ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات ایک عظیم پاکستانی کی رخصتی ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات ارشاد احمد حقانی کے آفس میں ہوئی۔ اب وہ زمانہ خواب لگتا ہے حقانی صاحب بھی چلے گئے، ڈاکٹر صفدر محمود بھی رخصت ہوئے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایک ممتاز مورخ اور محقق تھے،درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے ، سول سروس میں بھی اعلی عہدوں پر فائز رہے اور کالم بھی لکھتے رہے۔ انہیںیونیسکو کے عالمی ایجوکیشن کمیشن کے نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز ملا اور وہ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر کے طور پر لیکچر دیتے رہے ۔کم و بیش 20 کتابوں کے مصنف تھے۔تحریک پاکستان تا،ریخ پاکستان، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی ان کے خاص موضوعات تھے۔ ان کی تحقیق کو باہر بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ان کی کتابوں کے جرمن ،عربی ، سندھی اور چینی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔شخصیت کی اس قدر ہمہ جہتی میں ان کا اعزاز اور آخری حوالہ یہ تھا کہ وہ پاکستان کے عاشق اور قائداعظم کے ایسے سپاہی تھے جو اپنی آخری سانس تک پاکستان کے بدخواہوں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کے خلاف قلم سے جہاد کرتے رہے۔اپنی آخری کتاب ’سچ تو یہ ہے ‘ کے پیش لفظ میں ڈاکٹر صفدر محمود نے کتاب کو لکھنے کا محرک یوں بیان کیا کہ’’ ایک روز پنجاب کے دور افتادہ ضلع سے ایک طالبہ کا فون آیا ،اس نے روتے ہوئے کہا کہ کسی نے قائداعظم کے بارے میں بڑی تکلیف دہ باتیں لکھی ہیں میں نے بچی کو دلاسہ دیا کہ ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔ پھر کہا کہ تم فکر نہ کرو میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔پھر میں نے تاریخی حوالے دے کر مدلل انداز میں اس جھوٹ کے سامنے سچ رکھا تو اس کالم نگار نے لا جواب ہو کر چپ سادھ لی‘‘ڈاکٹر صفدر محمود نے تمام عمر اسی طرح اپنے قلم سے جہاد کیا۔میں نے ان کی آخری کتاب سچ تو یہ ہے پر حال ہی میں ایک کالم لکھا ۔یہ کتاب دراصل قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے حقائق مسخ کرنے والوں کو تاریخی شواہد کی بنا پر ڈاکٹر صفدر محمود کا مدلل جواب ہے 238. صفحات کی مختصر کتاب پڑھنے لگیں تو اس کے پیچھے کی گئی ڈاکٹر صفدر محمود کی محنت اور تحقیق کا اندازہ ہوتا ہے اس کتاب کو پڑھ لینا اس موضوع پر لائبریری چھان لینے کے برابر ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بہت بڑے آدمی تھے، ان کی پاکستان کے لئے بہت خدمات ہیں۔ لیکن افسوس کہ ان کے جانے پر الیکٹرانک میڈیا کو جس طرح سے ان کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ میڈیا کے یہ اصول اور ضابطے کس نے کس کے ایما پر بنائے ہیں کہ یہاں صرف سیاست ہوگی ، چوبیس گھنٹے خبروں کے ہتھوڑے سننے والوں کے سروں پر برسائے جائیں گے۔ٹی وی پر معاشرے کے پڑھے لکھے اور سنجیدہ فکر دانشوروں اور استادوں کا داخلہ بند ہوگا۔ ڈاکٹر صفدر محمود جیسے استاد اور دانشوروں کو ٹی وی پر کبھی کسی نے گفتگو کرتے دیکھا؟ایسے لوگ نئی نسل کی تربیت کر سکتے تھے پاکستانیت اور حب الوطنی ان کے دلوں میں انڈیل سکتے تھے۔مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ دو دن کا وقفہ پڑا ہوگا کہ ڈاکٹر صفدر محمود کے بعد ممتاز جاسوسی ناول نگار طارق اسماعیل ساگر بھی کرونا کی وبا کے ہاتھوں جن کی بازی ہار گئے ۔کیسی عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود کی طرح طارق اسماعیل ساگر بھی تمام عمر پاکستانیت کے عشق میں ڈوبے اپنے قلم کے جوہر ناول نگاری کی صورت میں دکھاتے رہے۔ ایک اخبار کے دفتر میں جہاں میں نے میگزین سیکشن سے اپنی صحافت کا آغاز کیا تھا ،وہاں ان سے ملاقات رہتی تھی کہ وہ بھی میگزین کاحصہ تھے۔ادارے کے ساتھ ان کا معاہدہ کچھ یوں تھا کہ وہ صرف ایک یا دو گھنٹے کے لئے دفتر آتے۔میگزین کے لیے مخصوص کمرے میں ہمارے ساتھ ہی بیٹھا کرتے۔وہ صبح سویرے آ جاتے تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ آفس میں بیٹھ کر واپس چلے جاتے۔ میگزین کے دوسرے ساتھی بھی اسی کمرے میں بیٹھا کرتے۔چائے منگوائی جاتی اور اکثر ان سے ان کے ناولوں کے بارے میں گفتگو رہتی۔جاسوسی ناولوں میں انہوں نے شاندار کام کیا۔ طارق اسماعیل ساگر کسی اور ملک میں ہوتے تو دولت میں کھیلتے جس نوعیت کے جاسوسی ناول وہ لکھتے تھے اس پر سپر ہٹ ایکشن اور سسپنس سے بھری فلمیں بن رہی ہوتیں۔مگر یہاں صورتحال یہ تھی کہ 72 ناول لکھنے کے بعد اور قارئین کے مقبول ترین لکھاری ہونے کے باوجود ادبی گروہ بندیوں نے انہیں کبھی سنجیدہ ناول نگار تسلیم نہیں کیا کہ وہ انہیں محض پاپولر ادب کا لکھاری سمجھتے تھے۔انہیں ادیبوں سے بھی گلہ تھا اور وہ ادبی گروہ بندیوں سے بھی نالاں تھے۔حتی کہ عمر کے آخری دنوں میں وہ شکوہ سنج تھے کہ ان کے بے حد مقبول ناولوں کی پی ڈی ایف تیار کرکے مفت خوری کرنے والے ان کے رزق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ ناول نگاری اور ان کی اشاعت ہی ان کے روزگار کا واحد ذریعہ تھا۔بس وہ یہی شکوہ کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے۔72 کتابوں کے مصنف مقبول ناول نگار کے اس دنیا سے رخصت ہونے پر بھی میڈیا لاتعلق رہا۔وہ لکھاری جس نے اپنے لفظوں سے پاکستان نوجوانوں کے ذہنوں میں پاکستان سے محبت انڈیلی، انہیں کتاب کی محبت میں مبتلا کرکے ان کی ذہنی تہذیب میں اہم کردار ادا کیا اس کا جانا میڈیا کے لیے خبر نہیں بنتا ؟