ہے؟ اس پر غور کیجئے تو دو سبب دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا سبب وہ عمومی بددیانتی ہے جو ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ پوری قوم، کیا متشرع، کیا بظاہر ماڈرن، روزمرہ کے معاملات میں شرم ناک حد تک جھوٹی، وعدہ شکن اور ناقابل اعتبار ہے۔ پھل والی دکان کا سیلز مین اس لیے بددیانت نہیں تھا کہ وہ متشرع تھا۔ وہ اس لیے بددیانت ہے کہ ایک بددیانت قوم کا فرد ہے۔ فاسٹ فوڈ کے کائونٹر پر بیٹھا ہوا بددیانت لڑکا تو جینز پوش تھا۔ پٹرول پمپ کا کیشیئر بھی بے ریش تھا۔ ہم، بطور قوم، حلال خوری پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ آپ عوام کو لاکھ بتائیے زرداری نے بیرون ملک اتنی دولت اکٹھی کی ہے، اتنے محلات بنائے ہیں، نوازشریف کا دھن پانچ براعظموں پر پھیلا ہوا ہے۔ کسی کے کان پر جون نہیں رینگے گی۔ اس لیے کہ زرداری اور نوازشریف کسی دوسرے براعظم سے ہجرت کر کے آئے ہیں نہ ہی مریخ سے اترے ہیں۔ اسی قوم کے افراد ہیں۔ انہیں میدان وسیع تر ملا۔ دولت اسی حساب سے بنائی، معاملات بیرون ملک تک لے گئے۔ جنہیں میدان تنگ ملا، کسر انہوں نے بھی نہیں چھوڑی۔ جو سڑک بنوا رہا تھا، اس نے اسی میں حرام کمالیا۔ جو دفتر بیٹھا تھا، اس نے سائل کو دبوچا، پانچ سو روپے ملے تو وہ جیب میں ڈال لیے، پچاس ہزار ملے تو وہ لے لیے۔ ٹھیکہ بڑا تھا، میزائلوں کا، یا آبدوزوں کا، یا کوئی ترقیاتی پراجیکٹ تھا تو کک بیک کی رقم سوئٹزرلینڈ یا دبئی کے بینک میں منگوالی۔ ہر کوئی چھری کانٹا تیز کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی ٹوسٹ پر مکھن اور جام سے گزارا کر رہا ہے جس کا ہاتھ اوپر پہنچتا ہے وہ چرغہ کھا رہا ہے۔ پٹرول پمپ والا، فاسٹ فوڈ والا، میوہ فروش، ہر کوئی حرام کے پانچ پانچ، دس دس، بیس بیس جمع کرنے میں مصروف ہے۔ افضل منہاس کا شعر یاد آ رہا ہے ؎ وہ جنگ زرگری ہے کہ محشر بپا ہوا ہر شخص ایک عمر سے اگلی صفوں میں ہے پھر بے شرمی، بے حیائی اور ڈھٹائی اس قدر ہے کہ پٹرول ڈلوانے والا کوئی کوئی سر پھرا اپنی رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کے جاتے ہی کیشیئر اس کے لتے لینے لگتا ہے کہ اونہہ! پندرہ لاکھ کی، پچیس لاکھ کی گاڑی رکھتا ہے اور دس روپے کے لیے پاگل ہوا چاہتا ہے۔ کنجوس کہیں کا۔ رمضان کے دنوں میں افطاری کا سامان خریدتے وقت ہجوم زیادہ ہوتا ہے۔ جلیبی والا، پکوڑوں اور سموسوں والا، اکثر و بیشتر ریز گاری کم دیتا ہے ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان دکان داروں نے بھول کر گاہک کو رقم زیادہ دی ہو۔ جب بھی بھولتے ہیں، بھول کی سزا گاہک کو ملتی ہے۔ رقم ہمیشہ کم واپس ملتی ہے۔ قومی سطح کی اس بددیانتی کے ڈانڈے دور دور تک گئے ہیں۔ تاجر، کارخانہ دار، سیاست دان، ڈاکٹر، وکیل سارے طبقے پورے جوش و خروش کے ساتھ شامل ہیں۔ کالج سکول کا استاد، نقد پر ہاتھ نہیں مار سکتا تو پیریڈ گول کردیتا ہے۔ سرکاری کالجوں میں اساتذہ ہفتوں کلاس روم سے غائب رہتے ہیں، ان تمام طبقات میں کچھ دیانت دار ضرور موجود ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ کیا خبر فرشتے آٹے میں اس نمک کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں ورنہ ہمارا حال تو یہ ہوتا ؎ اور اب اسے ایک غیب کا ہاتھ انڈیل دے گا کہ صبر کی انتہا سے بستی چھلک رہی ہے دوسرا سبب قومی سطح پر ہمارا غیر سنجیدہ اور ڈنگ ٹپائو رویہ ہے۔ اس رویے کو چودھری شجاعت حسین صاحب نے کمال کا عنوان دیا ہے۔ ’’مٹی پائو‘‘۔ یہ عنوان اب پاکستان کے طول و عرض میں بچے بچے کا طرز حیات بن چکا ہے۔ یہ رویہ کیا ہے؟ اپنا حق نہ مانگنا، احتجاج نہ کرنا، کوئی کرے تو اسے فوراً مشورہ مفت دینا کہ چھوڑیئے جناب رہنے دیجئے، دکاندار کو معلوم ہے کہ نوے فیصد گاہک اپنی جھوٹی انا کی خاطر یا مٹی پائو رویہ کی رو میں بہہ کر بقایا رقم پوری نہیں مانگیں گے۔ اس یقین کامل اور خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ دکاندار یا سروس سٹیشن والا بتاتا تک نہیں کہ اتنے روپے کم ہیں، بہت سے صاحب لوگ تو بقایا رقم گننے کی تکلیف بھی نہیں کرتے۔ ریستوران میں کھانے کا بل کوئی نہیں چیک کرتا۔ جب بھی چیک کیا، اکثر مار دھاڑ سے بھرپور نکلا۔ آپ اپنی خوشی سے ایک ہزار روپے انعام یا بخشش دے دیجئے۔ مگر زبردستی کوئی آپ کا ایک دھیلا بھی کیوں رکھے؟ یہ سراسر استحصال ہے یا بلیک میلنگ۔ یہی رویہ جب پودے سے درخت بنتا ہے تو قومی خزانے میں سے اربوں کی چوری پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ یہ رویہ دبے پائوں کارپوریٹ سیکٹر میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ بجلی گیس یا ٹیلیفون کا بل ادا کریں گے تو بینک کا کلرک کچھ پیسے رکھ لے گا۔ یاد آیا، ان دنوں بیٹی یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی۔ اس کی فیس جمع کرانے ایک بڑے نامی گرامی بینک میں گیا۔ رقم واپس ملی تو کم تھی۔ بینک منیجر کے پاس چلا گیا۔ اس نے کائونٹر والی لڑکی کو بلا کر باز پرس کی۔ لڑکی نے عذر پیش کیا کہ اس کے پاس دس روپے نہیں تھے مگر سوال یہ ہے کہ کسٹمر کو بتایا کیوں نہیں جاتا؟ معذرت کیوں نہیں کی جاتی؟ مدتوں پہلے ایک واقعہ سنا تھا۔ ایک دکاندار بہت نیک، حلال حرام کے ضمن میں حد درجہ محتاط، دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا۔ دنیا سے کوچ کر گیا۔ کسی کے خواب میں آیا پوچھا حساب کتاب کی سنائو، کیا گزری؟ کہنے لگا غلہ وصول کرتے وقت تولتا تھا تو ترازو کے پلڑے میں غلے کی ڈھیری بن جاتی تھی۔ کچھ دانے کناروں سے گر جاتے تھے جو بعد میں سمیٹ کر ایک طرف کرلیتا تھا۔ بس ان دانوں کے حساب کتاب کی مصیبت پڑی ہوئی ہے۔ وہ غلہ دینے والوں کا مال تھا جو وزن سے باہر رہ جاتا تھا۔ نہ جانے دکاندار پر کیا گزری۔ حالانکہ یہ ’’مال‘‘ کسی ارادے کے بغیر لاپروائی سے، اس کی ملکیت میں آ جاتا تھا۔ جو دوسروں کا مال، پورے ارادے کے ساتھ، مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ رکھتے ہیں، سوچ لیں کہ حساب کتاب ان کا بھی ہوگا۔ کروڑوں روپے ہیں یا پانچ روپے۔ ’’جو ایک ذرہ بھر برائی کرتا ہے، اسے دیکھے گا۔‘‘