ملکی سیاست میں اِس وقت زبردست اتار چڑھاؤ کی کیفیت ہے۔ عمران خان وزارت عظمی سے محروم ہو چکے ہیں ۔ بلکہ پوری تحریک انصاف کو اب ایک نئی منزل کی تلاش ہے ۔ شہباز شریف وزیر اعظم بن چکے ہیں اور اُنہوں نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنی پرواز شروع کر دی ہے ۔ چونکہ سیاست کے سینے میں رحم نہیں ہوتا، اسی طرح شہرت اور پروٹوکول کی دنیابھی عارضی اور نا پیدار ہو تی ہے ،بادشاہ کو فقیر بنتے دیر نہیں لگتی اور فقیر کو بادشاہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہ سب فیصلے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں لیکن ہم کہتے رہتے ہیں کہ فلاں نے سازش کر کے مجھے میری حکومت سے محروم کر ا دیا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں، زندگی کی طرح اقتدار کی بہاریں بھی عارضی اور فانی ہیں۔ اس لیے تو دنیا میں رہنے والے دانا اور فقیر منش لوگوں نے کبھی بھی اقتدار کی خواہش نہیں کی ہے۔قارئین! یہ تو اہل سیاست اور اہل دنیا کی باتیں ہیں جو آج مجھے کرنے کو جی نہیں کر رہا جبکہ اپنے علاقہ کے مسائل پر بھی پھر کبھی سہی اور ویسے بھی پہلے بہت کچھ لکھ چکے ہیں ۔آج ذرا من کی باتوں میں اپنے علاقہ کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ پر باتیں کرنے کو جی چاہا رہا ہے اور ویسے بھی رمضان المبارک کی پاکیزہ مبارک ساعتیں بڑی تیز ی کے ساتھ گزر رہی ہیں اور ہمیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ تمہاری زندگی میں سے ایک اور رمضان المبارک کم ہوتا جا رہا ہے یقین جانیے ہم سب خسارے میں ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے (نقصان ) میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے اور آپس میںحق کی تاکید کرتے رہے اور صبر کیا اب اِس نقصان سے بچنے کے لیے چار باتوں کی ضرورت ہے ۔ پہلے یہ کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ پر ایمان لانا اور پھر جو وعدے اللہ تعالیٰ نے کیے ہیں اُن پر مکمل یقین کامل ہونا چاہیے ۔تیسرا یہ کہ صرف اپنی انفرادی اصلاح پر قناعت نہ کرے بلکہ قوم اور ملت کے اجتماعی فساد کو پیش نظر رکھے اور جب وعظ ونصیحت کرے تو حق بات کہنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹے اور پورے صبر کے ساتھ ڈٹا رہے یہ شان ہوتی ہے۔ ایک سچے انسان کی جو ہر وقت اپنے رب سے مانگتا ہے اور پھر اُسے ہر حال میں ہر کام میں ہر جگہ ہر لمحے اللہ تعالیٰ ہی نظر آتا ہے اور یہی ایک ادا مستانہ ہے ۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کہ جو حضرت محی الدین عربی کے نظریہ وحدۃ الوجود کے قائل تھے کہ ہر صفت میں اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہے حضرت خواجہ غلام فرید ؒ سرائیکی دھرتی ہے، ایسے مایہ ناز شخصیت ہیں کہ جن کی شاعری میں ہر جگہ اللہ اور اُس کے محبوب حضرت محمدؐ کا مبار ک ذکر ہے۔ اگر حضرت خواجہ غلام فرید کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے ۔ تو انسان کو سرائیکی زبان کے ایسے میٹھے لفظ ملتے ہیں کہ اُن کو پڑھ کر انسان پر وجد طاری ہو جاتا ہے حضرت خواجہ فرید سرائیکی دھرتی کے ایسے فقیر منش اولیا اللہ میں سے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی طور پر بھی بڑی عزت اور شان عطا کی تھی لیکن آپ نے فقر کو اختیار کیے رکھا آپ حضرت فاروق اعظمؓ کی اولاد میںسے ہیں آپ کا شجرہ حضرت عمر فاروق ؓ سے ملتا ہے۔ آپ کے آبا و اجداد نے عرب سے سندھ ہجرت کی تھی اور بعد میں سندھ سے چاچڑاں شریف کو اپنا مسکن بنایا نواب صادق محمد خان والی ریاست بہاول پور حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے عقیدت مندوں میں سے تھے اور ہمیشہ آپ کی وعظ اور نصیحت پر عمل پیرا رہتے تھے ۔ حضرت خواجہ غلام فرید مکمل طور پر شاعر فطرت تھے۔ شاعر مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ جو خود ایک بڑے عاشق رسول ؐ تھے اور جن کی شاعری مسلمانوں کے لیے درس راہ منزل ہے لیکن وہی اقبال حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کو ایک عظیم صوفی شاعر قرار دے کر فرماتے ہیں کہ خواجہ غلام فرید ؒ کی شاعری کو ایک محدود علاقہ تک رکھا گیا ہے وگرنہ وہ تو ایک عظیم شخصیت ہیں ظاہری بات ہے کہ ایک سچا عاشق رسولؐ ہی اپنے دوسرے ہم راز عاشق رسولؐ کو ہی جانتا ہو گا ۔ حضرت خواجہ فرید ؒ کا پیغام دراصل فطرت کا ایک سچا پیغام ہے جو آج بھی ہماری دھرتی کے علاوہ پوری دنیا میں زندہ ہے حضرت خواجہ فرید ؒ کی مشہور کافی جو اُنہوں نے آقا ئے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی عقیدت اور محبت میں ڈوب کر لکھی ہے وہ میں یہاں پر اپنے قارئین کے لیے نقل کروں گا کہ اگر حضرت جامی ،حضرت مولانا جلال الدین رومی ،حضرت شیخ سعدی ، حضرت خواجہ ، حافظ شیراز، امام بوصیری، اقبال ، جیسے عظیم انسانوں ے اپنے محبوب اور آقا کو حضرت محمد ﷺ کو اپنے اپنے رنگ میں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن اِن سب سے حضرت خواجہ غلام فرید کا اپنا ایک نرالہ رنگ ہے جیسے وہ فرماتے ہیں : اِتھاں میں مٹھری نت جاں بلب اوتاں خوش وسدا وچ ملک عرب ہر وھیلے یار دی تانگھ لگی سونجے سینے سِک دی سانگ لگی تھی مِل مِل سول سمولے سب تتی تھی جوگن چودھار پھراں ہند، سندھ ، پنجاب تے ماڑ پھراں سونج بار تے شہر بازار پھراں یہ وہ عظیم کافی ہے کہ جس پر سرائیکی شاعری ناز کرتی ہے ۔ جس میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ اپنے آپ کو حضور اقدسؐ کی محبت میں فنا کر دیتے ہیں۔ سرائیکی کو پڑھنا اور لکھنا اساتذہ کا کام ہے ۔