میرے گاؤں اور امریکا کی ترقی میں صرف ایک ہندسے کا فرق ہے کہ امریکا میں 1882ء میں بجلی سے جلنے والا بلب ایجاد ہوا تھا اور میرے گاؤں میں1982ء میں بجلی آئی تھی ۔کسی زمانے میں مَیں نے شہر اور گا ؤں کے فرق کے متعلق لکھا تھا کہ گاؤں سے شہر کا جتنا بھی فاصلہ ہے، شہر سے گاؤں کا فاصلہ اس سے بہرحال بہت زیادہ ہے۔،بقول شاعر: نہ جانے شہر کی گلیوں میں کیسا جادو تھا کوئی بھی قیس نہیں دشت میں دوبارہ گیا صرف تین چار دہائیاں ادھر کی بات ہے، پنجاب کے تقریباً تمام دیہات میں ایک حیرت ناک مماثلت ہوا کرتی تھی کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں ایک مستری ہوتا تھا، جسے لوہے لکڑی کی دیہاتی ضروریات کی جملہ اشیا بنانے میں کمال مہارت ہوتی تھی۔ ذرا بڑے دیہاتوں میں لوہار اور ترکھان الگ الگ ہونے کے باوجود کسی سایہ دار درخت یا کسی چھپر تلے پاس پاس دکان بناتے تھے کیونکہ ان کے بہت سے کام مشترک ہوتے۔ روزمرہ استعمال کے اکثر اوزار دونوں کی باہمی کاوش سے وجود میں آتے۔ مثلاً درانتی، کَسّی یا کلہاڑی لوہار بناتا اور ان میں دستہ فِٹ کرنے کا کام ترکھان کے ذمے ہوتا۔ پورے گاؤں کا آٹا پیسنے والے خراس نیز سرسوں اور تارے میرے سے تیل نکالنے والے کوہلو کی دیکھ بھال ترکھان کرتا اور کھیتوں کو سیراب کرنے والے رہٹ کی مرمت کا کام لوہار کے فرائض میں آتا، جب کہ گڑ، شکر اور چینی (براؤن شوگر) کی تیاری کیلئے گنے کا رس نکالنے والے بیلنے کو رواں رکھنے میں دونوں کی خدمات درکار ہوتیں۔ یہ یاد رہے کہ ان چاروں مشینوں میں انجن کا فریضہ چست و توانا بَیل ادا کرتے۔ پھر گاؤں کے لوگ انھی بَیلوں کی مدد سے ہل، کراہ اور چھکڑا بھی چلاتے، یوں سمجھ لیں کہ اس زمانے میں کسان کی معیشت کا سارا دارومدار بَیل پر ہوتا تھا، جسے وہ اس کی بھلمنساہٹ، جفاکشی اور دیانت دارانہ فرض شناسی کی بنا پر پیار سے ’’ٹَگّا‘‘ کہتے تھے۔ یاد رہے سندھ کے لوگ آج بھی پنجابیوں کی رواداری اور صلح جُو طبیعت کے سبب انھیں اسی لقب سے یاد کرتے ہیں۔ تمہید ذرا لمبی ہو گئی، بتانا در اصل یہ تھا کہ ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہو جانے والے لکڑی اور لوہے کے یہ دو انجنئیر بالعموم گاؤں کے کسی کیکر یا پیپل کے درخت کے نیچے کسی ستائش اور فوری صلے کی تمنا کے بغیر ہی سارا سارا دن اپنے اپنے فن کے کرتب دکھاتے نظر آتے۔ موسم کی حدت یا شدت سے بے نیازوہ ایک چھوٹی سی ورکشاپ میں اپنے محدود سے اوزار وں (کلہاڑا، تیشہ، رندا، ورما، سِتھرا، آری، چھینی، ہتھوڑا، ریتی، ٹکورا وغیرہ)کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے لیے ہَل، پنجالی، کُڑ، اَرلی، گاترا، جُولا، پھٹ، جنگی، پھالے بنا رہے ہوتے۔ گھریلو خواتین کے لیے رانگلی مدھانی، گھڑونجی، زمین پہ گھڑے ٹکانے کے لیے چوکور شکل کے سانچے، پتھر کی دَوری میں مرچیں گھوٹنے اور کپڑے دھونے کے لیے الگ الگ سائز کے ڈنڈے اور برتن لٹکانے کے لیے ٹنگنا بناتا۔ ترکھان مَنجی پیڑھی ٹھوکنے کا کام بھی بخوبی کر لیتا اور لوہار گھر گھر لگے نلکے (ہینڈ پمپ) کی تسلی بخش مرمت کا کام بھی جانتا ہوتا۔ فصل کی کٹائی کے دنوں میں لوہار میاں بَیلوں کو کھُریاں لگاتا اور ترکھان گندم گاہنے کے لیے پھَلے (کسی درخت کے ایک بڑے سے ٹہنے کو مختلف چیزوں سے وزن دار اور بوجھل کر کے ایک رینگنے والی مشین تیار کی جاتی، جسے پھلا کہتے، شدید گرمی میں اسے کھینچنے کا کام بھی بے چارے بَیلوں ہی کے سپرد ہوتا۔اس کی مدد سے گرمی سے کڑکڑاتی اور دائرے کی شکل میں زمین پہ بچھائی گندم کو گاہنے یعنی تھریش کرنے کے لیے کام میں لایا جاتا) اور ترینگل (تقریباً پانچ چھے فٹ لمبے ڈنڈے کے سرے پہ نہایت فن کاری کے ساتھ انگلیوں کی طرح آگے سے پھیلی ہوئی اور پسلیوں کی مانند ٹیڑھی اور نوک دار سُتلیاں لگا کے اس سے تھریش کی ہوئی گندم کو ہوا میں اچھال کے دانے اور بھوسہ الگ کرنے کا کام لیا جاتا)تیار کرتا۔ گندم اور بھوسہ الگ الگ کر کے گندم کو چھَٹوں (چھَٹ، دو بوریوں کو باہم ملا کے بنائی ہوئی خورجی کو کہتے، جسے چباڑی (بانس کا ایک مضبوط ڈنڈا) کی مدد سے گدھے کی پیٹھ پہ لادنے میں آسانی ہوتی) میں بھر کے کمہار کے گدھوں پہ لاد کے گھر لایا جاتا اور بھوسہ یعنی تُوڑی کے بڑے ڈھیر کو ایک بڑی قبر کی شکل دے کے اس کے اوپر گارے کی لپائی کر دی جاتی، جسے گاؤں کی زبان میں تَڑھ کہتے اور اس میں سے سارا سال تُوڑی نکال کے اسے جانوروں کے لیے بطور چارہ استعمال کیا جاتا۔ کچے مکانات کی لپائی میں بھی یہی تُوڑی گیلی مٹی میں بطور سیمنٹ استعمال ہوتی۔ بعض اوقات اُڈاوے (تھریش کی ہوئی گندم کو مہارت سے ہوا کے رُخ پہ اچھالنے والے) کئی کئی دن مناسب ہوا کی تلاش میں بوہل (گندم کا ڈھیر) کے سرہانے بیٹھے رہتے۔ پھر یہی ترکھان شادی بیاہوں سے قبل کلہاڑے سے لکڑیاں چیر کر دیگوں کے لیے بالن بناتے او ر لوہار بقرعید پہ قربانی کے لیے چھریاں اور بُغدے تیز کرتا نیز گھروں میں استعمال کے لیے کلہاڑیاں اور کھُرپے (رنبے) تیار کر کے دیتا۔ دروازوں پہ لگی کُنڈیاں اور گائیں، بھینسیں باندھنے کے لیے سَنگل (زنجیر) کی مرمت بھی انھی کے فرائض میں داخل تھی، بلکہ ساتھ والے گاؤں کے حسینو لوہار کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے جو بھی ولایتی سے ولایتی بندوق یا پستول ایک بار دکھا دیا جائے وہ اس کی ہو بہو نقل اتار دیتا ہے۔ حال کے مقبول ترکی ڈرامے ارطغرل غازی میں نئی نسل نے آئکس (شاہینہ) کے والد اور ترگت (نور گل) کے سسر دَیلی دمیر نامی لوہار کو دیکھا ہوگا، جو قائی قبیلے کے لیے اسلحہ سازی کے فرائض نہایت مہارت سے انجام دیتا ہے۔ ارد گرد کے کچھ چودھریوں، زمینداروں نے اس لوہار کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، جس کی بنا پر اس کا آئے دن پولیس سے واسطہ پڑنے لگا۔ پھر پولیس والوں نے اس سے خود بہت سے معاملات میں فائدہ اٹھایا۔ پھر مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے گاؤں کا وہ جفرو (ظفر) ترکھان جس نے پورے ضلع میں پہلی بار برسین اور شٹالہ وغیرہ کاٹنے کے لیے پانچ چھے فٹ کی ایک لکڑی کے سرے پہ ایک تلوار لگا کر انگریزی والے ایل کی شکل کی ایک چیز بنائی جسے ’داتر‘ (یعنی داتری (درانتی) کا گھر والا) کا نام دیا ۔ اس مشین کا کمال یہ تھا کہ درانتی سے جو کام ایک گھنٹے میں بہ مشکل ہوتا ، اس کی مدد سے پانچ منٹ میں بہ خوبی ہونے لگا۔ لوگ دور دور سے اس ایجاد کو دیکھنے آتے اور آرڈر پہ بنوا کے لے جاتے۔ مزے کی بات یہ کہ ان سب کو مزدوری صرف فصل پکنے پر، اناج کی صورت میں سال میں صرف دو بار ملتی، اس سے بھی مزے کی بات یہ کہ وہ اس پر بھی خوش تھے۔ مغرب میں بھی سَو برس پہلے سب کچھ ایسا ہی تھا لیکن انھوں نے ان ہنرمندوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور وہ ایڈیسن، مارکونی اور رائٹ برادران بن گئے اور ہمارے ہاں ستم یہ ہوا کہ ہم اللہ کے ان پیاروں (الکاسب حبیب اللہ)کو ’’کمّی‘‘ یعنی کام کرنے والا معمولی آدمی کے لفظ سے یاد کرتے رہے۔ پھر بھی تسلی نہ ہوتی تو ساتھ ’کمین‘ بھی لگا لیتے ’ کمی کمین‘ یعنی ہاتھ سے کام کرنے والا گھٹیا شخص… نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ رزق سے زیادہ عزت کی تلاش میں شہروں کی جانب ہجرت کرنے لگے اور دیہات خالی ہوتے چلے گئے، شاعرنے سچ ہی کہا تھا: شہر میرے گاؤں کی ویرانیوں کا نام ہے (جاری)