حضرتِ انسان کہ جس سے متعلق باری تعالیٰ نے سورۃ والتین میں چار چیزوں (انجیر، زیتون، طورِ سینا اور امن والے شہر مکہ) کی قسم کھا کے فرمایا: لَقَد خَلَقنا الاِنسانَ فی اُحسن تَقویم ہم نے اس انسان کو نہایت بہترین انداز سے تخلیق کیا بلکہ ایک جگہ تو یہ بھی ارشاد ہے کہ ’ہم نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔‘ خدائے واحد کی اس بے مثل تخلیق کو ذہنی یا جسمانی کسی حوالے سے بھی پرکھیں، اس کی اس سے بہتر تعریف(praise اور definition دونوں معنوں میں) ممکن ہی نہیں۔یہ خدا کی بنائی واحد مخلوق ہے جسے نیابت اور تخلیق کا وصف عطا کرنے کے ساتھ ساتھ مرضی اور اختیار کی نعمت سے بھی نوازا گیا۔ جب یہ لاڈلا اسی اختیار اور مرضی کو اپنی ذاتی اور نفسانی خواہشات کے تابع کرتا چلا گیا تو یہی مرضی، مرض کی صورت اختیار کر گئی اور یہ مٹی کا پُتلا اسفل السافلین کے پاتال میں گرتا چلا گیا۔ سورہ والتین کا ذکر آیا ہے تو بتاتے چلیںکہ برِ عظیم میں مسلمانوں کے ایک نہایت مخلص رہنما اور شاعر لسان العصر اکبر الہٰ آبادی نے اسی سورہ میں والتین کی رعایت سے انگریزی دور کے علما کی اپنے فرائض سے چشم پوشی کی بابت فرمایا تھا: شیخ تثلیث کی تردید تو کرتے نہیں کچھ گھر میں بیٹھے ہوئے والتین پڑھا کرتے ہیں یعنی عیسائیوں کے تین خداؤں کی تردید تو رہی ایک طرف، گھر میں تلاوت بھی سورہ ’تین‘ ہی کی کر رہے ہیں۔ انسانیت کی یہی ابتر حالت مکہ اور اس کے گرد و نواح میں بھی تھی جب ہادیِ بر حق اور مخلصِ اعظم ﷺ کو خدائے عظیم ترین نے ان لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ وہ ہستی جسے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے کامل و عامل نمونہ بننا تھا۔ اُس وقت کے عرب معاشرے میں زنا، شراب، جوأ، جھوٹ، مکر، غلامی، فحاشی، کینہ جیسی برائیاں عام تھیں۔ سب سے بڑھ کے شِرک، کہ انھوں نے ہر شعبے کے لیے الگ خدا بنا رکھے تھے۔ مولانا حالی نے ’’مدوجزرِ اسلام‘‘ میں یوں نقشہ کھینچاہے: جُوا اُن کی دن رات کی دل لگی تھی شراب ان کی گھُٹی میں گویا پڑی تھی کبھی تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا انسان کی اسی ناگفتہ بہ حالت کو سُدھارنے کے لیے مصلحِ اعظم ﷺ کا انتخاب کیا گیا، جن کی سیرتِ طیبہ میں ہمیںقدم قدم پر شگفتہ مزاجی، زندہ دلی اور لطافتِ طبعی کے خوش نما پھول کھلے نظر آتے ہیں۔ مزاح اور مذاق میں بظاہر ایک نازک اور بباطن ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ مزاح کے پیچھے خوش ذوقی اور ہمدردی براجمان ہوتی ہے جب کہ مذاق میں چھیڑ چھاڑ، تضحیک اور تمسخر کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ پہلے کا مقصد ہنسانا اور سمجھانا، جب کہ دوسرے کا مدعا کسی کو ستانا بھی ہو سکتا ہے۔ آپ ﷺ اس لطیف فرق سے بخوبی آشنا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی دل لگی اور خوش کلامی کا مقصدِ وحید کسی پہ چوٹ کرنا نہیںبلکہ ان کا دل جیتنا ہوتا تھا۔ آپ ﷺ کی ہنسی مزاح میں معاملہ شاید ہی کبھی تبسم زیرِ لب سے آگے بڑھا ہو۔ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ازواجِ مطہرات ؓ، صحابہؓ اور ملاقاتیوں سے ہونے والی گفتگو میں جا بہ جا خوشگواریت کے شگوفے کھلے نظر آتے ہیں مگرکبھی یہ شگفتگی اعلیٰ معیار سے ہٹتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ کسی سوالی کی درخواست پر سواری کے لیے اونٹ کا بچہ تجویز کرنا… جنت کی دعا کی تمنا کرنے ولی بڑھیا سے فرمانا کہ ’کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی… نیز حضرت علیؓ کے گٹھلیوں سمیت کھجوریں کھانے والے واقعات زبان زدِ عام ہونے کے باوجود اب تک مزہ دیتے ہیں۔ شگفتنی و لطف رسانی کی اہمیت واضح کرنے کے لیے آپ ﷺ کی سیرت سے چند مزید واقعات درج کیے جاتے ہیں: ایک خاتون نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے خاوند سے متعلق بات کرنا چاہی تو آپ نے پوچھا: ’تیرا خاوند وہی ہے جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے؟‘ وہ گھبرائی تو اس لطیف نکتے سے آگاہ فرمایا: ’پریشان کیوں ہوتی ہو؟ ہر آنکھ میں سفیدی ہوتی ہے۔‘ اسی طرح باتوں باتوں میں ایک شخص کی ذہانت ماپنے کی غرض سے دریافت فرمایا کہ: ’تمھارے ماموں کی بہن تمھاری کیا لگتی ہے؟‘ وہ سر جھکا کر سوچنے لگ گیا تو آپ ﷺ مسکرا دیے اور فرمایا: ’ ہوش کرو تمھیں اپنی ماں بھی یاد نہیں؟ ‘ ایک صحابی معمر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مجھے آپ ﷺ کی خدمت کا موقع ملا۔ جب منیٰ میں آپ ﷺ نے قربانی کر لی تو مجھے حجامت کا حکم فرمایا۔مَیں اُسترا پکڑ کر آپ ﷺ کے پاس کھڑا ہوا تو آپ ﷺ نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا: ’اے معمر! اللہ کا رسول اپنا سَر تیرے قابو میں اس حالت میں دے رہا ہے کہ تیرے ہاتھ میں اُسترا ہے!‘ حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریم ﷺ اپنی بیویوں میں سے بعض کے پاس تشریف لائے۔ ان میں اُمِ سلیم ؓ بھی تھیں جو سفر کی تھکن کا تذکرہ فرما رہی تھیں۔ غلام (انجشہ) جو خواتین کی سواری والے اونٹوں کو تیز تیز چلا کے لایا تھا، وہ بھی پاس کھڑا تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’انجشہ! شیشوں کو آہستہ چلا…‘ خیرالبشرﷺ کی یہی شیریں بیانی، لطیف تشبیہات اور نادر استعارات کا استعمال صحابہ ؓ اور ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ ہونے والی گفتگوؤں میں اکثر نظر آتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ: ’’آپ ﷺ مزاح فرماتے تھے اور ارشاد کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچا مزاح کرنے والے پر گرفت نہیں کرتا۔ نسلوں سے بھٹکی ہوئی آدمیت کو راہ راست پر لانے اور برائی کے مرغوب و مغضوب راستے سے ہٹانے کے لیے ان کا اعتماد حاصل کرنا اور دلوں کو جیتنا نہایت ضروری تھا جو شگفتہ مزاجی اور ظرافت و دل لگی کے بغیر ناممکن تھا کیونکہ آپ ﷺ کی شخصیت میں نبوت کا رعب داب اس قدر ہوتا تھا کہ اگر آپ ﷺ زندہ دلی اور مزاح کا انداز اختیار نہ کرتے تو لوگ بہت زیادہ مرعوب ہو جاتے۔‘‘ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ آج ہمارے سیاست دان، حضورﷺ کی محبت میں چائنہ کے بے تحاشا چراغ جلانے والے عوام، ایک دوسرے سے منھ ماری کرتے پڑوسی، بات بات پہ جھگڑتے لالچی رشتے دار اور سب سے بڑھ کے آتشِ دوزخ سے ہر لمحہ ڈراتا، قرآن کی بجائے قصے کہانیاں سناتا، سواد کی بجائے محض ثواب کے لیے نماز پڑھتا، عادت کو عبادت سمجھتا، دین کو عملی زندگی سنوارنے کی بجائے نیکیاں سمیٹنے کا موقع خیال کرتا، مذہبی مصلح کہ جس کے چہرے پہ غصہ، ناراضی اور شدت کندہ ہو چکی ہے، سب کے سب حضور ﷺ کی اس لطیف حکمت و سُنت سے ناآشنا ہیں!!!