داراشکوہ ۔ حضرت میاں میرؒ کا ازحد عقیدت مند تھا،آپؒ کی وفات سے دارا کی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ کسی سے اوجھل نہیں اور آپؒ کی محبت کی جو چنگاری دارا کے دل میں جا لگی تھی،وہ برابر سلگتی رہی۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت کی وفات کے بعد انہوں نے غائبانہ طو ر پر مجھے مشاہدہ اور مراقبہ سکھایا ،ان کی وجہ سے مجھے لیلۃ القدر کی زیارت ہوئی ۔داراشکوہ حضرت میاں میرؒ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن اس سال یعنی۱۶۳۵ء میں حضرتؒ کا وصال ہو گیا اور اس کی مراد بر نہ آسکی ۔چنانچہ پانچ سال بعد،حضرت میاں میرؒ کے مرید،خلیفہ اور قادری سلسلے کے شیخ حضرت ملاّ شاہ بدخشی ؒکے ہاتھ پر ۱۶۴۰ء میں بیعت ہوا۔حضرت میاں میرؒ کے وصال کے وقت داراشکوہ کی عمر تقریباً بیس سال تھی۔وہ خود لکھتا ہے کہ حضرتؒ کے وصال کے وقت اکبر آباد( آگرہ) میں تھا۔پچھلی شب خواب دیکھا کہ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضر ہوں،حضرت بعض نصیحتیں کر کے فرماتے ہیں کہ’’تو ہماری نماز جنازہ ادا کر‘‘۔اس خواب سے طبیعت سخت مضطرب اور اداس ہو گئی،اپنے محبوب شیخ اور مُربّی کا یوں دنیا سے اُٹھ جانا کسی بڑے سانحے سے کم نہ تھا۔رنج وا لم کی کیفیت طاری تھی کہ چند ہی روز میں لاہور سے یہ المناک خبر سنی کہ عین اسی دن اور اسی وقت،جب داراشکوہ،خواب میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا،حضرت میاں میرؒ دنیا سے وصال فرما گئے ۔’’تحقیقات چشتی ‘‘کے مطابق حضرت میاں میرؒ کی خانقاہ سے متصل ایک موضع ہاشم پورہ آباد تھا،جس میں ڈھوڈی راجپوت برادری کی اکثریت آباد تھی،جو کہ شاہی دربار تک رسائی اور کثیر دولت وثروت کے حامل تھے ۔داراشکوہ نے ذاتی دلچسپی اور بڑی محنت سے یہ تمام زمین ،جہاں اب چار دیواری ہے،ان لوگوں سے انتہائی قیمتی نرخوں پر صرف اس لیے حاصل کی کہ بعدازاں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ داراشکوہ نے بزور حکومت یہ زمین حاصل کر کے خانقاہ میں شامل کردی۔مزار شریف اور خانقاہ کی تعمیر عالیشان انداز میں کر کے،داراشکوہ نے حضرت میاں میرؒ کے خواہر زادے محمد شریف کے سپرد کر دی۔اس میں کوئی شک نہیں حضرت میاں میرؒ کے مقبرہ ومتعلقہ عالیشان عمارات جو کہ سنگ ِسرخ و سنگ مرمر سے مزین ہیں،داراشکوہ ہی کی تعمیر کردہ ہیں۔اگرچہ ان تعمیرات میں بعدازاں اورنگ زیب نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور اپنے عہد میں سابقہ زیر تکمیل منصوبے کو عملی شکل دی۔تاہم تاریخ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ جملہ عمارات کی بنیاد داراشکوہ ہی نے رکھی۔ بالخصوص جب مقبرہ وغیرہ کی چاردیواری قدآدم ہو گئی،تو داراشکوہ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔اس حادثے کے سبب تعمیرات کا سلسلہ رُکا رہا۔بالخصوص اس کا منصوبہ جس کے لیے اس نے بہت اسباب عمارت اور پتھر وغیرہ اکٹھا کروایا تھا وہ یہ تھا کہ’’شاہی قلعہ سے حضرت میاں میرؒ کے دربار تک ‘‘سنگ ِسرخ کی ایک سڑک تعمیر کروائے جس پر’’پابرہنہ‘‘چل کر روزانہ حضرت کے مقبرہ پر حاضری کی سعادت حاصل کر سکے۔اس عظیم منصوبے کے لیے جو بیش قیمت اور بتعداد کثیر تعمیراتی میٹریل اکٹھا کیا گیا تھا۔ اورنگ زیب نے اس کو یہاں سے اٹھو ا دیا اورقلعہ کے مغربی جانب عظیم الشان بادشاہی مسجد تعمیرکروائی۔تاریخ نگار اورنگ زیب اور داراشکوہ کے اختلافات کو،اورنگ زیب اور شاہجہان کے درمیان جاری کشمکش سے کہیں زیادہ گہراقرار دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہجہان اپنے تاج وتخت کے حوالے سے داراشکوہ کو واضح ترجیح دیتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ یہ معاملہ بغیر کسی خانہ جنگی کے طے پا جائے۔تاج وتخت کا حصول اور اس کا علی الاعلان دعویٰ دونوں بھائیوں کے اختلاف کی بنیاد تھا۔بایں وجہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور جان کے دشمن تھے۔علاوہ ازیں اُن کا اختلاف فقط ذاتی مقاصد وخواہشات کی حد تک بھی محدود نہ تھا بلکہ ان کے درمیان ان کے مزاج ،اطوار،عقائد اور رجحانات کے اعتبار سے بھی بُعدالمشرقین تھا ۔داراشکوہ اور اورنگ زیب دونوں مذہبی آدمی تھے لیکن ان کے مذہبی رجحانات میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔داراشکوہ وسیع المشرب جب کہ اورنگ زیب متشرع بلکہ بنیاد پرست علماء کا پیروتھا۔بلاشبہ برصغیر کی متصوفانہ تاریخ میں یہ عہد قادری سلسلے کے عروج اور شخصی طور پر حضرت میاں میرؒ کی روحانی سطوت کا دور تھا۔حضرت میاں میرؒ اور ان کے خلفاء کی عنایات کے سبب،داراشکوہ کو قادری سلسلے کے بزرگوں،خانقاہوں اور متعلقین کی خصوصی اعانت میسرتھی ،وہ مستقبل میں داراشکوہ کی حکومت اور اقتدار کے لیے دعا گو رہتے،جن میں ملّا شاہ بدخشی قادریؒ،شیخ محب اللہ بہاریؒ اور سرمدؒ جیسی ہستیاں خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔سلطنت کے حالات داراشکوہ کے موافق نہ رہے،اور۱۶۵۸ء کو اورنگ زیب تخت شاہی پر متمکن ہوا۔سرمد قتل ہوگیا جب کہ داراکے پیرومرشد ملّا شاہ بدخشی ؒنے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی۔بایں وجہ داراشکوہ کے جاری تعمیراتی منصوبوں کا متاثر ہونا بھی ایک فطری عمل تھا جن میں حضرت میاں میرؒ کے مزار کی تعمیر بطور خاص قابل ذکر ہے۔کنہیا لال ہندی نے تویہ بھی لکھا ہے کہ داراشکوہ کی موت کی وجہ سے خانقاہ کی تعمیر میں تعطل آ گیا، تو درگاہ سے منسلک خاندان اور احباب ومتوسلین اورنگ زیب عالمگیر کی خدمت میں حاضر ہو کر عرضگذار ہوئے اور تعمیراتی تاخیر اور تعطل کی بابت شکوہ پیش کیا،جس کے سبب یہ تعمیر دوبارہ شروع ہوئی تاہم یہ مقبرہ اور خانقاہ جس انداز میں داراشکوہ چاہتا تھا وہ نہ بن سکا۔مؤرخ لاہور،میاں محمد دین کلیم قادری،حضرت میاں میرؒ کے حوالے سے اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ حضرت میاں میرؒ کے مقبرہ،خانقاہ عالیہ،چار دیواری اور مسجد وغیرہ شہزادہ داراشکوہ نے تعمیر کروائی، مقبرے کا چبوترہ 26x26قدم ہے،جو مکمل طور پر سنگ ِمرمر سے تعمیر شدہ ہے۔شمال اور جنوب کی طرف سیڑھیاں سنگ مرمر کی ہیں اور چبوترے کے درمیان مقبرہ کی عمارت ہے جس کا ایک زینہ سنگ ِمرمر کا اور چوکھٹ سنگ ِسرخ کی ہے ۔اندرون مقبرہ کاتمام فرش سنگ مر مر کا ہے،جس میںسنگِ موسٰی اور سنگِ سیاہ کی گل کاری ہے ۔اس مقبرہ کے تین اطراف محرابیں قالبوتی اور اندروانی عمارت میں قدِآدم سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔گنبد کی چھت شیشہ کے کام سے منقش ہے۔آپ کے مزار کے احاطہ کی غربی دیوار کے درمیان تعمیر شدہ مسجد بھی داراشکوہ کی تعمیر کردہ ہے۔میاں محمد دین کلیم مزید لکھتے ہیں کہ شہزادہ داراشکوہ نے حضرت میاں میر ؒاور حضرت مُلّا شاہ بدخشی جو شہزادے کے پیرو مرشد تھے،کی خانقاہیں اور مقابر لاہور میں تعمیر کرائے تھے اور اس کی یہ خواہش تھی کہ شاہی قلعہ لاہور سے ایک سڑک آپؒ کے مزار اقدس تک بنوائی جائے اور خود پیادہ پا حضور کے مزار پُر انوار پر حاضری دینے کی سعادت حاصل کر سکے ۔ اس غرض سے اس نے’’کثیر التعداد قیمتی پتھر از قسم سنگِ مر مر اور سنگ ِسرخ‘‘باہر سے منگوائے۔لیکن افسوس کہ زندگی کے دن پورے ہو چکے تھے،اس کی یہ نیک آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ گئیں ۔اورنگ زیب عالمگیر نے تینوں حقیقی بھائیوں (شہزادہ داراشکوہ،شہزادہ مراد اور شہزادہ شجاع ) کو قتل کر کے اور والد شاہجہان کو قید کر کے ہندوستان کے تخت پر قبضہ کر لیا ۔اس کے بعد اورنگ زیب نے سڑک کی تعمیر کو فضول قرار دیتے ہوئے شاہی قلعہ لاہور کے بالمقابل ایک نہایت عظیم الشان مسجد بنانے کا حکم صادر فرمایا اور اس طرح وہ تمام پتھر اور سامان عمارت جو سڑک کی تعمیر پر خرچ ہونا تھا۔اس سے دنیا کی ایک بڑی اور عظیم الشان جامع مسجد تعمیر ہو گئی۔(جاری ہے)