ڈاکٹر شیریں مزاری ایک بیباک اور بہادر خاتون ہیں۔ جن کا تعلق مزاری قبیلے کی چیف فیملی سے ہے اْن کے والد سردارعا شق محمد خان مزاری ایک بہت بڑے جاگیردار اور صنعت کار تھے ۔ سردارعاشق مزاری میر بلخ شیر خان اور سردار شیر باز خان مزاری کے سوتیلے بھائی تھے۔ میر بلخ شیر خان مزاری اِس وقت 98 برس کی عمر میں بھی مزاری قبیلہ کے سردار ہیں۔ اْن کا ماضی بے داغ ہے وہ ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنمیں زمینوں کے لحاظ سے بھی بڑے جاگیردار ہیں۔ مزار بلوچی زبان میں شیر کو کہتے ہیں۔ اِس قبیلہ کی زمینیں دامن کوہ سلیمان سے شروع ہو کر کچہ کے علاقہ دریائے سندھ تک چلی جاتی ہیں۔ مزاریوں کی ماضی میں سکھوں کے ساتھ دو مرتبہ خون ریز جنگیں ہو چکی ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ملتان کے صوبیدار دیوان ساون مل نے جب پہلی مرتبہ 1839ء میں مزاریوں پر اْن کے آئے روز کے حملوں کی وجہ سے تنگ آکر فوج کشی کی تواس جنگ میں سکھوں کو مزاریوں کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔ ایک سال بعد دیوان ساون مل نے مہا رارنجیت سنگھ سے پانچ ہزار کی نفری لے کر روجھان مزاری پر دوبارہ حملہ کیا جس میں مزاریوں نے سکھوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے پہاڑوں کا رخ کیا اور یوں سکھ فوج واپس ملتان آگئی۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر ملتان سمیت پورے خطہ جنوبی پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ انگریزوں نے ڈیرا جات کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے بلوچ سرداروں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اِن سرداروں میں طاقت ور قبائل کو باقاعدہ طور پر تمن داریاں عطا کر کے ڈیرہ غازی خان کے تمام بڑے بلوچ قبائل کو زیر نگیں کر لیا۔ آٹھ بڑے بلوچ قبائل کو تمن دار بنایا گیا جن میں مزاری ، لغاری ، گورچانی ، دریشک ، بزدار ، کھوسہ قیصرانی ، لْنڈ شامل تھے۔ جبکہ نتکانیوں کے سردار اسد خان کی طرف سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے پر اْسے تمن داری سے محروم کر دیا گیا۔ انگریزوں نے اِن سرداروں کو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل زمینیں عطا کی تھیں قدیم ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن سنڈے مین نے 1860ء میں کو ہ سلیمان کا تاریخی سروے کیا اور بلوچوں کی نفسیات کے مطابق اْن کے ساتھ نہایت عزت اور احترام کا سلوک کیا اور اْن کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ سنڈے مین نے اپنی رائے میں لکھا کہ بلوچ صرف عزت اور احترام چاہتا ہے جو بھی اِن کو عزت دے گا وہ اِن پر حکومت کر سکے گا۔ یوں حکومت برطانیہ نے سنڈے مین کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے بلوچوں کو مکمل عزت اور احترام دے کر ایک سو سال تک پورے بر صغیر سمیت ڈیرہ غازی خان اور بلوچستان پر حکومت کرتے رہے۔ اِس مختصر تاریخی پس منظر کے بعد اب ذرا اِس طرف آتے ہیں کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اینٹی کرپشن والوں نے ڈاکٹر شریں مزاری کو کیوں گرفتار کیا اور پھر اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر رات گئے رہا کر دیا۔ ڈاکٹر شریں مزاری کے والد سردار عاشق خان مزاری مرحوم پر چالیس ہزار کینال سرکاری رقبہ کچہ میاں والی کے ریکارڈ میں خرد برد کرنے کا الزام تھا۔ ایوب خان کے زمانہ میں جب جاگیرداروں کے خلاف ریفامرز ایکٹ تیار کیا گیا تو اْسے مکمل با اختیار ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا۔1972 ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیرداروں کے خلاف زرعی اصلاحات کے نام سے کاری ضرب لگائی۔ جس میں سب سے زیادہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے بلوچ سردار متاثر ہوئے اِس دوران با اثر سردار نے محکمہ ریونیو کی ملی بھگت خصوصاً ’’پٹواری بادشاہ ‘‘ کی خصوصی عنایات سے اِس رقبہ کو دریا برد ظاہر کیا یعنی محکمہ مال کی جمع بندیوں اور دیگر ریکارڈ عکس مساوی وغیرہ میں قیمتی زمین چالیس ہزار کینال کو دریا برد دیکھایا گیا جبکہ اصل ریکارڈ پٹواری نے اپنے گھر چھپا دیا۔ اِس تمام تر صورتحال کے بارے میں نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر راجن پور کی مدعیت میں اینٹی کرپشن میں مقدمہ درج کیا جبکہ تفتیشی مقدمہ نے پچاس سال کے بعد گم شدہ اصل ریکارڈ بھی ایک ریٹائرڈ پٹواری کے گھر سے برآمد کر لیا۔میرے خیال میں ڈیرہ غازی خان کے تمام سرداروں اور تمن داروں کی بڑی بڑی جاگیروں کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہیئں ۔ مرحوم محمود بٹ 1998 ء کے دوران ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان تھے انہوںنے ایک دن 1872کا وہ ریکارڈ ملاحظہ کرنے کے لیے منگوایا کہ جو انگریزوں کے زمانے میں سب سے پہلے ڈیرہ غازی خان کے ایکسٹراسسٹنٹ (افسر بندوبست مال) منشی چمن لعل نے مرتب کیا تھا۔ منشی چمن لعل جو کہ ہندوتھا لیکن اْس شخص نے پہلی مرتبہ نہایت باریک بینی کے ساتھ ڈیرا جات کا بندوبست مرتب کیا اور پہلی مرتبہ اصل زمینی مالکان کے نام رجسٹرڈ کئے گئے اور جمع بندیاں ، انتقال وغیرہ کیے گئے۔ مرحوم محمود بٹ نے تمام پرانی جمع بندیاں اکٹھی کر کے ایک بڑے سردار صاحب کے سامنے رکھ کر بتایا کہ سردار صاحب تمام بڑے قبیلوں نے بر زور شمشیر زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے تو وہ سردار صاحب مسکرائے اور پھر فرمایا دنیا میں یہی اصول ہے کہ طاقت ور جس طرح سے چاہے ویسے ہی ہوتا ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے محکمہ ریونیو کا اصل پرانا ریکارڈ اگر اسی طرح سے چیک کیا جائے کہ جس طرح سے مزاری قبیلہ کا کیا گیا ہے تو دیگر بلوچ سرداروں کی بھی زمینوں کے حوالے سے اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔ دراصل ڈیرہ غازی خان اور اِس کے ساتھ دیگر ملحقہ علاقوں میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے کہ یہاں پر تعداد کے لحاظ سے بلوچ اقوام کی اکثریت ہے اور وہ اس لیے غربت کی چکی میں پیس رہے ہیں کہ اْن کے نام پر سرداروں نے خود تو بڑی بڑی جاگیریں حاصل کر لی تھیں اور اْن کے حصے میں دس دس ایکٹر زمینیں آئی تھیں جاگیرداروں کے آبا و اجداد کے حصے میں ہزاروں ایکڑ زمینیں آئی تھیں جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اس لیے انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ حکومت سب کا بے رحم احتساب کرے۔ یہی ہزاروں ایکڑ رقبے غریب اور بے آسرا مقامی کاشت کاروں میں تقسیم کیے جائیں۔ جس سے نہ صرف انصاف کا بول بالا ہو گا بلکہ اِس خطہ میں غربت بھی ضرور کم ہو گی۔