پاکستان کی تباہی، بربادی، غربت و افلاس اور معاشی زوال کی وجوہات کا جائزہ لیں تو وہ تمام وجوہات صرف ایک فقرے میں سما جاتی ہیں، ’’ہمارے پالیسی سازوں کا احساس کمتری اور ’’جذبۂ حب الوطنی سے محرومی‘‘۔ اس ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت جو بار بار اقتدار پر مسلّط رہی ہے، حکومت چلانے کے معاملے میں ان کا علم اور استعداد بہت محدود ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کی تو اکثریت ہی نیم خواندہ اور جہالت کا پیکر ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے چند خاندانی یا ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے میدانِ سیاست میں کودتے ہیں۔ میدانِ سیاست میں کئی دہائیاں گزارنے کے باوجود بھی وزیروں، مشیروں اور اراکینِ اسمبلی کی ایک واضح اکثریت ایسی رہ جاتی ہے، جسے نظام حکومت کی بہت کم سمجھ بوجھ ہوتی ہے۔ عدم استعداد کا عالم یہ ہے کہ انہیں کسی بھی معاملہ کی فائل تک پڑھنا نہیں آتی۔ رہا معاملہ خاص افسروں کا تو وہ اپنی گذشتہ ٹریننگ کے باوصف، سیکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور چند سال لگا کر سیکھ بھی لیتے ہیں، لیکن ان کے مزاج میں رچی بسی گذشتہ نوکری کی کئی سالوں کی منظم زندگی کی یہ خصوصیت کہ ’’حکم کی غیر مشروط بجاآوری کرنا ہے‘‘ ان کے لئے مشکلات پیدا کرتی رہتی ہے۔ وہ خود بھی کسی جائز و ناجائز حکم کا نہ انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ایسے کسی حکم کا انکار برداشت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے ادوار میں سیاست دان اور جرنیل دونوں ہی بیوروکریسی پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتے ہیں اور اپنی نکیل ان کے ہاتھوں میں تھما کر خود حکومت کے مناصب جلیلہ کے مزے اُڑاتے ہیں۔ یہ بیورو کریسی، باقی تمام معاملات میں تو اپنے ’’مخصوص کمالات‘‘ دکھانے کے قابل رہی ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عالمی معاشی گھن چکر اور سُودی مالیاتی نظام کے تقاضوں کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے اب ان کے اس میدان میں پَر جلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے میدان میں صرف چند درجن ماہرین ہی کا راج چلتا چلا آ رہا ہے۔ ان معاشی ماہرین کی اکثریت درآمد شدہ (imported) ہی نہیں ہے، بلکہ یہ مخصوص معاشی برانڈ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے "Branded" بھی ہیں۔ گذشتہ ایک صدی سے معیشت کا جو علم برٹین ووڈ سے جنم لینے والے عالمی سُودی معاشی نظام نے اپنے تحفظ کی لوریاں یاد کروانے کے لئے یونیورسٹیوں میں تخلیق کیا ہے، یہ تمام معاشی ماہرین اسی علم کے تیراک ہوتے ہیں۔ جدید سُودی معاشی اصطلاحات میں سوچتے ہیں اور کارپوریٹ معیشت کے ترتیب دیئے ہوئے پیمانوں پر ملکی معیشت کی ترقی اور زوال کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان ماہرین کی تعداد پورے ملک میں بہت کم ہے، جب کہ ان میں سے منظورِ نظر معیشت دانوں کی تو گنتی اتنی تھوڑی سی ہے کہ شاید دو درجن بھی پورے نہ ہو سکیں۔ ایک صدی قبل جب عالمی معیشت سادہ اور آسان ہوا کرتی تھی تو برصغیر میں انگریز نے سول سروس میں ایک شعبہ ان کے لئے مختص کیا ہوا تھا جسے انڈین فنانشل سروسز (IFS) کہا جاتا تھا، جس کے ساتھ اکائونٹس اور کسٹم ریونیو وغیرہ کے محکمے منسلک تھے۔ ابھی تک دنیا میں موجودہ عالمی مالیاتی نظام نے اپنے پَر نہیں پھیلائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی کا یہ کیڈر ہی ملکی معیشت کو سنبھال لیتا تھا۔ تحریک پاکستان کا ایک بہت بڑا ’’معجزہ‘‘ انہی سول سروس کے معیشت دانوں کے ہاتھوں اچانک ’’سرزد‘‘ ہو گیا تھا۔ اس ’’معجزے‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر یہ ماہرین درست سمت پر چل پڑیں تو اس ملک پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ قیام پاکستان سے ذرا پہلے جب مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کی تو اس کا مطالبہ تھا کہ ہمیں تین بڑی وزارتوں، خارجہ، داخلہ یا دفاع میں سے کوئی ایک وزارت دی جائے۔ نہرو، خود کو وزیر خارجہ کے لئے بہترین اُمیدوار سمجھتا تھا، جبکہ پٹیل نے کہا تھا کہ اگر اسے وزارتِ داخلہ نہ دی گئی تو کابینہ میں شامل نہیں ہو گا۔ کانگریس کے ایک مسلمان رُکن رفیع احمد قدوانی نے اپنی پارٹی کو شرارتاً یہ مشورہ دیا کہ اگر تم مسلم لیگ کو وزارتِ خزانہ کی پیشکش کر دو تو بہت اچھا ہو گا۔ مسلمانوں کا کیا کام روپے پیسے کے لین دین سے، بجٹ سر پر ہے، یہ لوگ بنا نہیں پائیں گے، بلکہ عین ممکن ہے ناکامی کے خوف سے وہ یہ وزارت ہی نہ لیں۔ انڈین بیوروکریسی کی فنانشل سروس میں اس وقت تین اہم مسلمان افسران، (1) ملک غلام محمد، (2) چودھری محمد علی اور (3) زاہد حسین نے مسلم لیگ سے کہا کہ ہم بجٹ بنانے کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں، آپ وزارتِ خزانہ کا بوجھ اُٹھا لیں اور یوں لیاقت علی خان وزیر خزانہ بن گئے۔ ان تین معاشی ماہرین کی محنت سے وزیر خزانہ لیاقت علی خان نے 28 فروری 1947ء کو ایک ایسا بجٹ پیش کیا جسے تاریخ میں غریب آدمی کا بجٹ کہا جاتا ہے۔ لیاقت علی خان کی تقریر کے یہ ابتدائی کلمات ایک تاریخی گونج کی طرح آج بھی تھرّاتے ہیں۔ " “It will be my particular endeavour to reduce, to the maximum extent possible, the glaring disparities that exist between the income and standards of life of the wealthy classes and the vast multitude of poverty stricken masses." (یہ میری خصوصی تگ و دو ہے کہ میں آمدنی اور معیارِ زندگی کے اس فرق کو جہاں تک ممکن ہو سکے کم کر سکوں جو امیر طبقات اور غربت کی ماری ہوئی عوام کے درمیان موجود ہے)۔ یہ بجٹ تقریر صرف الفاظ کا خوبصورت گلدستہ ہی نہیں تھی بلکہ معاشی ماہرین نے جو اقدامات اس بجٹ میں تجویز کئے تھے وہ حیران کن حد تک انقلابی ثابت ہوئے۔ ہندوستان کے سرمایہ داروں کی اکثریت ہندو ہونے کی وجہ سے کانگریس کی حمایت کرتی تھی، اسی لئے ان کے لئے تو یہ بجٹ ایک تازیانہ ثابت ہوا مگر اس کے برعکس پورے ہندوستان کے غریب عوام میں اس کا چرچا ہو گیا۔ قیام پاکستان کے وقت ان مسلمان معاشی ماہرین کا یہ کارنامہ، اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ اگر یہ ماہرین عالمی اقتصادی مالیاتی نظام اور سیاسی مفادات سے آزاد ہو کر سوچیں تو اپنی صلاحیتوں سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ پاکستان جن بدترین معاشی حالات میں آزاد ہوا تھا، اس کے بارے میں عمومی تجزیہ کار اور خصوصاً کانگریس زدہ ماہرین یہی تبصرہ کر رہے تھے کہ مسلمان اس تباہ حال ملک کو نہیں چلا سکیں گے لیکن قائد اعظمؒ کی بصیرت کا کمال ہے کہ انہوں نے چودہ اگست کو ہی ملک غلام محمد کو وزیر خزانہ لگا دیا۔ اس کے بعد 24 اکتوبر 1951ء کو چوہدری محمد علی وزیر خزانہ بنا دیئے گئے۔ یہ دونوں لیاقت علی خان کے پیش کردہ ’’غریب آدمی کے بجٹ‘‘ والی ٹیم کے ممبر تھے۔ ہماری بدقسمتی کا آغاز اس وقت ہوا جب ہم نے اپنی خارجہ پالیسی اور معاشی آزادی امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دی۔ (جاری ہے)